2009ء کی بات ہے۔ ایک روز سابق وزیر خارجہ ، وزیر تعلیم اور پاکستان پیپلزپارٹی کے اہم رکن سردار آصف احمد علی سے ملاقات ہوئی۔ سردار صاحب ان دنوں وفاقی حکومت میں شامل تھے اور ایک ایسی کمیٹی کا بھی حصہ تھے جو ترقیاتی منصوبہ بندی کی ذمہ دار تھی۔ نئی حکومت کو ڈیڑھ سال گزر چکا تھا اور یہ باتیں شروع ہورہی تھیں کہ حکومت کچھ کرنا تو دور کی بات اپنی ترجیحات بھی واضح نہیں کرپارہی۔ سردار صاحب کو میں نے بتایا کہ ان کی حکومت کی بے عملی اب واضح ہونا شروع ہوچکی ہے اور لوگ کہہ رہے ہیں کہ یہ حکومت سوائے کرپشن کے کچھ نہیں کررہی۔ انہوں نے میری بات کا برا منانے کی بجائے بڑے رسان سے بتایا کہ تم دیکھنا ہمارے پاس سارے مسائل کا حل موجود ہے۔ ہم نے لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کا بندوبست مکمل کرلیا ہے اور آئندہ ایک سے دو سال میں پاکستان میں بجلی وافر ہوگی۔ میں نے تفصیل پوچھی تو کہنے لگے ہم پاکستان میںقطر سے ایل این جی (مائع گیس) لے کر آئیں گے اور اس کے ذریعے بجلی پیدا کریں گے کیونکہ بجلی کی پیداوار میں اضافے کا اس سے تیز اور مؤثر طریقہ کوئی اور نہیں ہے۔ ایک بار ہم نے بجلی کی فوری ضرورت پر قابو پالیا تو پھر ہم دیامیر بھاشا ڈیم اور نیلم جہلم پاور پراجیکٹ کی تعمیر بھی شروع کردیں گے اور یہ مسئلہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے حل ہوجائے۔ میں نے پوچھا کہ اگر ایل این جی کے ذریعے ایک سال کے اندر اندر مسئلہ حل ہوسکتا ہے تو پھر رینٹل پاور پلانٹس پر زور کیوں دیا جارہا ہے ؟ جواب دینے کی بجائے سردار صاحب نے بڑی مہارت سے گفتگو کا رُخ بدل دیا کہ مجھے اس وقت محسوس بھی نہیں ہوا کہ آصف احمد علی نے میرے سوال کا جواب نہیں دیا۔ سردار صاحب نے میری رائے بھی لینے کی کوشش کی کہ حکومت کو لوڈ شیڈنگ ختم کرنے علاوہ اور کیا کرنا چاہیے لیکن میں یہی کہتا رہا کہ لوڈشیڈنگ ختم کردیں تو شاید پیپلزپارٹی کو آئندہ حکومت حاصل کرنے کے لیے کچھ اور نہیں کرنا پڑے گا۔ ساڑھے تین سال پہلے ہونے والی اس گفتگو کے بعد میرا تاثر یہ تھا کہ لوڈ شیڈنگ کا مسئلہ تو گویا حل شدہ ہی سمجھا جانا چاہیے کیونکہ کئی ماہرین نے بھی سردار آصف احمد علی کی اس بات کی تصدیق کی تھی کہ ایل این جی کے ذریعے بجلی کی پیداوار میں فوری اضافہ ممکن ہے اور یہ فرنس آئل سے سستی بھی ہوگی‘ یوں پاکستان گردشی قرضے کی مصیبت سے بھی نجات حاصل کرلے گا۔ کچھ عرصے بعد پاکستان میں بجلی کی پیداوار کے ذمہ دار ادارے کے سربراہ نے مجھے خصوصی طور پر اپنے دفتر بلا کر کچھ ایسے کاغذات دکھائے جن کے مطابق حکومت نے منصوبہ بنایا تھا کہ قطر سے ( ایل این جی )مائع گیس کی درآمد کے ساتھ ہی دیامیر بھاشاڈیم اور نیلم جہلم ہائیڈروپاور پراجیکٹ پر کام شروع کردیا جائے گا۔ یوں دوہزار بارہ کے وسط تک لوڈشیڈنگ کا آسیب پاکستان کی جان چھوڑچکا ہوگا۔ جب وہ یہ کاغذات دکھا چکے تو میں نے اُن سے پوچھا کہ اب تک ان تجاویز پر کتنا کام ہوچکا ہے ؟ انہوںنے بڑے مشینی انداز میں جواب دیا ’’بہت جلد‘‘ ۔مختصر جواب کے بعد انہوں نے فون اٹھا کر اپنے پی اے کو کچھ فائلیں اندر لانے کو کہہ کر گویا اشارا دے دیا کہ اب سرکاری کام کا وقت ہے صحافی جاکر اپنا کام کرے۔ اس وقت سے لے کر آج تک صحافی تو اپنا کام کر رہا ہے لیکن جنہوں نے سرکاری کام کرنے تھے وہ اپنے فرائض بھول چکے ہیں۔ پاکستان میں بجلی کا مسئلہ گھمبیر سے گھمبیر تر ہوتا چلاگیا۔ ہمارے ملک میں بجلی کے مسئلے کی سنگینی کا اندازہ یوں لگائیے کہ اس وقت ہم جتنی بجلی پیدا کررہے ہیں ہماری ضرورت کا دو تہائی سے بھی کم ہے۔ ہم لوڈ شیڈنگ سے نجات چاہتے ہیں تو ہمیں کسی نہ کسی طرح چھ ہزار میگاواٹ بجلی چاہیے اور اس کے تین ہی دستیاب طریقے ہیں… پانی، ایٹمی توانا ئی اور گیس۔پانی کے ذریعے بجلی پیدا کرنے کے لیے ڈیم بنانا ہوں گے اور کسی ایک ڈیم کو بھی آج شروع کرلیا جائے تو کم ازکم اگلے سات سال میں اس سے بجلی کی پیداوار شروع ہو سکے گی جبکہ ان سات سالوں میں ہماری بجلی کی ضروریات تقریباڈیڑھ گنا بڑھ چکی ہوں گی۔ گویا ہم وہیں کھڑے ہوں گے جہاں سے چلے تھے۔ ایٹمی توانا ئی کی صورت یہ ہے کہ پاکستان کی اندرونی صورتحال اور حال ہی میں جاپان کے فوکیشیما ایٹمی پاورپلانٹ سے ریڈی ایشن کے اخراج کے بعد دنیا کا کوئی ملک ہمیں اس طرح کا پلانٹ دینے کے لیے تیار نہیں ہوگا اور اگر بفرض محال تیار ہو بھی جائے تو اس کی تنصیب کے لیے بھی پانچ سے آٹھ سال کا عرصہ درکار ہوگا۔ تیسری صورت ہے گیس کے ذریعے بجلی پیدا کی جائے۔ اس وقت ہمیں گیس کی بھی چالیس فیصد قلت کا سامنا ہے اور اس قلت کے باعث ہم اپنے بجلی گھروں کو مہنگے فرنس آئل کے ذریعے چلانے پر مجبور ہیں۔ اگر آج بھی بجلی گھروں کو گیس کی فراہمی شروع کردی جائے تو بڑی حد تک لوڈشیڈنگ پر قابو پایا جاسکتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ گیس آئے گی کہا ں سے؟ اس کا جواب 2006ء میں ہی شوکت عزیز نے ڈھونڈ لیا تھا اور وہ تھا مائع گیس یعنی ایل این جی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ گیس کی قلت کو مدنظر رکھتے ہوئے فوری طور پر گیس کی درآمد کا یہ طریقہ اختیا ر کیا جاتا اور قطر اس سلسلے میں ہماری مدد کے لیے بھی تیار تھا کیونکہ وہ اپنے پاس موجود گیس کو مائع شکل میں بحری جہازوں کے ذریعے بھیجنا چاہتا تھا۔ اس وقت کچھ بے عملی اور کچھ لالچ کی بنیاد پر یہ ڈیل نہ ہوسکی اور ہمارے رقیبِ ازلی بھارت نے ہمارا ہی’’ خیال ‘‘چرا کر ایل این جی کی درآمد شروع کرلی۔ اس کے علاوہ قطر کو بھی دنیا بھر میں گیس کے گاہک مل گئے اور ہم اس کے قریب ترین گاہک ہونے کے باوجود اس منصوبے کو عملی جامہ نہ پہنا سکے۔ اس وقت حالت یہ ہے کہ بھارت دنیا میں ایل این جی سے توانائی حاصل کرنے والا چوتھا بڑا ملک ہے اور ہم اپنے منصوبوں میں ’’شفافیت ‘‘ کے شوق میں یہاں تک پہنچ چکے ہیں کہ ایل این جی درآمد کرسکتے ہیں نہ سٹیل مل جیسے سفید ہاتھی سے جان چھڑا سکتے ہیں، رینٹل پاور لگانے اور چلانے کے قابل ہیں نہ ڈیم بنا سکتے ہیں۔ پاکستان کے لیے بجلی کے بحران سے نکلنے کا ایک ہی سیدھا طریقہ ہے۔ کسی طرح ایران سے قدرتی اور قطر سے مائع شدہ گیس درآمد کرکے اپنے بجلی گھروں کو مہیا کی جائے ورنہ اگلے دوتین سالوں میں ہمارے ساتھ جو کچھ ہونے والا ہے اس کا تماشا دنیا دیکھے گی۔ اب جب اپنی اکھڑتی ہوئی سانسوں کے ساتھ ہی سہی حکومت نے گیس کے حوالے سے پیشرفت دکھائی ہے توہمیں ان لوگوں سے بھی محتاط رہنا ہے جو ان ٹھیکوں میں ’’عوامی مفاد‘‘ کے تحفظ کے نام پر پاکستان سے دانستہ یا نا دانستہ دشمنی کررہے ہیں۔ عوامی مفاد کو مدنظر رکھنے والے صرف اتنا دیکھ لیں کہ بجلی اور گیس کے اس بحران کی وجہ سے ہم ہر سال چھ ارب ڈالر کا نقصان قومی پیداوار کی کمی کی صورت میں برداشت کررہے ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ سو پچاس ڈالر بچانے کے چکر میں ہم ایک بار پھر اپنا بیڑہ غرق کر بیٹھیں۔ تیل کی بجلی پہلے ہی ہمارا تیل نکال چکی ہے ، اگر اب بھی ہم نہ سدھرے تو پاکستان شفاف تو شاید ہوجائے، روشن نہیں ہو پائے گا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved