تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     27-12-2017

بی جے پی روبہ زوال

بھارت کے وزیراعظم‘ نریندر مودی پر ان دنوں خوف طاری ہے۔ بھارتی صوبے گجرات میں ریاستی انتخابات کا عمل مکمل ہوا۔ نتائج دیکھ کر مودی جی کے چہرے کی جھریوں میں ایک جھری اور بڑھ گئی۔ اگر مزید صوبوں میں یہی صورت حال جاری رہی اور کانگرس کے ووٹوں میں اسی رفتار سے اضافہ ہوتا رہا تو اگلے عام انتخابات میں نصف سے زیادہ ریاستیں‘ کانگرس کی طرف جاتی دکھائی دے رہی ہیں۔ حسب روایت اگر کانگرس کے ووٹوں کی تعداد اسی طرح بڑھتی گئی تو اندازے یہی لگائے جا رہے ہیں کہ کانگرس دوبارہ اقتدار میں آ سکتی ہے۔ گزشتہ عام انتخابات میں بی جے پی بھاری اکثریت سے کامیاب ہو گئی تھی۔ اس کے باوجود کانگرس کے ڈیڑھ دو درجن اراکین‘ ایوان میں بی جے پی کو ناکوں چنے چبواتے رہتے ہیں۔ بی جے پی کے انتہا پسند نمائندے ‘بھاری اکثریت میں ہونے کے باوجود‘ کانگرس کو جواب نہیں دے پاتے۔
بی جے پی گزشتہ پونے چار سال کے عرصے میں‘ قابل ذکر کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر پائی۔ جس ریاستی اسمبلی میں بی جے پی اکثریت کی حامل ہے‘ وہاں بھی اس کی حکومت کو کانگرس کے حملے روکنے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ بی جے پی زیادہ سے زیادہ کچھ کر پاتی تو وہ صرف شور شرابہ ہوتا۔ صرف دو چار مقررین ایسے ہیں جو کانگرس کا سامنا کر پاتے ہیں۔خصوصاً ان کا انتہا پسند رویہ تو خود انہی کے لئے مشکلات کا باعث بن رہا ہے۔ صرف دارالحکومت دلّی میں اروند کجریوال کی عام آدمی پارٹی‘ مستحکم صوبائی حکومت چلا رہی ہے۔ بی جے پی کے جانے بوجھے اراکین‘ گلے اور پھیپھڑوں کا پرزور استعمال کر کے‘ بھی نوزائیدہ عام آدمی پارٹی کے اروند کجریوال کو ذرا بھی دفاعی پوزیشن میں نہیں لا سکے۔ انتخابات کے فوراً بعد‘ تمام قومی پارٹیاں پنجے جھاڑ کے‘ کجریوال کے پیچھے پڑ گئی تھیں۔ کجریوال عملی سیاست سے زیادہ عرصہ دور ہی رہے تھے۔ وہ انا ہزارے کے قریبی ساتھیوں میں شمار ہوتے تھے۔ ان کی زیادہ تر عملی زندگی غیر سیاسی تھی۔ وہ انا ہزارے کی سماجی تحریک کے اندر دیکھ کر‘ یہ اندازہ کرنے پر مجبو ر ہو گئے کہ محض سماجی دھرنے اور جلوس نکال کر‘ وہ معاشرے میں کوئی تبدیلی نہیں لا سکتے۔ جب انا ہزارے‘ کانگرسی حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لئے گئے تو کجریوال اپنے ساتھ قوانین میں تبدیلی کے جو مسودے لے کر آئے تھے‘ کانگرس کو جواب دینے میں مشکل کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کی تجاویز کے مقابلے میں کانگرسی ٹیم‘ مؤثر جواب دینے میں ناکام رہتی جبکہ شعلہ بیان مقرر‘ کجریوال اپنے حلقہ اثر میں تیزی سے اضافہ کرتا جا رہا تھا۔ جب دلی میں اس کی حکومت بنی تو خود عام آدمی پارٹی میں بھی دراڑیں پڑنے لگیں۔ اس کے ساتھ ایک عجیب صورت حال ہوئی۔ ایک طرف وہ غریبوں اور عام شہریوں کو فوائد پہنچانے میں مصروف رہی اور دوسری طرف مخالفوں کے حملے زور پکڑتے گئے اور انہوں نے کجریوال کے قریبی ساتھیوں کو ورغلانا شروع کر رکھا تھا۔
دہلی میں عام آدمی پارٹی کی بھرپور کامیابی دیکھ کر‘ پورے ملک میں کجریوال کے چرچے ہونے لگے۔ اس کی حمایت کے لئے مؤثر آوازیں بلند ہونے لگیں۔ اس ردعمل سے ظاہر ہے کجریوال‘ امیدوں کے اونچے دھاروں پر تیراکیوں کے مظاہرے کرتے نظر آئے۔ ہر ریاست سے اسے دعوت نامے آنے لگے کہ وہ ہمارے صوبے میں بھی تشریف لا کر‘ اپنی انتخابی مہم کی قیادت کریں۔ لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد‘ عام آدمی پارٹی کی طرف متوجہ ہو رہی تھی۔ اس زبردست پذیرائی کودیکھ کر‘ دو تین ریاستوں میں تو کجریوال بھی الیکشن میں کودنے کے لئے بے تاب ہو گئے۔ باقی ریاستیں مجھے یاد نہیں رہیں لیکن پنجاب میں موصوف ریاستی الیکشن کے لئے لنگر لنگوٹ کس کے‘ میدان میں اترنے پر تیار ہو گئے۔ کچھ امیدوار بھی کھڑے کئے لیکن بات نہ بنی۔ دلی میں عام آدمی پارٹی کا کافی زور شور تھا۔ جبکہ بی جے پی نے کرن بیدی کو کجریوال کے سامنے الیکشن لڑنے پر آمادہ کر لیا۔کرن بیدی‘ بھارتی عوام میں مقبول شخصیت تھیں۔ بطور اعلیٰ پولیس افسر‘ انہوں نے ہمیشہ مظلوم کا ساتھ دیا اور طاقتوروں کو ناکوں چنے چبوائے۔ دلی میں ان کی وسیع شہر ت تھی۔ اسی شہرت کو دیکھتے ہوئے بی جے پی نے انہیں اپنا امیدوار نامزد کر دیا۔ لیکن کرن بیدی بھرپور مقبولیت کے باوجود‘ عام آدمی پارٹی کے گمنام امیدواروں سے بھی ہار گئیں۔
بی جے پی‘ ایک بڑا ووٹ بینک رکھنے کے باوجود‘ عوامی حمایت سے محروم ہوتی جا رہی ہے۔ جس کی مثال میں نے گجرات کے ریاستی انتخابات سے دی۔ یہاں کے صوبائی انتخابات میں کانگرس‘ 77نشستیں جیت کر‘ انتہائی مضبوط اپوزیشن بن کر سامنے آ چکی ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ آنے والے عام انتخابات میں کانگرس نئی طاقت اور توانائی کے ساتھ ابھرے گی ۔راہول گاندھی نے اپنے والد اور بھائی کی موت کے گہرے صدموں سے نکل کر‘ بھرپور سیاسی زندگی شروع کر دی ہے‘ جس کا حالیہ ثبوت‘ گجرات کے ریاستی انتخابات ہیں۔ بی جے پی نے مسلمانوں پر جو قیامت ڈھائی‘ اس کا ردعمل یقیناً ہو گا لیکن سکھوں اور عیسائیوں پر ہونے والے مظالم کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ بی جے پی کے تعصب کا شکار ہونے والے سارے طبقے‘ آئندہ انتخابات میں شدید ردعمل کا اظہار کریں گے اور بھارت کا سیاسی منظر‘ تیزی کے ساتھ بدلتا نظر آئے گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved