یقینا کچھ کیسوں میں یہ دلائل اور وارننگز درست بھی ثابت ہوئیں لیکن سوویت یونین کی طاقت اور امریکی کمزوری کا بیانیہ‘ صرف کاغذ پر ہی سنگین دکھائی دیتا تھا۔ اس میں حقیقت کا پہلو مؤثر نہیں تھا لیکن صدر ریگن اور نیوکانز جیت گئے۔ اس کے ساتھ ہی امریکی انٹرنیشنل پالیسی‘ ڈیفنس بجٹ اور سوویت یونین کے ساتھ تعلقات میں یک لخت تبدیلی برپا ہوئی ۔ کارٹر سے لے کر ریگن تک تبدیلی کا سفر‘ خطرے کے مقابلے میں بازو مضبوط کرنے کے تصور سے عبارت تھا۔ سوویت یونین کے ساتھ جوہری تنائو کم کرنے کی بجائے‘ صدر ریگن نے اسے ''شیطانی طاقت‘‘ کے لقب سے نوازا۔ بیرونی ممالک میں فوجی موجودگی کم کرنے کے بجائے‘ امریکہ نے ڈیفنس بجٹ اور ایٹمی و میزائل پروگرام میں اضافہ کر دیا۔ تعاون کا ہاتھ کھینچ کر ایسی طاقت کا طرزِ عمل اپنایا جو اپنے ذاتی مفادات کے لیے بہت حساس تھی اور جو اقوامِ متحدہ جیسے اداروں کو بھی چیلنج کر رہی تھی۔ جس کا ایجنڈا نیشنل سکیورٹی کے حقیقت پسندانہ تصورات پر مبنی تھا۔ کارٹر سے ریگن تک تبدیلی کے سفر میں نیشنل سکیورٹی امور بدل گئے۔ صرف یہی نہیں‘ اہم معاملات سے نمٹنے کا طریقہ بھی تبدیل ہو گیا۔ ایک اور حوالے سے یہ حرکیات دو عشرے پہلے سوویت یونین کے ساتھ میزائل پروگرام میں پائے جانے والے نام نہاد فرق کی غمازی کرتی تھیں۔ اُس کیس میں جان ایف کینیڈی نے دعویٰ کیا تھا کہ آئزن ہاور (جنہیں اقوام ِعالم کا جنرل قرار دیا گیا تھا) نے دفاع پر کمزوری دکھاتے ہوئے‘ امریکی طاقت کے دو طرفہ دفاعی توازن کو زک پہنچائی؛ چنانچہ کینیڈی نے امریکہ کے بازو مضبوط کرنے اور سوویت یونین سے پیچھے رہ جانے کے تاثر کو زائل کرنے کے لیے خلائی دوڑ شروع کر دی۔
یہ امریکی تاریخ کا تواتر سے دہرایا جانے والا نمونہ ہے۔ صدور اپنے پیشروئوں کوموردِ الزام ٹھہراتے رہتے ہیں کہ اُن کی پالیسیوں نے‘ امریکی طاقت اور عالمی اثر کو کمزور کر دیا۔ اوباما نے دلیل دی تھی کہ صدر جارج ڈبلیو بش کی یکطرفہ من مانی کی وجہ سے‘ امریکی عزت و وقار میں کمی آئی۔ 18 دسمبر کو نیشنل سکیورٹی پر تقریر کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے کہا کہ امریکی عزت میں کمی کی وجہ‘ اوباما انتظامیہ کی امریکی مفادات کو دیگر ممالک کے مفادات اور خواہشات کے تابع کرنے کی پالیسی تھی ۔ اوباما سے ٹرمپ تک تبدیلی کی جانچ کے لیے‘ کارٹر سے ریگن تک کے سفر کی مثال برمحل ہے۔ یہ محض اتفاق نہیں کہ ٹرمپ کے بہت سے نعرے اور تصورات وہی ہیں‘ جو ریگن کے تھے۔ اب امریکہ میں مینو فیکچرنگ‘ ٹیکس اصلاحات‘ ''امریکہ کو دوبارہ عظیم بنانے‘‘ کے نعرے‘ ایٹمی ہتھیاروں کو جدید اور بہتر بنانے‘ سوویت یونین کے ساتھ ہتھیاروں کے کنٹرول کے معاہدوں پر نظر ثانی کرنے‘ دفاعی بجٹ بڑھانے سے لے کر ایسے عالمی اداروں اور ایسے معاہدوں کو چیلنج کرنے کی بات ہو رہی ہے‘ جو امریکہ کے مفاد میں نہیں۔ ٹرمپ کے گرد نئی طرز کے نیوکانز نے گھیرا ڈالا ہوا ہے۔ اُنہوں نے شمالی کوریا اور ایران کے لیے زیادہ جارحانہ رویہ اپنانے کے علاوہ‘ اُن تجارتی معاہدوں کو ہدف بنایا ہے‘جو اُن کے خیال میں امریکی مفادات کے منافی ہیں۔
نیشنل سکیورٹی پر صدرٹرمپ کی 18 دسمبر کی تقریر کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ اُن کی انتظامیہ بہت سے شعبوں میں توسیع کے راستے پر گامزن ہو گی۔ ٹرمپ انتظامیہ نے امریکی سکیورٹی‘ حیثیت‘ طاقت اور ساکھ کی کمزوری کو شناخت کرتے ہوئے‘ سابق انتظامیہ پر الزام لگایا ہے کہ اُن کی عالمی تعاون کی پالیسی نے فوجی طاقت کو کمزور کر دیا ہے۔ اب وہ اس کی بحالی کے لیے کمر بستہ ہیں۔ شمالی کوریا‘ ایران اور دہشت گردی اُن کے لیے فوری طور پر باعثِ تشویش ہے لیکن انہیں اصل پریشانی‘ چین اور روس کے بڑھتے ہوئے تزویراتی فرق سے ہے۔ اگر وہ اس فرق کو کم کرنا چاہتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ ماضی کی سفارت کاری اور تعاون کی پالیسیوں کی وجہ سے‘ یہ فرق پیدا ہوا تھا تو ہم ان معروضات کو تبدیل ہوتے دیکھیں گے کہ امریکہ ان ممالک سے کس طرح نمٹتا ہے؟ اپنے شراکت داروں کے ساتھ کیا برتائو کرتا ہے؟ اور اُن ممالک کے ساتھ کیا رویہ ہوتا ہے‘ جو روس اور چین سے قربت رکھتے ہیں؟ شاید اب امریکہ کی اُن شراکت داروں‘ جیسا کہ یورپ کے ساتھ رویے میں بھی تبدیلی آئے جو کھل کر سامنے آنے اور کوئی واضح موقف اپنانے سے گریز کرتے ہیں۔
انتہائی قطبی میڈیا اور ایٹمی تباہی کے بڑھتے ہوئے خطرے کو دیکھتے ہوئے ضروری ہے کہ ایک قدم پیچھے ہٹاتے ہوئے گزشتہ 24 سالو ں کے دوران‘ ابھرنے والی متبادل آوازوں کو سنا جائے کہ امریکی پالیسی اور ترجیحات کی جہت اور نقصان کے ازالے کی نوعیت کیا ہونی چاہیے؟ نیوی کی قوت بڑھانے اور جوہری میزائل معاہدوں کو توسیع دینے کے خلاف دلائل دینے والی آوازوں کو ا ب وائٹ ہائوس میں ٹرمپ کی صورت ایک چیمپئن سامع مل گیا ہے۔ موجودہ انتظامیہ کی فعالیت کو نیشنل سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ یا خارجہ پالیسی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف قرار دینے والے بھول جاتے ہیں کہ یہ ''اسٹیبلشمنٹس‘‘ کبھی بھی کوئی مخصوص آواز نہیں رکھتیں۔ ان امور میں ہمیشہ اختلاف رائے اور متضاد دلائل دیئے جاتے رہے ہیں اور پالیسی چیلنجز سے نمٹنے کے طریقۂ کار کو چیلنج کیا جاتا رہا ہے۔
یہ مضمون نہ تو موجودہ انتظامیہ کی ترجیحات کی حمایت ہے اور نہ ہی تنقید۔ اس کے بجائے یہ سنجیدہ ذہن رکھنے والوں کو دعوتِ فکر دیتا ہے کہ جس طرح گزشتہ بیس یا پچاس سالوں کے دوران‘ معاملات طے کیے گئے یا طے کرنے کی کوشش کی گئی‘ ضروری نہیں کہ وہ درست ہوں یا اُس وقت اُن کا کوئی بہتر متبادل موجود نہ ہو۔ صدور اور انتظامیہ کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ تبدیلی لاتے اور اپنے پیش روکے طے شدہ راستے سے گریز کرتے دکھائی دیں۔ اس دوران امریکہ کے اردگرد عالمی نظام بھی تبدیل ہو رہا ہوتا ہے۔ چنانچہ بہتر ہو گا کہ ان معاملات کو ہدفِ تنقید بنانے کے بجائے‘ اپنی پالیسیوں کا جائزہ لیا جائے تاکہ مقامی اور عالمی سطح پر ابھرنے والے خطرات‘ امکانات‘ افعال اور ان کے مضمرات پر غور کرنا ممکن ہو۔ اگر جدید امریکی تاریخ ہمیں کچھ سکھاتی ہے تو وہ یہ کہ ممکن ہے کہ آج کی پالیسیاں‘ کل کے مسائل کا باعث ہوں۔ لیکن اس سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ عقل کو مائوف کر دینے کی تبدیلیوں کے باوجود‘ امریکہ کے سماجی اور سیاسی نظام میں اتنی سکت پائی جاتی ہے کہ وہ مجموعی طور پر اپنی طاقت برقرار رکھنے میں کامیاب رہا ہے۔