لیلیٰ مجنوں کے نا م سے فلمائی گئی مختلف فلموں میںلیلیٰ کے والدین کی جانب سے جب اس پر سختی کی جاتی تو اس پر اٹھنے والے ہاتھ جیسے ہی فضا میں بلند ہوتے دکھائے جاتے تو دور کہیں بیٹھا ہوا مجنوں لیلیٰ کے جسم پر لگنے والی ہر ضرب پرتڑپنے لگتا۔ اس منظر کو ایک فلمی اور تصوراتی کہانی سمجھتے ہوئے ہمیشہ نظر انداز کر دیا کرتے کہ بھلا ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ مار کسی کو پڑ رہی ہو اور کئی میل دور بیٹھا ہوا شخص اپنے جسم کے اسی حصے میں درد محسوس کرتے ہوئے تڑپنا شروع ہوجائے؟۔ لیکن پاکستان کے سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کی عدالت عالیہ سے کی جانے والی نا اہلی کا سب سے زیادہ دکھ اور تکلیف بھارت اوراس کی خفیہ ایجنسی را کو ہوئی ہے جسے ایک پل بھی چین نہیں آ رہا وہ ان کے درد میں ہمہ وقت تڑپتی رہتی ہے اور اسی تڑپ کو کچھ کم کرنے کیلئے بھارت کی خفیہ ایجنسی راء کے نئی دہلی میں واقع اشاعتی ادارہ پبلیکیشن آف بیورو آف پولیٹیکل ریسرچ اینڈ انیلیسز Pak Army Disastrous Obsession with India کے عنوان سے 23 نومبر2017 کو ایک مضمون شائع کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ٭ پاکستان کے سابق پردھان منتری شری نواز شریف کی سول حکومت نے اپنی جانب سے پوری کوشش کی کہ بھارت سے بہترین تعلقات قائم کئے جائیں لیکن جس قدر نواز شریف نے دوستی اور بھائی چارے کی کوششیں کیں اس کی فوج کے جنرل اسے کم کرتے رہے۔٭ پاکستان کی سول حکومتیں خصوصاً میاں نواز شریف کا ایک سیمینار میں یہ پیغام دینا کہ ہندو اور مسلمان دونوں کا رب ایک ہے اور دونوں ملکوں کے درمیان یہ سرحد صرف ایک لکیر ہے ۔۔یہ بات کوئی بہت ''بڑی بصیرت‘‘ رکھنے والا لیڈر ہی کہہ سکتا ہے لیکن پاکستان نے نواز شریف کی اس تقریر کو آج تک تسلیم نہیں کیا بلکہ بھارت کو کبھی بھی اپنا دوست نہیں سمجھا اور سب کی یہی کوشش رہتی ہے کہ بھارت کو پاکستان کے سب سے بڑے دشمن کے طور پر پیش کیا جائے(جب آپ پاکستان کے پانی کا ایک ایک قطرہ نچوڑنے کی قسم کھائیں اور ہر روز ایل او سی پر کسی پاکستانی شہری یا فوجی کو نشانہ بناتے رہیں گے تو پھر آپ کو یہ فوج اور اس کے جنرل کس طرح اپنا دوست سمجھ سکتے ہیں)۔
درد کہیں تڑپ کہیں کی واضح مثال دیکھیں کہ نریندر مودی اپنے دوست کے درد پر جب تڑپتے ہیں تو ان کی چہیتی را اپنے پبلیکیشن میں پاکستان کی عدلیہ اور فوج کے خلاف نفرت کی مہم چلاتے ہوئے لکھتی ہے '' کہ شری نواز شریف کی سول حکومت کے خلاف 'جوڈیشل کو‘کیا گیاہے یہ وہی زبان ہے جو سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ سے اپنی متفقہ نا اہلی کے فیصلے کے بعد نواز شریف و ہمنوا استعمال کرتے چلے آ رہے ہیں اور جس کی تکرار انہوں نے اور ان کی صاحبزادی نے 26 دسمبر کو اپنی رہائش گاہ ماڈل ٹائون میں اپنے قائم کئے گئے سوشل میڈیا کے ہجوم سے خطاب میں بھی بڑی شدت سے کی۔
را کا اشاعتی ادارہ امریکہ کی John Hopkins University کے انٹرنیشنل ریلیشنز کے پروفیسرDenial S Markey کے ایک مضمون کے حوالے سے لکھتا ہے کہ پاکستان کی سول حکومتوں کو اپنے فوجی جنرلز کے ساتھ کاروبار حکومت چلانے کیلئے ایک تفصیلی اور سنجیدہ لائحہ عمل طے کرنا ہو گا کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ان کا آرمی چیف چاہے وہ کوئی بھی ہو اس وقت کمرشل،فنانشل اور اکنامک انٹرپرائزز کو بھی کنٹرول کر رہا ہے جہاں ہزاروں کی تعداد میں لوگ کام کر رہے ہیں۔
پاکستانی فوج کے جرنیلوں پر برستے ہوئے را نے امریکہ کی سائوتھ ایسٹ ایشیا برائے امن کے ماہر اور کارنیگی انڈومنٹ کے سینئر فیلو Ashley J Tellis کے ایک آرٹیکل کو پیش کرتے ہوئے یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ پاکستان کے افسر اپنے نا معقول رویے اور بے تکے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسی کوشش میں لگے رہتے ہیں کہ ملکی سیاست میں انہیں حرف آخر سمجھا جائے اور یہ اپنے ارد گرد دہشت گردی کو فروغ دیتے ہیں ۔۔۔Ashley کی آنکھیں شائد پہلے دن کے بلی کے بچے کی طرح بند رہتی ہیں ۔ کیا اسے آئے دن بھارت کی لائن آف کنٹرول پر پاکستان کی سول آبادی اور فوجی چوکیوں پر کی جانے والی گولہ باری دکھائی نہیں دیتی جس سے آئے روز پاکستان کی شہری آبادی اور فوج نشانہ بنتی رہتی ہے؟
دیدہ دلیری دیکھئے کہ را اپنے زیر اہتمام اشاعتی ادارےA Bureau of Political Research and Analysis میں امریکی تھنک ٹینکس اور ان سے منسلک اداروں جو سی آئی اے کیلئے کام کرتے ہیں ان کے تجزیوں اور مضامین کو اپنے پراپیگنڈا کا حصہ بناتے ہوئے اسے دنیا بھر میں بھجواتا ہے تاکہ پاکستان کے امیج کو جس قدر ہو سکے نقصان پہنچایا جا سکے اور پھر بھی یہ کہتے ہیں کہ نہ جانے کیا وجہ ہے کہ پاکستانی جنرل بھارت کو خواہ مخواہ ایک دشمن کے طور پر پورٹریٹ کرتے رہتے ہیں۔
بھارت کے تمام ادارے اور اس کی خفیہ ایجنسیاں ایک ہی محور کے گرد گھومتی رہتی ہیں کہ پاکستان کی فوج اور اس کے عوام کے درمیان خلیج پیدا کر دی جائے اور پاکستانی عوام کے دلوں اور ذہنوں میں پاکستان کے جنرلز کا ایسا تصور بٹھا دیا جائے جس سے وہ یہی سمجھنے لگیں کہ بھارت نہ تو ہمارا دشمن ہے اور نہ ہی ہمیں کوئی نقصان پہنچانا چاہتا ہے اور یہ تو ہمارے جنرل ہیں جو بھارت دشمنی کے نام پر اپنی فوج کو مضبوط کرتے چلے جا رہے ہیں۔۔۔اور یہی فوج اور جنرل ہیں جو ہمارے وسائل ہڑپ کر رہے ہیں اگر آپ سوشل میڈیا پر نظر ڈالیں تو آپ کو ماڈل ٹائون کی یہ نئی فورس جگہ جگہ اس عنوان پر جھپٹتی نظر آئے گی۔
دس سال سے زائد عرصے تک افغانستان کا مختار کل سمجھے جانے والے حامد کرزئی جس کی پاکستان سے نفرت اور دشمنی کسی سے بھی ڈھکی چھپی نہیں اس نے ابھی چند ماہ پہلے رائٹر اور پھر الجزیرہ کو انٹر ویو دیتے ہوئے امریکہ پر کھل کر الزام لگایا ہے کہ '' افغانستان میں داعش امریکہ کی مدد سے تشکیل دی جا رہی ہے؟۔‘‘۔۔۔لیکن مسلم دشمنی کی حد دیکھئے کہ فرانسیسی میڈیا میں ابھی حال ہی میں چند مضامین شائع کئے گئے ہیں جن میں پاکستان کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے لکھا گیا ہے کہ داعش کو پاکستان میں تشکیل دیا جا رہا ہے جس میں سینٹرل ایشیا کے جہادیوں کو شامل کیا جا رہا ہے( فرانسیسی میڈیا کے اس مضمون کو پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں کو غور سے دیکھنا ہو گا کہیں ایسا تو نہیں کہ امریکی سی آئی اے چیچنیا اور سینٹرل ایشیا اور تحریک طالبان پاکستان کے بکھرے اور لاوارث ہوجانے والے جہادیوں پر مشتمل داعش کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے والی ہو؟۔۔۔کیونکہ آرمی پبلک سکول پشاور پر کئے جانے والے اندوہناک حملے میں شامل دہشت گردوں میں ازبک اور چیچن شامل تھے )۔ فرانسیسی میڈیا اپنے اس دعوے کا ثبوت دیتے ہوئے لکھتا ہے کہ داعش کے یہ لوگ افغانستان کے صوبے ننگر ہار میں جمع کئے جا رہے ہیں اور پاکستان کی سرحد سے بالکل قریب ہونے کی وجہ سے یہ لوگ جب چاہیں وہاں جا کر ہر قسم کاا سلحہ اور دوسری سپلائی حاصل کر سکتے ہیں دوسری جانب ستم دیکھئے کہ صرف ایک ہفتے میں پاکستانی فوج اور ایف سی کے چھ جوان افغانستان سے پاکستان میں گھسنے والے دہشت گردوں کے ہاتھ شہید ہو چکے ہیں۔۔!!