تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     27-12-2017

فرمان

سرکارؐ نے یہ کہا تھا ''الدّین نصیحہ‘‘ اللہ کا دین خیرخواہی ہے۔ قوم کے دلوں میں نفرت بونے والو‘ اللہ کا دین خیرخواہی ہے۔
تعجب ہے کہ اچھے بھلے‘ ہوش مند کلبھوشن یادیو سے خاندان کی ملاقات پہ ناراض ہیں۔ قیدیوں کے باب میں پاکستان کی روایت ہمیشہ سے یہی تو چلی آتی ہے۔ ملک کی بحری حدود سے بھارتی مچھیرے گرفتار ہوتے رہتے ہیں۔ رہائی پانے پر یہ بھارتی‘ خوش باش‘ اچھلتے کودتے چلے جاتے ہیں۔ بالکل برعکس ایسے ہی پاکستانی قیدی تشدّد کی شکایت کرتے ہیں۔ بعض تو حواس ہی کھو بیٹھتے ہیں۔ بھارت میں آئے دن بے گناہ پاکستانی پکڑے جاتے اور سالہا سال ایذا میں گزارتے ہیں۔ پاکستان میں خال ہی کبھی ایسا ہوا ہو گا۔ قوموں کے اطوار ہوتے ہیں‘ جو صدیوں میں ڈھلتے ہیں اور آسانی سے بدلتے نہیں۔ بھارتیوں کے مزاج میں نفرت زیادہ ہے۔ سات سو برس تک مسلمانوں نے ہندوستان پہ حکومت کی۔ انسانوں کو اپنے حکمرانوں سے طبعی نفرت ہوتی ہے۔ فاتحین سے اور بھی زیادہ۔
قائداعظمؒ کی خواہش یہ تھی کہ بھارت اور پاکستان کے تعلقات امریکہ اور کینیڈا کی مانند ہوں۔ اپنا ممبئی کا محل نما مکان بیچنے سے آپ نے گریز کیا تھا۔ آرزو ان کی یہ تھی کہ کچھ وقت وہاں گزارا کریں۔
کتنی ہی نجیب خواہشات طیب دلوں میں جاگتی اور پروان چڑھتی رہتی ہیں مگر پوری نہیں ہوتیں۔
حسرتیں دل کی مجسّم نہیں ہونے پاتیں
خواب بننے نہیں پاتا کہ بگڑ جاتا ہے
پاکستان اور بھارت کے لیڈر نفرت کو ہوا دیتے رہتے ہیں۔ بھارت میں جن سنگھی پائے جاتے ہیں تو پاکستان میں بھی۔ اللہ کا شکر ہے کہ گزشتہ چند عشروں کے دوران پاکستانی معاشرے میں امن کی خواہش بڑھی ہے۔ پاکستان میں فوج اور خفیہ ایجنسیوں کا کردار کم ہوا ہے اور بھارت میں بڑھ گیا ہے۔ سوچے سمجھے منصوبوں کے مطابق‘ جو ہندوستان کے ایوان وزیراعظم اور ''را‘‘ کے دفتر میں پروان چڑھتے ہیں‘ بھارت میں جنگی جذبات کو ہوا دینے کی کوشش جاری رہتی ہے۔ پاکستان کو ایک وحشی قوم اور پاک فوج کو سازشیوں کا ایک بہیمانہ ٹولہ ثابت کرنے کے لیے‘ دھڑا دھڑ بالی ووڈ میں فلمیں بنتی ہیں۔ بھارتی میڈیا پورے اتحاد اور کمال یکسوئی سے پاکستان کے خلاف پروپیگنڈے میں جتا رہتا ہے‘ عبادت کی طرح۔ خوش فہم یا کارندے‘ پاکستان میں ایسے لوگ بہت ہیں جو اپنے ہی ملک اور اس کی فوج کو خطے میں بدامنی کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ عاصمہ جہانگیر جیسے لوگ۔ پھر ابصار عالم جیسے فنکار جو زبان سے کچھ نہیں کہتے لیکن جارج سورس ایسے لوگوں کے لیے کام کرتے ہیں‘ جس کا ایجنڈہ عالم اسلام میں گندگی پھیلانا ہے یا عدم استحکام پیدا کرنا۔ ایک عشرہ قبل مشرقِ بعید کی معیشت کو اس نے زیر و زبر کر دیا تھا۔ اس مشہور یہودی سرمایہ دار سے ابصار عالم نے امریکہ میں میاں محمد نوازشریف کی ملاقات کا اہتمام کیا تھا۔ میاں صاحب کی بلا جانے جارج سورس کون ہے اور اس کے عزائم کیا۔ 
شاید دنیا کا یہ واحد ملک ہے جہاں اخبار نویس این جی اوز بناتے ہیں۔ پھر اخبارات میں اپنے آقائوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے تجزیے رقم کرتے ہیں۔ ٹی وی پروگرام کی میزبانی فرماتے ہیں۔ کابل‘ دبئی‘ لندن‘ سکینڈے نیویا اور واشنگٹن میں وصولیاں فرماتے ہیں۔ نظریاتی‘ فکری اور سیاسی اختلاف معاشرے کی کمزوری نہیں‘ قوّت کا ذریعہ ہوتا ہے‘ باعث برکت؛ البتہ بھاڑے کے ٹٹوئوں کو خرمستی کی اجازت کبھی نہیں دی جاتی۔ بعض اخبار نویس ہی نہیں‘ کچھ وکلاء حتیٰ کہ ڈاکٹرز بھی۔ پھر یہ ہے کہ خفیہ معلومات تیسرے ملک کے ذریعے بھی حاصل کی جاتی ہیں۔ کبھی دوست ممالک بھی فریب دیتے ہیں۔ بلوچستان میں ایران سے آنے والا کلبھوشن یادیو ہی نہ پکڑا گیا‘ عرب گرفتار ہوئے اور کئی بار۔ موساد سرگرم ہے‘ ایم آئی سکس اور سی آئی اے بھی۔ تجارتی راہداری کا منصوبہ بروئے کار آنے کے بعد دشمن اور دوست نما دشمن ممالک کی سرگرمیوں میں تیزی آئی ہے۔ دو برس پہلے بھارتی وزیراعظم کے دفتر سے متصل کمرے میں تشریف فرما‘ اجیت دوول نے ''را‘‘ کے افسروں کو بتایا کہ قبائلی پٹی میں سرگرم تحریک طالبان کے لیڈر ان کے حکم پہ حرکت میں آتے ہیں۔ کلبھوشن یادیو کی گرفتاری سے کچھ دن پہلے‘ اس تقریر میں یہ دعویٰ بھی اس نے کیا کہ بھارت جب چاہے‘ بلوچستان کو پاکستان سے الگ کر سکتا ہے۔ حماقت ''را‘‘ والوں نے یہ کی کہ اس اجلاس کی فلم بندی کی۔ خوش قسمتی سے‘ کسی نہ کسی طرح یہ فلم پاکستان پہنچ گئی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ آئی ایس آئی چوکس ہو گئی۔ کلبھوشن گرفتار ہوا تو طوطے کی طرح فر فر بولنے لگا۔ کائیاں وہ بہت تھا مگر اعصاب کمزور۔ اتنے بہت سے قیمتی راز رکھنے والے جاسوس اور ان کے ادارے محتاط ہوا کرتے ہیں۔ بھارتیوں کو حد سے بڑھا ہوا اعتماد لے ڈوبا۔ انہوں نے آئی ایس آئی کی استعداد کا غلط اندازہ لگایا۔
وزیراعظم میاں محمد نوازشریف اپنے وطن‘ اپنی قوم اور اپنی فوج سے ناراض نہ ہوتے‘ اپنے سفارت کاروں اور اپنی پارٹی کے لیڈروں کو متحرک کرتے تو دنیا بھر میں بھارت کو ہزیمت سے دوچار کر دیتے۔ وہ خاموش رہے اور اب بھی خاموش ہیں۔ قائداعظمؒ نے تخلیق پاکستان کی جنگ اس بنیاد پہ لڑی تھی کہ ہندو اور مسلمان دو الگ قومیں ہیں۔ مذہب ہی نہیں ان کی ثقافت‘ ادب‘ موسیقی اور طرزِ تعمیر تک الگ ہے۔ ان کے ہیرو اور ولن جدا۔ نواز شریف کہتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کی ثفافت ایک ہے۔ دونوں آلو گوشت کھاتے ہیں۔ سات سال ہوتے ہیں‘ انتخابی مہم کے ہنگام‘ مظفر آباد میں ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے عالی جناب نے کہا تھا: کشمیریوں پر اتنے ظلم بھارت نے نہیں ڈھائے‘ جتنے پاکستانی فوج نے۔ یہ الیکشن وہ ہار گئے تھے۔ دوسری بار احتیاط برتی۔
کلبھوشن یادیو کے ساتھ نرمی کیوں برتی گئی؟ یہ عسکری اداروں کے مشورے پر ہوا۔ مردہ کے مقابلے میں‘ زندہ اور خوش باش بھارتی جاسوس زیادہ کام کا ثابت ہوا۔ بے حد قیمتی معلومات اس نے فراہم کی ہیں جو نشر نہیں کی جا سکتیں۔ اب بھی اس کی افادیت باقی ہے۔ ہرگز اسے پھانسی نہ دینی چاہیے۔ بھارتی تخریب کاری کا مقابلہ کرنے کیلئے اس سے مشورہ ہونا چاہیے۔ بہترین کھانا‘ جیل میں بہترین رہائش اور اعلیٰ ترین سہولتیں اسے فراہم کی جانی چاہئیں۔ خاندان سے اس کی ملاقاتیں جاری رہنی چاہئیں اور اسی احتیاط کے ساتھ۔ اندیشہ ہوتا ہے کہ ایسے میں زہر کی گولی کھا کر یا کسی اور طرح جاسوس خودکشی نہ کر لے؛ چنانچہ انتہائی احتیاط چاہیے‘ جیسی کہ روا رکھی گئی۔ دانا اپنے فیصلے عاقبت اندیشی سے کیا کرتے ہیں۔ کلبھوشن کو زندہ رکھنا چاہیے۔ بھارت میں جو لوگ امن کے حامی ہیں‘ ان کے لیے اس میں ایک مسلسل پیغام ہے۔ مغرب کی رائے عامہ پر‘ جو اب چین اور پاکستان کا تزویراتی حلیف ہے‘ یقینی طور پہ حالیہ ملاقات کے اثرات مثبت ہوں گے۔
صحرا سے لایا جانے والا قیدی مسجد نبوی کے ستون سے بندھا تھا۔ نفرت پالنے والا ضدّی اور خونخوار مشرک۔ اصحابؓ سے سرکارؐ نے پوچھا کہ کسی نے بدسلوکی کا ارتکاب تو نہیں کیا؟ رحمۃ للعالمینؐ روبرو ہوئے۔ ارشاد کیا میری طرف دیکھو۔ وحشی نے منہ پھیر لیا۔ کئی بار یہ مکالمہ ہوا۔ کئی بار مشفق و مہربان پیمبر نے متوجہ کرنے کی کوشش کی مگر وہی وحشت۔ تین دن کے بعد آپؐ نے اس آدمی کو رہا کرنے کا حکم دیا‘ ذہنی طور پر جو قتل ہونے کے لیے تیار تھا۔ یاللعجب! مدینہ منورہ عبور کرنے کے بعد وہ لوٹ آیا۔ پھر اس چہرے کو دیکھا جس کا واسطہ دے کر آج تک بارش کی دعا مانگی جاتی ہے۔ پتھر نہیں آدمی ہی تو تھا‘ خوش بخت موم کی طرح پگھل گیا۔ باقی زندگی اطاعت میں بسر کر دی۔ 
حاصلِ عمر نثارِ رہِ یارے کردم
شادم از زندگیٔ خویش کہ کارے کردم
عمر بھر کا حاصل یار کی راہ میں لٹا دیا۔اپنی زندگی پہ شاد ہوں کہ بڑا کام کیا۔ آخر اس آواز پر قربان ہوا‘ جس کے بارے میں تنبیہ یہ ہے کہ کوئی اپنی آواز اس سے بلند نہ کرے۔ مولانا رومؒ نے اسی کو ''آوازِ دوست‘‘ کہا تھا۔ روزِ ازل کے پیمان کے بازگشت جو کبھی رگِ جاں میں اور کبھی آسمانوں سے سنائی دیتی ہے۔ 
سرکارؐ نے یہ کہا تھا ''الدّین نصیحہ‘‘ اللہ کا دین خیرخواہی ہے۔ قوم کے دلوں میں نفرت بونے والو‘ اللہ کا دین خیرخواہی ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved