تحریر : نسیم احمد باجوہ تاریخ اشاعت     26-12-2017

بادشاہ بے لباس ہے

فارسی میں عریاں ۔پنجابی میں ننگا۔ کسی بھی زبان کا لفظ استعمال کریں۔ صورت حال ایک ہی رہے گی کہ بادشاہ کے جسم پر کوئی لباس نہیں۔ میرے جن قارئین نے اینڈرسن (Anderson ) کی لکھی ہوئی کہانی پڑھی ہوئی وہ جانتے ہیں کہ ایک بے وقوف بادشاہ (حالانکہ زیادہ تر بادشاہ بڑے سیانے اور عقلمند ہوتے تھے) نے اپنی اَنا (جو بے وقوفوں کی خصوصیت ہوتی ہے) کی تسکین کیلئے بڑا قیمتی لباس بنوایا اور فیصلہ کیا کہ وہ اپنی تخت نشینی کی سالگرہ پر اپنے درباریوں کے ساتھ بڑی شان و شوکت سے شہر میںجلوس کی صورت ہاتھی پر سوار نکلے گا تاکہ رعایا کو اُس کے دیدار کی نعمت سے فیض یاب ہو سکے۔ لباس بنانے والا بڑا مکار اور دھوکے باز تھا۔ (آج کل کے درزی اُس کی گرد کو نہیں پہنچ سکتے) اُس مکار درزی نے بادشاہ سے ایک بڑی رقم کی تھیلی بطور قیمت وصول کرتے ہوئے کہا کہ آپ جب یہ نادر زمانہ لباس پہنیں گے تو یہ صرف احمقوں اور ذہنی مریضوں کو نظر نہیں آئے گا۔ جب شاہی جلوس نکلا تو ہر شخص نے بادشاہ کے لباس کی تعریف کی۔ یہ سلسلہ جاری تھا کہ ایک معصوم بچہ بادشاہ کو دیکھ کر پکارا کہ بادشاہ ننگا ہے۔ یہی سچائی تھی۔ بادشاہ کے جسم پر کوئی لباس نہ تھا۔ مگر حماقت کا لیبل لگ جانے کے ڈر سے کوئی شخص بھی نہ سچ بولتا تھا اور کھلی حقیقت بیان کرنے کی جرأت نہ رکھتا تھا۔ اینڈرسن کی لکھی ہوئی مذکورہ بالا کہانی آج ایک ضرب المثل بن گئی ہے۔ جب سب لوگ جھوٹ بولنے پر تل جائیں۔ سچ نہ بولنے کا عہد کر لیں۔ کانوں میں روئی ٹھونس باندھ لیں۔ آنکھوں پر کالی پٹی باندھ لیں۔ اپنی زبان پر خود ہی تالہ لگا لیں۔ گونگے اور بہرے بن جائیں۔ پھر ایک معصوم بچے سے سچ بولنے کا جرم سرزد ہو جاتا ہے۔ چونکہ وہ جھوٹ بولنے کی سازش میں شریک نہیں ہوتا تھا۔ دُوسرا کمال یہ ہوا کہ بچے کا اعلان سن کر باقی لوگوں کو بھی شرم آئی کہ وہ کیوں جھوٹ بول رہے ہیں؟ بادشاہ بے لباس ہے اور وہ اس کے فرضی لباس کی سراسر جھوٹی تعریف کر رہے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ بچے کی زبان سے سچ سن کر باقی لوگوں کو بھی سچ بولنے کی توفیق ہوئی اور وہ سب پکار اُٹھے کہ بادشاہ ننگا ہے۔ یہ سن کر بادشاہ کس تیز رفتار سے بھاگاہوگا اس کا آپ خود انداز ہ لگالیں۔ ایک بات یقینی ہے کہ اگروہ اولمپک کھیلوں میں اسی رفتار سے دوڑتا تو سونے کا تمغہ ضرور حاصل کرتا۔ 
میرے قارئین کے ذہن میں ایک سوالیہ نشان ضرور اُبھرے گاکہ وہ کہانی جو کالم نگار نے اپنے لڑکپن میں (یعنی کم از کم 65 سال پہلے) پڑھی وہ اب کیوں یاد آئی۔ میرا جواب یہ ہے کہ پاکستان کے موجودہ حالات دیکھ کر۔ آپ اخبارات پڑھیں یا ٹی وی دیکھیں یا ملنے والوں کے ساتھ سیاسی گفتگو کریں۔موضوع ایک ہی ہوتا ہے۔ اگلے سال ہونے والے انتخابات۔ وہ ہوں گے یا نہیں؟ ہوں گے تو کب ہوں گے؟ کون جیتے گا؟ زیر عتاب سیاست دانوں کا کیا بنے گا؟ اُن کے مستقبل کے بارے میں قیاس آرائیوں کا تبادلہ کیا جاتا ہے؟ دُوسرے الفاظ میں ساری قوم کی توجہ بذات خود گاڑی کی بجائے اسکے ڈرائیور کے چنائو اور اُس کی خصوصیات اور اچھے برے پہلوئوں پر ہے۔ ہم یہ کیوں نہیں سوچتے کہ نالائقی‘ کرپشن اور عوام دُشمنی کے مہلک امتزاج نے پاکستان کی ریاست اور اس کے ریاستی ڈھانچہ اور اس کے سیاسی بندوبست کو اتنا شدید مریض بنا دیا ہے کہ وہ بلا مبالغہ جاں بلب ہے۔ ہسپتالوں کی زبان میںICU( Intensive Care Unit) میں داخل ہے۔ مصنوعی تنفس سے زندہ ہے اور اتنا بے بس لاچار ہوچکا ہے کہ ڈھائی تین ہزار افراد کا دھرنا بھی اُسے گھٹنے ٹیک دینے پر مجبور کر سکتا ہے۔ موجودہ نیم مفلوج اور بتدریج کمزور ہوتی ہوئی ریاست کا رہا سہا بھرم حالیہ دھرنوں کی بدولت جاتا رہا۔ ریاست کے چار ستون ہوتے ہیں۔ قانون کی حکمرانی ۔ عوامی خوشحالی۔ حکمرانوں کا جذبہ ٔخدمت اور دیانت کا کم از کم اتنا معیار (امتحانوں کی زبان میں 33% یعنی فیل ہونے سے ایک نمبر زیادہ) کہ گزارا ہو جائے۔ بدقسمتی سے پاکستان کی ریاست کے یہ چاروں ستون بڑے کمزور ہو چکے ہیں۔ اُدھر ہم ہیں کہ ہمیں ایک ہی فکر کھائے جاتی ہے۔ کہ ایک دائمی مریض اور ناتواں اور ہر طرح کے صدموں کا شکار ریاستی نظام کے گھوڑے پر سواری کا اعزاز کسے ملے گا؟ آنے والے وقت میں جب بھی انتخابات ہوں گے (نہ معلوم کب ہوں) اور اُس میں جو بھی سیاسی جماعت کامیابی حاصل کرے گی اُس کی ناکامی کی ضمانت دی جا سکتی ہے چونکہ نہ اُس سیاسی جماعت کا ہاتھ باگ پر ہوگا اور نہ رکاب میں پائوں ۔اگر یہ معجزہ ہوبھی گیا تو پتہ چلے گا کہ گھورا دوڑنا تو کجا چلنے سے بھی معذور ہے۔ آج ہم اپنے حالات کا جائزہ لیں تو دیکھتے ہیں کہ عدالتی نظام انصاف کی فراہمی میں ناکام ہو چکا ہے۔ سپریم کورٹ کبھی دریائے سندھ میں زہریلے پانی کی ملاوٹ پر حکومت کے کان کھینچتی ہے اور کبھی شہروں میں پارکوں پر لینڈ مافیا کے قبضہ اور ناجائز تجاوزات کا نوٹس لیتی ہے۔ اعلیٰ عدالتوں نے انتظامیہ پر جو لاٹھی چارج پچھلے دس سالوں میں کیا ہے۔ اُس کی دُنیا بھر میں مثال نہیں ملتی۔ معیشت پر کئی ہزار ارب ڈالروںکے قرضہ کا اتنا بڑا بوجھ ہے کہ اُسے اُتارنے کی صورت نظر نہیں آتی۔ سیاسی جماعتیں دو قسم کی ہیں۔ ایک وہ جو برسر اقتدار ہیں اور دُوسری وہ جو اقتدار حاصل کرنا چاہتی ہیں۔ اس فرق کے باوجود ان سب کی سو فیصدی توجہ کا ایک ہی مرکز اور محور ہے اور وہ ہے اقتدار۔ اگرہے تو اس سے کسی قیمت پر محروم نہ ہونا اور اگر نہیں تو اسے ہر قیمت پر حاصل کرنا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ریاست کی حفاظت۔ اس کے چار ستونوں کو مضبوط اور مستحکم بنانا۔ 
کالم نگار کا موقف یہ ہے کہ اس وقت ہماری اوّلین ترجیح ایک اور صرف ایک ہونی چاہئے اور وہ ہے ریاست کی مضبوطی اور استحکام۔ اس کے چاروں ستون مرمت طلب ہیں۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم اُنہیں گرنے سے بچالیں۔ اتنا بڑا کام کوئی ایک سیاسی جماعت اکیلے نہیں کر سکتیں۔ اگر وہ سب مل بھی جائیں تب بھی ہماری فوج اور سول سوسائٹی۔ علمائ، کسانوں، مزدوروں، وُکلا، اساتذہ، صحافیوں، رضا کار انجمنوں کی بھرپور امداد کے بغیر کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی۔ اگر ہماری سیاسی صورت حال کا سرسری جائزہ بھی لیا جائے تو اس نتیجہ پر پہنچنے کے لئے راکٹ سائنس کا مطالعہ ضروری نہیں کہ کوئی بھی سیاسی جماعت (چاہے وہ اپنے گڑھ میں ہو) ایک تہائی سے زیادہ ووٹ نہیں لیتی۔ ہر صوبہ میں برسر اقتدار جماعت اقلیت میں ہے اور (Fragile) بھی ہونے کی وجہ سے بہت جلدی ٹوٹ پھوٹ کا شکار بھی ہو جاتی ہے۔ اُسے ہر وقت ایک ہی دھڑکا لگا رہتا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ مخالفین (جو عددی اعتبار اکثریت میں ہیں) اکٹھے ہو جائیں اور اس کا گھیرائو کر لیں اور اُسے اقتدار کے گھوڑے بہت (Hight Horse) سے اُترنے پر مجبور کر دیں۔ سیاسی جماعتوں کی دُوسری کمزوری یہ ہے کہ (جماعت اسلامی کے ماسوا) کوئی بھی داخلی طور پر خود جمہوری نہیں۔ تیسری بڑی کمزوری یہ ہے کہ اُن کی صفوں میں سرتاج عزیز (عالمی سطح کے سول سرونٹ )کے پایہ ٔ کا کوئی سیاست دان نہیں۔ چوتھی کمزوری یہ ہے کہ اگر اُن کے پاس سرتاج عزیز جیسا جوہر قابل ہو بھی تو وہ اُسے کلیدی وزارتی ذمہ داری دینے پر آمادہ نہیں ہوتیں۔کمزوریوں کی فہرست تو اتنی لمبی ہے کہ اس محدود جگہ میں لکھی نہیں جا سکتی۔ مرض کو ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں۔ علاج نہیں جانتے۔ اگر جانتے ہیں تو مانتے نہیںاور اگر مانتے ہیں تو پھر اسکا اظہار نہیں کرتے؟کالم نگار کی رائے میں مستقبل قریب میںہمارے مسائل کا صرف ایک علاج ہے اور وہ ہے وسیع البنیاد قومی حکومت کا قیام۔ ایسی قومی حکومت جو تمام سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے نمائندوں پر مشتمل ہو۔ اس حکومت کو ماہرین ، فوج ، سول سوسائٹی (وُکلا۔ اساتذہ ۔محنت کشوں اور علما ء کرام) کی حمایت حاصل ہوگی تو ہماری گاڑی دلدل سے نکلے گی۔ اب ہم نیا ڈرائیور ڈھونڈنے کی بجائے اپنی گاڑی قابل استعمال بنائیں۔ اجتماعی دانش ہمارے لئے اُمید کی آخری کرن ہے۔ یہ کرن ہمارے افق پر اس وقت طلوع ہوگی جب سیاسی اور مذہبی جماعتوں، فوج اور سول سوسائٹی کے نمائندوں پر مشتمل نئی قیادت ابھرے گی۔ ایک نئی قوس قزح اور ایک نیا گل دستہ ۔ہمارے سیاسی صنم کدوں کے سیاسی براہین تو ضرور برا مانیں گے مگر پرانے بت صرف ایک انجام کے حق دار ہیں۔انہیں اٹھا کر باہر پھینک دیا جائے۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved