امریکہ کی دفاعی پالیسیوں میں ہر نئے صدر کے ساتھ ضروریات کے مطابق رد و بدل ہوتا رہتا ہے۔ جیسے جیسے بیرونی طاقتیں‘ زمانہ امن میں اپنی جنگی صلاحیت بڑھاتی رہتی ہیں‘ امریکی پالیسی سازوں میں‘ اس کے ردعمل میں بھی اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ لیکن عدم تصادم کے حامی پالیسی ساز اس کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔ کبھی حکمران پارٹی اور کبھی حزب اختلاف میں یہ سوچ ابھرتی ہے کہ امریکہ‘ مقابل قوتوں کے سامنے اپنی دستیاب طاقت کو ہی کافی سمجھتا رہتا ہے۔ اس کے برعکس رائے عامہ اور آنے والا صدر‘ اپنی دفاعی طاقت میں اضافے کو لازمی ضرورت تصور کرنے لگتا ہے۔ رائے عامہ کی طرف سے بھی اس کی حوصلہ افزائی ہونے لگتی ہے۔ گزشتہ انتخابی معرکے میں ڈونلڈ ٹرمپ اچانک بطور امیدوار سامنے آئے اور اس سے بھی زیادہ اچانک بلکہ حیرت انگیز طور سے وہ‘ امریکی صدر منتخب بھی ہو گئے۔ قریباً ایک سال گزرنے کے بعد‘ اب تبدیلی کے تقاضے صورت پذیر ہونے کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ امریکہ کے سٹرٹیجک تجزیہ کار‘ روجر بیکر نے اسی صورت حال کی روشنی میں جو تازہ مضمون لکھا ہے‘ اس کا ترجمہ پیش خدمت ہے۔
''جیو پالیٹکس ہمیں سکھاتی ہے کہ تمام ممالک کے کچھ مفادات ہوتے ہیں۔ ان میں سے کچھ ناگزیر بھی قرار پاتے ہیں لیکن ان سے وابستہ اہمیت‘ وقت اور حالات کے ساتھ بدل سکتی ہے۔ جیو پالیٹکس ردِعمل کا درس نہیں دیتی۔ یہ وہ مرحلہ ہے‘ جہاں سیاست اور پالیسی فعال ہوتے ہیں اور شخصیات اہم ہو جاتی ہیں۔ اگر کوئی انسان موجودہ پریشان کن سیاسی معروضات سے قدم پیچھے ہٹا کر دیکھے تو سابق امریکی صدر‘ باراک اوباما اور موجودہ صدر‘ ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کے درمیان فرق معلوم کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ خاص طور پر جب امریکی مفادات اور سکیورٹی کو شمالی کوریا‘ ایران‘ داعش حتیٰ کہ چین سے لاحق خطرے کی بات ہو۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ اوباما اور ٹرمپ انتظامیہ کے درمیان کوئی فرق نہیں۔ فرق اصل میں چیلنجز کو شناخت کرنے اور ان کی اصل کا پتا چلانے میں نہیں بلکہ ان سے نمٹنے کے طریقہ کار میں ہے۔ اس حوالے سے دونوں انتظامیہ‘ ایک دوسرے سے بہت مختلف دکھائی دیتی ہیں۔
باراک اوباما نے جب اقتدار سنبھالا تو اُن کا مقصد‘ امریکہ کی عالمی ساکھ کی بحالی تھا‘ جسے شدید نقصان پہنچ چکا تھا۔ اوباما کو یقین تھا کہ امریکہ کے اثر اور طاقت کو‘ عراق جنگ ا ور اس تاثر نے زک پہنچائی ہے کہ وہ ایک غیر محتاط طاقت ہے اور عالمی برادری کی ہمدردی کھو چکا ہے جو نائن الیون کے بعد اسے ملی تھی۔ اوباما انتظامیہ نے عالمی تعاون اور ہم آہنگی رکھنے والی خارجہ پالیسی مرتب کی۔ اس پالیسی کے بارے میں موجودہ ٹرمپ انتظامیہ کا مؤقف ہے کہ اس کی وجہ سے‘ امریکہ کے عالمی سطح پر اور داخلی طور پر کمزور ہونے کے تاثر کو تقویت ملی۔ ٹرمپ انتظامیہ ''سب سے پہلے امریکہ‘‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے‘ امریکہ کی معاشی اور فوجی طاقت کی بحالی کا پیغام دے رہی ہے۔ ممکن ہے کہ کوئی یہ کہے کہ ان کے رویے مختلف تو ہیں لیکن ایک دوسرے سے یکسر متصادم نہیں اور نہ ہی یہ امریکی تاریخ کی کوئی منفرد صورت ِحال ہے ۔ اگرچہ بالکل درست مثال تو نہیں لیکن چند دہائیاں پیچھے‘ 1970ء کے عشرے کی طرف دیکھنا برمحل ہوگا جب ویت نام میں ناکامی‘ داخلی سماجی عدم استحکام اور واٹر گیٹ سکینڈل کے باعث صدر رچرڈ نکسن کے استعفے کی وجہ سے‘ امریکی طاقت رو بہ زوال دکھائی دیتی تھی۔ صدر جمی کارٹر کے دور میں امریکہ نے سوویت یونین کے ساتھ تعلقات میں بہتری لانے کی پالیسی اپنائی اور عالمی برادری میں فوجی طاقت کم کرتے ہوئے‘ امریکہ کا امیج بہتر کرنے کی کوشش کی۔ کارٹر انتظامیہ‘ خاص طور پر جس وقت امریکہ معاشی اور سماجی مسائل میں گھرا ہوا تھا‘ تعاون اور ہم آہنگی کے ذریعے‘ امریکی اثر و رسوخ اور دنیا کی سکیورٹی کو محفوظ بناتی دکھائی دی؛ تاہم حریف طاقتوں کے ساتھ تعلقات میں بہتری لانا ہمیشہ ''درست راستہ‘‘ نہیں سمجھا جاتا۔ اسٹیبلشمنٹ اور اس کے قریبی حلقوں میں یہ اختلافی آوازیں اٹھنے لگیںکہ سوویت یونین کے ساتھ مفاہمت کی پالیسی اور ہتھیاروں کے کنٹرول کے معاہدے سے امن قائم نہیں ہوگا بلکہ امریکی کمزوری کا تاثر‘ سوویت یونین کو شیر کر دے گا۔ فوجی طاقت کو کم کرنا‘ واشنگٹن کی ایسی حماقت ہو گی جس کا کوئی فائدہ نہ ہو گا۔ نیوکان تحریک (Neocons) کے حامی مفاہمت کی بجائے‘ امریکہ کی معاشی‘ سیاسی اور فوجی طاقت میں اضافے کا مطالبہ کرنے لگے تاکہ وہ ایک مرتبہ پھر دنیا میں مرکزی حیثیت اختیا ر کر سکے۔
یہ رونالڈ ریگن تھے‘ جنہوں نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے‘ صدر کارٹر کی کمزوری کو اجاگر کیا اور امریکی عظمت کی بحالی کے لیے‘ جاندار فوجی قوت‘ طاقتور ایٹمی ڈیٹرنس اور میزائل ڈیفنس نظام کی وکالت کرنے لگے ۔ ایران کے ساتھ پیدا ہونے والے بحران کو امریکی کمزوری کے ثبوت کے طور پر دیکھا گیا کہ اب امریکی فوجی طاقت کا خوف جاتا رہا ہے۔ چنانچہ مجموعی طور پر امریکی سکیورٹی کوبہت سی متحارب قوتوں کے جارحانہ عزائم کا سامنا ہے۔ امریکی انٹیلی جنس کمیونٹی کے اندر ایک اور مخالف گراف نمودار ہو رہا تھا۔ اس کا تعلق اس جائزے سے تھا کہ امریکی کمزوری کے برعکس سوویت یونین ایٹمی صلاحیت اور میزائل پروگرام کو ترقی دے رہا ہے۔ (جاری)