تحریر : حبیب اکرم تاریخ اشاعت     27-12-2017

وزیراعظم شہبازشریف

شہباز شریف کی وزارتِ عظمیٰ کی بات کوئی نئی نہیں۔ نوے کی دہائی کے آغاز میں جب نواز شریف وزیراعظم بنے اور ان کے تعلقات اس وقت کے صدر غلام اسحٰق خان سے خراب ہوئے تو ان کی بحالی کے لیے جو چند راستے تجویز ہوئے تھے ان میں سے ایک شہباز شریف کو وزیراعظم بنانا تھا۔ اس وقت یہ بات غصے سے سنی گئی اور نفرت سے مسترد کردی گئی۔ بعد میں جو کچھ ہوا تاریخ ہے۔ دوسری بار یہ بات انیس سو ننانوے میں سنی گئی جب نواز شریف دوسری بار وزیراعظم تھے اور جنرل پرویز مشرف ان کی حکومت کے درپے تھے۔ اس وقت بھی یہ تجویز سختی سے مسترد ہوئی اور انجام کار نواز شریف مع شہباز شریف طیارہ ہائی جیکنگ کے مقدمے میں گرفتار ہوئے، سزا پائی اور آخرکاربیچ بچاؤ ہوجانے کے بعد سعودی عرب جلاوطن ہوگئے۔ دوہزار چار میں انہیں سعودی عرب کے شاہ عبداللہ کی مداخلت سے جنرل پرویز مشرف نے بغرضِ علاج جدہ سے امریکہ جانے کی اجازت دی تو ایک بارپھر بات چلی کہ جنرل پرویز مشرف کسی ڈیل کے تحت شہباز شریف کو واپس آنے دیں گے اور آئندہ کی سیاست وہ اپنے بڑے بھائی کی مدد کے بغیر تنہا کریں گے۔ امریکہ جاکر شہباز شریف نے وطن واپسی کا اعلان کردیا اور مئی کی ایک گرم شام وہ لاہور کے ہوائی اڈے پر لینڈ کرگئے۔ اس شام سے پہلے دن بھر لاہور میں مسلم لیگ ن کے کارکنوں کی چھوٹی چھوٹی ٹکڑیاں گلی محلوں سے نکل کر ایک جلوس کی صورت اختیار کرنے کی کوشش کرتی رہیں مگر پولیس نے انہیں کسی ایک جگہ جمع نہیں ہونے دیا۔ شام تک ان کارکنوں کی حالت یہ ہوگئی کہ ان میں سے اکا دکا کوئی پولیس کی گاڑی کے سامنے آکر نعرہ لگاتا اور شرافت سے خود ہی گاڑی میں بیٹھ کر گرفتاری دے دیتا۔ نعرہ لگانے والا یہ اہتمام ضرور کرتا اس کا کوئی دوست اس گرفتاری کی تصویر بنا لے تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے۔اس دن اس خاکسار نے پہلی بار لاہور ائیر پورٹ سے کچھ فاصلے پر'' وزیراعظم شہباز شریف ‘‘ کا نعرہ سنا۔ ماجرا کچھ یوں ہے کہ اسی دن سہ پہر کے وقت ائیرپورٹ سے کچھ فاصلے پر ایک پولیس ناکے پرچار وکیل پولیس والوں سے گفت و شنید کررہے تھے کہ انہیں اپنی گاڑی پر ائیر پورٹ جانے کی اجازت دی جائے، جب پولیس نے ان کی بات ماننے سے انکار کردیا تو ان میں سے تین ''وزیراعظم شہباز شریف ‘‘کا نعرہ لگاتے ہوئے پولیس کی گاڑی کے پچھلے حصے کی طرف بڑھے۔ گاڑی کے اندر بیٹھے پولیس والوں نے باہر نکلنے کی زحمت بھی نہیں کی بلکہ تھوڑا آگے کھسک کر ان کے لیے جگہ بنادی اوروہ خود ہی گاڑی کے اندر بیٹھ کر گرفتار ہوگئے اور انگلیوں سے وکٹری کا نشان بنا کر ہاتھ لہرانے لگے۔ اس دوران ان کا چوتھا ساتھی کھٹ کھٹ ان کی تصویریں بناتا رہا۔ چار پانچ منٹ وہیں کھڑی رہنے کے بعدپولیس کی یہ گاڑی رینگ رینگ کر ایک فرلانگ دور چلی گئی جہاں یہ تینوں سرفروش پولیس کی گاڑی سے اترگئے اور اپنے چوتھے ساتھی کی گاڑی میں بیٹھ کر چلے گئے۔ اس گاڑی کے چلے جانے کے کچھ دیر بعد شہباز شریف کا جہاز لاہور ائیر پورٹ پر لینڈ کرگیا اور وہ لاہور کی سرزمین پر چند لمحے گزار کر ایک ڈاکٹر کی معیت میں واپس جدہ بھیج دیے گئے ۔جس طرح وزیراعظم شہباز شریف کا نعرہ لگانے والے غائب ہوگئے تھے اسی طرح ان کا امیدوار بھی کسی کی نظروں میں آئے بغیر ہی غائب کردیا گیا۔البتہ جدہ پہنچ کر کئی دن تک شہباز شریف کو بڑے بھائی کی خشمگیں نگاہوں کا سامنا کرنا پڑا۔
شہباز شریف کو وزیراعظم بنانے کی باتیں ڈان لیکس والے معاملے کے دوران بھی سننے میں آتی رہیں مگر یہ بس باتیں ہی باتیں تھیں ان میں حقیقت کچھ نہیں تھی، البتہ پاناما کیس کی سماعت کے دوران کچھ سنجیدہ اور طاقتور لوگوں نے شہباز شریف کو وزیراعظم بنانے کے خیال سے کھیلنا شروع کیا۔ ان میں سے بعض تو یہاں تک کہہ جاتے تھے کہ شہبازشریف وزیراعظم بن جائیں تو نواز شریف کی مشکلیں بھی آسان ہوسکتی ہیں۔ یہ تو معلوم نہیں کہ اب کی بار یہ آئیڈیا کہاں سے آیا تھا لیکن اتنا پتا ضرور چل گیا کہ بطور وزیراعظم نواز شریف کے سامنے یہ آئیڈیا پیش کرنے کی جرأت کسی کو نہیں ہوسکی البتہ انہیں اپنے ذرائع سے اس کا علم ضرور تھا کہ ان کی اپنی پارٹی کے کچھ لوگ بھی اس حوالے سے کوششوں میں مصرو ف ہیں۔ اٹھائیس جولائی کو جب نواز شریف کی نااہلی کا فیصلہ ہوگیا تو شہباز شریف کو وزیراعظم بنوانے کے لیے پارٹی کے اندر جوڑ توڑ شروع ہوگئی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آخرکار نواز شریف نے پینتالیس دن کے لیے شاہد خاقان عباسی کو اور اس کے بعد تا اختتامِ اسمبلی شہباز شریف کووزیراعظم بنانے کا اعلان کردیا۔ جب یہ اعلان ہوا تو چند ہی لوگ تھے جنہوں نے شہباز شریف کے وزیراعظم بننے پر یقین کیا۔ پھر وہی ہوا جو ہوتا آیا ہے، نامزد وزیراعظم ایک بار پھر وزارت اعلیٰ تک ہی محدود ہوگئے۔ اب ایک بار پھر نواز شریف سے یہ منسوب کیا جارہا ہے کہ شہباز شریف آئندہ انتخابات میں وزارتِ عظمیٰ کے امیدوار ہوں گے۔ نواز شریف نے یہ بات کسی پریس کانفرنس، کارکنوں کے کنونشن یا پارٹی کے کسی اجلاس میں نہیں کی بلکہ صحافیوں کے ایک گروہ سے کی ہے۔ یعنی امکان کے سوا یہ کچھ بھی نہیں اور حالات بھی یہی بتارہے ہیں کہ شہباز شریف کی وزارت عظمیٰ کی راہ میں اگر مگر چونکہ چنانچہ کی بہت سی رکاوٹیں کھڑی ہیں۔ 
یہ طے شدہ بات ہے کہ نواز شریف آئندہ انتخابات میں ''مجھے کیوں نکالا‘‘ کا سوال لے کر عوام کے پاس جانا چاہتے ہیں تاکہ ان کی جماعت دستور میں ترمیم کا مینڈیٹ لے کر اسمبلی میں جائے اور دستور میں ترمیم کے ذریعے انہیں چوتھی بار وزارت عظمیٰ سنبھالنے کا اہل بنا دے۔ اس کے ساتھ ساتھ لگے ہاتھوں سپریم کورٹ کے متوازی ایک دستور ی عدالت بنا دی جائے جو دستور ی مقدمات کافیصلہ کرتی رہے جبکہ سپریم کورٹ دیوانی و فوجداری مقدمات کی آخری عدالت کے طور پر کام کرتی رہے۔اگر شہباز شریف آئندہ الیکشن مہم کے مرکزی کردار بنتے ہیں تو شاید نوازشریف کا ''مجھے کیوں نکالا‘‘کا بیانیہ کسی حد تحلیل ہوجائے گا کیونکہ شہباز شریف تعمیرو ترقی اور پنجاب میں اپنی کارکردگی کو عوام کے سامنے پیش کرنے کی کوشش کریں گے۔اس لیے نواز شریف کی کوشش ہوگی کہ عدلیہ کے بارے میں ان کے خیالات ان کی جماعت کے واحد موقف کے طور پر پیش ہوتے رہیں۔جاننے والے جانتے ہیں کہ اگر نواز شریف کو انتخابات میں اراکین اسمبلی کی مطلوبہ تعداد مل جاتی ہے تو پھر شہباز شریف وزیراعظم نہیں ہوں گے بلکہ شاہد خاقان عباسی یا پارٹی کا کوئی اور رکن عبوری عرصے کے لیے اس کرسی پر بیٹھے گا، جیسے ہی ترمیم ہوجائے گی نواز شریف ایک بار پھر وزیراعظم بن جائیں گے۔ اگر انتخابات میں قومی اسمبلی کی مطلوبہ نشستیں نہ مل سکیں اور ن لیگ کو جوڑ توڑ کرکے حکومت بنانا پڑی تو پھر شہباز شریف کی وزارت عظمیٰ کا امکان پیدا جائے گا لیکن یہ خواب میں خیال والا معاملہ ہے، جس کے سو دو زیاں کا حساب اسی وقت کیا جاسکے گا جب یہ درپیش ہو۔ 
شہباز شریف مسلم لیگ ن کے تاشوں میں ایسے پتے کی طرح ہیں جو کھلاڑی کے ہاتھ میں رہے تو مخالف پر اس کی ہیبت طاری رہتی ہے، ایک بار اس کی چال چل دی جائے تو پھر بات ختم ہوجاتی ہے۔ گزشتہ ستائیس برس میں کئی بار ایسا لگا کہ اب یہ کارڈ کھیل دیا جائے گا، مگر نواز شریف ہمیشہ اپنی مہارت سے اسے بچا لے گئے اور اس کی قدروقیمت برقرار رہی۔ اب بھی وہ یہ کارڈ ہاتھ میں پکڑ کر دکھا تو رہے ہیں مگر اسے کھیل نہیں رہے۔ ستائیس برس کا تجربہ انہیں بتانے کے لیے کافی ہے کہ اگر ایک بار یہ پتا کھیل دیا گیا تو پھر ان کے ہاتھ میں کچھ نہیں رہے گا۔ ویسے بھی اب اٹھائیس جولائی کی تاریخ بہت پیچھے رہ گئی ہے۔ حالات بدل رہے ہیں اور دوہزار اٹھارہ میں مزید بدلیں گے۔ ہو سکتا ہے کہ اتنے بدل جائیں کہ نظام کے اندر نواز شریف کی گنجائش ایک بار پھر پیدا ہوجائے اور شہباز شریف کی وزارت عظمیٰ دور کی بات لگنے لگے۔ ویسے بھی وزارت عظمیٰ کا قرعہ ووٹوں کے ڈبے سے نکلتا ہے جس پر عمران خان بھی نظریں جمائے ہوئے ہیں۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved