تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     26-12-2017

زوال آ کے رہنا ہے

کیا آپ جانتے ہیں کہ انسان کو اس نیلے سیارے پر زندگی گزارتے ہوئے کتنا وقت گزرا ہے ؟ ہمارے پاس انسانی عمر ناپنے کا ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ ہے قدیم ترین انسانی فاسلز۔ فاسلز جانداروں کی باقیات کو کہتے ہیں ، جو کہ زمین کے اندر قدرتی طور پر محفوظ رہ جاتی ہیں ۔ کچھ عرصہ پہلے تک قدیم ترین انسانی فاسلز ایک لاکھ پچانوے ہزار سال پرانے تھے ۔ جون 2017ء میں مراکش میں دریافت ہونے والے فاسلز کی عمر تین لاکھ سال ہے ۔ سائنسدان انہی فاسلز کو مصدقہ سمجھتے ہیں ، سائنسی طور پر لیبارٹری میں جن کی عمرکا تعین پوری صحت کے ساتھ کیا جا سکے ۔ یوں انسان کی عمر کا اندازہ کم و بیش تین لاکھ سال ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ کل اس سے بھی قدیم فاسلز دریافت ہوں ۔ 
جب سے انسان نے اس زمین پر آنکھ کھولی ہے ، ہمیشہ سے وہ زیادہ عقلمند لوگوں کی تلاش میں رہا ہے ۔ ایسے لوگ ہر معاشرے میں پائے جاتے ہیں ، جو معاملات کو دوسروں سے بہتر انداز میں سمجھ سکتے ہیں ۔ ایسے لوگ جوماضی اور حال کا جائزہ لیتے ہوئے ، مستقبل کی پیشین گوئی کر سکتے ہیں ۔ ہمیشہ سے انسانی عقل ایسے لوگوں سے مرعوب رہی ہے ۔اس کی وجہ انسانی دماغ میں موجود خوف بھی ہے ۔ انسان وہ واحد جاندار ہے ، جسے اس زمین پر آزمائش کے لیے اتارا گیا ۔ جس پہ مذہب نازل ہوا اور جسے خدا نے ایک شریعت کا پابند کیا ۔ انسان وہ واحد جاندار ہے ، جس میں پیغمبر علیہم السلام تشریف لائے۔ وہ لوگ ، جنہیں خدا کی طرف سے براہِ راست رہنمائی حاصل تھی ۔خدا نے ہی یہ دنیا بنائی اور اس کے راز وہ اپنے قریب ترین لوگوں کو بتا تا رہا ہے ۔ اس لیے وہ بہت سی ایسی باتیں جانتے تھے، دوسرے جن سے لا علم تھے۔ اس کے بعد وہ لوگ اہم ترین تھے، جنہوں نے پیغمبرانِ عظامؑ سے براہِ راست تعلیم حاصل کی ۔ اس کے بعد وہ، جنہوں نے پیغمبرؑ کے شاگردوں سے تعلیم حاصل کی اور پھر ان کے شاگرد۔ پیغمبروں ؑ کے علاوہ، جنہیں خدا سے براہِ راست رہنمائی حاصل تھی ، انسان ہونے کے ناطے یہ سب سے نیک اور با علم لوگ بھی غلطی کر سکتے تھے اور کرتے تھے؛حتیٰ کہ صوفیا اور اولیا بھی ۔ 
ہم احساسِ کمتری کے مارے ایک مرعوب معاشرے کا حصہ ہیں۔ہمارے یہاں جس کی پیروی کی جاتی ہے ، اسے خدا کا درجہ عطا کیا جاتا ہے ۔ ہمارے ہاں صرف مذہبی اور روحانی لوگوں ہی کا نہیں ، سیاسی تجزیہ کاروں کا حکم بھی یہ ہے کہ آنکھیں بند کر کے ان کی پیروی کی جائے ۔ ہمیشہ ہر معاملے پر جو رائے وہ دیں گے، سب کو اسے تسلیم کرنا ہوگا ۔ یہ تو شاذ ہی دیکھنے میں آیا کہ کسی نے اپنا تجزیہ غلط ہونے کا اعتراف اور اس پر معذرت کی ہو۔ یہاں ایسے صاحبانِ علم و فضل بھی موجود ہیں ، جوروزانہ کی بنیاد پر افواہیں ٹی وی پر سناتے اور پھر بیسیوں افواہوں میں سے کسی ایک کے درست ثابت ہونے پر غل غپاڑہ کرتے نظر آتے ہیں ۔ پچاس افواہوں میں سے جو 49غلط ثابت ہوئیں ، ان کا ذکر ہی نہیں ۔ 
ہمارے معاشرے کا ایک بہت بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم درست تجزیہ نہیں سننا چاہتے بلکہ وہ سننا چاہتے ہیں ، جو ہمیں جذباتی تسکین فراہم کرے ۔ مسئلہ صرف اتنا سا ہے کہ دنیا کے سنگین زمینی حقائق ہماری خواہشات کے مطابق بدل نہیں سکتے ۔ زندگی آدمی سے سمجھوتہ نہیں کرتی بلکہ انسان کو زندگی (کے سنگین حقائق) سے سمجھوتہ کرنا ہوتا ہے ۔ 
فرض کریں ، ایک بہت بڑا سائنسدان ہے ۔ ساری دنیا اسے عقل و دانش کا مینارہ تسلیم کرتی ہے ۔ کیااس کی یہ عقل اس وقت اس کے کام آسکتی ہے ، جب وہ کسی دیہاتی سے بھینس خریدنے جائے؟ دیہاتی اسے کہہ سکتا ہے کہ اس پورے فارم میں اس بھینس کے تھن سب سے زیادہ سخت ہیں ، اس لیے میں اسے مہنگا بیچوں گا ۔ سائنسدان کو کیا پتہ کہ سخت تھن والی بھینس دوہنے میں دوگنا وقت صرف ہوتا ہے ۔ یہ خامی ہے ، خوبی نہیں ۔ اپنے شعبے یعنی سائنس کی دنیا میں ماہر بلکہ لیجنڈ ہونے کے باوجود ایک عام سے دیہاتی سے دھوکہ کھا جائے گا۔ اسی طرح دنیا میں ہر شعبے میں ماہرین پائے جاتے ہیں ۔ اگر کوئی شخص خود کو اس قابل بنالے کہ وہ کسی بھی شعبے کے ماہرین کو پہنچان سکے، ان کی ایک مجموعی رائے کو سمجھ کر آسان الفاظ میں بیان کر سکے تو یہ بھی ایک بہت بڑی مہارت (Skill)ہے ۔ 
دیہاتیوں کی نظر میں تو سائنسدان پاگل ہوتے ہیں ۔کتنے ہی لطیفے ان کے بارے میں بنائے گئے ہیں ۔ انہیں یہ یاد نہیں رہتا کہ کھانا کھا لیا تھا یا نہیں ۔ وہ بڑی کامیابی ملنے پرجوش و خروش میں لباس پہنے بغیر ہی گلیوں میں کامیابی کے نعرے لگاتے نکل جاتے ہیں ۔ بڑے بڑے سائنسدانوں کے بارے میں پڑھیے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ بیچارے تو عام زندگی میں بار بار تماشا بنتے رہتے تھے ۔ زندگی کے عام معاملات میں لوگ آسانی سے انہیں الّو بنا لیتے ۔ ان کی تمام تر ذہانت ، تمام تر توجہ (focus)سائنس کے کسی ایک نکتے پر مبذول ہوا کرتی۔ تبھی تو وہ کوئی بڑی ایجاد کرنے کے قابل ہوتے ۔ان بڑے بڑے دماغوں کے بہت سے نظریات غلط ثابت ہو چکے ۔ ارسطو کا خیال تھا کہ زمین کائنات کا محور و مرکز ہے ۔ اس کے باوجود آج کے اہلِ علم اگر اس کا احترام کرتے ہیں تو اس لیے کہ اس نے انسانوں کو غور و فکر کی طرف مائل کیا۔ اس نے ایک غلط نظریہ ضرور دیا لیکن اس کے پیروکار اگر اس کی بتائی ہوئی سمت میں سفر کرتے رہتے تو ایک دن سچ تک پہنچ جاتے ۔ 
اگر غور و فکر کرنے والے اتنے بڑے بڑے دماغوں کے نظریات غلط ثابت ہو چکے ہیں تو ایک عام شخص کی کیا حیثیت ہے ؟ ہم لکھنے اور بولنے والوں کو ہزاروں لاکھوں لوگ پڑھتے ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم روزمرّہ کے امور ، حکومت اور عوام کے مسائل پر بات کرتے ہیں ۔ ہماری باتوں کو عام لوگ سنتے ہیں ۔ جب ہماری بات ان کے جذبات کی عکاسی کرتی ہے تو پھر وہ ہمارے مستقل قاری بن جاتے ہیں ۔ ہم سے محبت کرنے لگتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ لاکھوں لوگوں کے عقیدت مند ہو جانے کے بعد ہماری گردنوں میں سریا نصب ہو جائے۔ میں اگر لکھنا پڑھنا جانتا ہوں تو زندگی کے دوسرے شعبوں میں عام لوگ، حتیٰ کہ جوتوں کے معاملے میں ایک موچی بھی مجھے بے وقوف بنا سکتا ہے ۔یہ بات یاد رکھیے کہ اپنے شعبے میں اگر غیر معمولی کامیابی آپ نے حاصل کر لی ہے تو یہ ہمیشہ باقی رہنے والی نہیں ۔ محمد علی جیسے باکسر چلے گئے ۔ آپ کے پاس بھی عروج کے بیس تیس سال ہی ہیں ۔ اس کے بعد آپ وہیں دفن ہو جائیں گے ، جہاں آپ سے پہلے کے غیر معمولی انسان ۔ مکمل عقل اور علم صرف خدا کی ذات میں مرکوز ہے یا پھر سرکارﷺکی ذاتِ اقدس میں، جو کہ تقسیم کرنے والے تھے ۔خدا اپنے مکمل علم کے خزانوں میں سے جسے چاہے ایک قطرہ عطا کرتا ہے ۔ ان کے علاوہ سب کا علم ناقص ہے ۔اس لیے اگر کوئی خاموشی سے بیٹھا سوچ رہا ہو تو اس پر طنز نہ کیجیے ۔ ہو سکتاہے، دس سال بعد وہ ایک ایسا نظریہ پیش کرے ، جو دنیا کو بدل کے رکھ دے ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved