تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     29-12-2017

ماجرا کیا ہے؟

ماجرا کیا ہے؟ کوئی دن میں کھل جائے گا۔ قیاس آرائیوں کی ضرورت کیا ہے؟ مادرِگیتی اپنے باطن میں کوئی راز چھپا کر نہیں رکھتی... اور محلاتی سازشوں کے عہد میں تو کبھی نہیں!
خادمِ پنجاب کے بارے میں جب یہی معلوم نہیں کہ مدعو کیے گئے یا خود لپک کر سعودی عرب پہنچے‘ تو حکم کیسے لگایا جاسکتا ہے؟ عمران خان اور دوسروں نے کیسے یہ فرض کر لیا کہ یہ ایک نئے سمجھوتے کی بنیاد رکھی جا رہی ہے؟
ایک تاثر یہ ہے کہ باریابی کیلئے‘ جنرل راحیل شریف کے توسط سے‘ شہباز شریف نے شاہی خاندان سے رابطہ کیا۔ معلومات نہیں مگر قرینِ قیاس یہ نہیں لگتا۔ دعویٰ کرنے والے یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ امریکہ سعودی عرب کے ذریعے‘ پاکستان سے کچھ منوانا چاہتا ہے۔ اوّل تو ریاض اور شریف خاندان کے مراسم اب ایسے نہیں کہ دونوں طرف گہرا اعتماد کار فرما ہو۔ ثانیاً پاک سعودیہ اور پاک امریکہ تعلقات کی نوعیت بدل چکی۔ پاکستان کی نظر اب ڈالر نہیں ین اور روبل پہ ہے۔ اس خطۂ ارض میں اب بھارت انکل سام کا تزویراتی حلیف ہے۔ افغانستان میں امریکی پالیسیوں کے نتیجے میں اتنی بڑی خلیج واشنگٹن اور اسلام آباد کے درمیان حائل ہو چکی کہ ایسی کوئی کوشش نتیجہ خیز نہیں ہو سکتی۔
امریکہ افغانستان میں موجود رہ سکتا ہے مگر اپنی جنگ جیت نہیں سکتا۔ یہ اظہر من الشمس ہے۔ پاکستان سے مطالبہ یہ ہے کہ قدم جمانے میں ان کی مدد کرے۔ کیا کرے؟
ایک مغالطہ یہ ہے کہ فقط نائن الیون کی وجہ سے‘ امریکی افواج نیٹو کے نام پر افعانستان میں اتریں۔ عسکری قیادت کا احساس یہ ہے کہ حادثہ اگر نہ بھی ہوتا‘ تو پینٹاگان کوئی بہانہ تلاش کر لیتا۔ بلوچستان سے لے کر‘ پاکستان سے متصل افغان صوبوں تک‘ قیمتی معدنیات کے خیرہ کن ذخائر پہ امریکہ کی نظر ہے۔ پھرروس اور اس سے بڑھ کر چین کو محدود کرنے کیلئے بہت پہلے سے امریکی مہم جوئی پر تلے تھے۔ دانشور تجزیہ کرتے ہوئے‘ افغانستان اور پاکستان کی غیر معمولی جغرافیائی اہمیت کو اکثر نظرانداز کر دیتے ہیں۔ یہی ہماری قوّت ہے۔ اسی قوت کو کمزوری میں ڈھالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
اچھی صورت بھی کیا بری شے ہے
جس نے ڈالی بری نظر ڈالی
پنجابی کا شعریہ ہے:
گورا رنگ تے شربتی اکھیاں
پنڈ سارا ویری ہو گیا
امریکہ اور پاکستان کے درمیان جو بھی بات چیت ہوگی‘ براہِ راست ہوگی...... اور جیسا کہ 22 اگست سے ہم دیکھ رہے ہیں‘ ترغیب سے زیادہ دھمکی کا ہتھیار برتا جائے گا۔ کوئی ریاست بدامنی کا شکار ہو تو ایسا ہی ہوتا ہے۔ پھر یہ کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کی ٹیم عاقبت نااندیش لوگوں کا ایک ٹولہ ہے۔ تعصب کی ایک زیریں لہر نے‘ ایک زمانے سے امریکی معاشرے میں جوکار فرما تھی‘ بروئے کار آکر‘ اندازِ فکر ہی بدل ڈالا ہے۔ گھمنڈ اور ایسا گھمنڈ‘ ہیجان اور ایسا ہیجان۔ یہ ٹولہ خود اپنی قوم کے مفادات اور امنگوں کا ادراک نہیں رکھتا تو کمزور اقوام کے باب میں بصیرت اندوزی کی کتنی امید ان سے ہو سکتی ہے؟ یروشلم کو دارالحکومت تسلیم کرنے کے مناقشے میں‘ دوست ممالک کو صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جو دھمکی دی‘ موصوف کا کھوکھلا پن پوری طرح‘ اس سے آشکار ہے۔
معاف کیجئے گا‘ شہباز شریف بھی ایسے ہی کھوکھلے آدمی ہیں۔ انسانی نفسیات اور معاشرے کی ساخت کو بہت کم وہ سمجھتے ہیں‘ جس کی قیادت کا بوجھ عالی جناب نے اٹھا رکھا ہے۔ اسمبلی نظر انداز‘ اپنی جماعت اور پارلیمانی پارٹی ہی نہیں‘ کابینہ سے بھی یکسر بے نیاز۔ اپنے خاندان‘ چند قریبی ساتھیوں اور اشارۂ ابرو پہ حرکت میں آنے والے افسروں کے ایک ٹولے پر وہ بھروسہ کرتے ہیں۔ پلوں اور سڑکوں کے سوا‘ ترقیاتی عمل کا کوئی تصور نہیں رکھتے۔ عمدہ حکمرانی سے مراد‘ اچھی پولیس‘ عدالت‘ تعلیمی ادارے اور ہسپتال ہیں۔ ٹیکس وصولی کا ایک صحت مند نظام۔ کاروبار کے بہترین مواقع‘ قومی آمدن کو جو نمو پذیر کر دیں۔ آنجناب سول اداروں کی تعمیر نہیں بلکہ انہیں بے دردی سے برتنے کے قائل ہیں۔ جسٹس ناصر کھوسہ نے ''مافیا‘‘ کی اصطلاح استعمال کی تو اسی پس منظر میں۔
ایک خیال یہ ہے کہ دگرگوں معاشی حالات میں‘ سعودی عرب سے مالی امداد کا حصول پیشِ نظر ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر کا حال تو وہاں بھی اب پتلا ہے۔ ہاں! ریاض کے حکمران یہ ضرور کر سکتے ہیں کہ چار پانچ ارب ڈالر کا تیل‘ پاکستان کو فراہم کر دیں۔ چار پانچ سو ملین ڈالر سالانہ کے حساب سے اسلام آباد‘ جس کی ادائیگی کر دے‘ بلاسود۔ اس سے پہلے وہ ایسا کرتے رہے۔ اب بھی کر سکتے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو خوش آئند‘ مگر آثار قطعاً ایسے نہیں۔ سامنے کی بات یہ ہے کہ باقی ماندہ پانچ چھ ماہ کے لئے‘ سرکاری خزانہ کفایت کر سکتا ہے۔ مسئلہ نگران حکومت کے دور میں سر اٹھائے گا‘ جب خدانخواستہ آئی ایم ایف کے سامنے سرنگوں ہونا پڑے۔ شریف خاندان کا مزاج ہی نہیں کہ دوسروں کیلئے سہولت پیدا کریں۔ خود اپنے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے لئے نواز شریف کا اندازِ فکر کیا ہے؟ یہی کہ بگڑتی ہوئی معیشت پہ شاد ہیں۔ بار بار یاد دلاتے ہیں کہ اگر وہ نہ ہوں تو قوم دلدل میں جا گرے گی۔ وہ نہیں تو ان کی صاحبزادی کو اقتدار سونپا جائے۔ محترمہ نصرت بھٹو نے ایک بار کہا تھا: Bhuttos are born to rule۔ بھٹو خاندان کے افراد‘ حکمرانی کے لئے پیدا ہوتے ہیں۔ پانچ سالہ حکمرانی کے بعد یہ ان کے تیور تھے۔ وقفے وقفے سے شریف خاندان تین عشروں سے اقتدار میں ہے۔
سعودی شاہی خاندان کے ساتھ‘ پاکستان کے مراسم خوشگوار ہیں۔ افواج سے زیادہ اور سول حکمرانوں سے کم۔ ''Wallah, Pakistan is with me‘‘ واللہ پاکستان میرے ساتھ ہے۔ ان دنوں یہ ولی عہد محمد بن سلیمان کا تکیہ کلام ہے۔ افواہ یہ بھی گردش میں ہے کہ پاکستان سے دو ڈویژن فوج ریاض نے مانگی ہے۔ جنگ نہیں‘ ملک میں سیاسی استحکام کیلئے۔ شریف خاندان پہ کچھ زیادہ بھروسہ اب وہ نہیں کرتے۔ یمن والے بحران کے ہنگام‘ قوم کا رجحان یہ تھا کہ پاکستان کو فریق نہ بننا چاہئے۔ مگر معاملہ پارلیمنٹ میں اٹھا کر‘ سعودیہ کے حکمران خاندان کی تحقیر اور تذلیل کیوںضروری تھی؟ کسی بھی ملک کی خارجہ پالیسی‘ اس کے قومی مفادات سے پھوٹتی ہے۔ مگر یاد رکھنا چاہئے تھا کہ مشکل وقتوں میں ہمیشہ وہ ہمارے مددگار تھے۔
شہباز شریف کیا عسکری قیادت کے ایما پر گئے؟ اس امکان کو مسترد نہیں کیا جا سکتا۔ فوجی لیڈر شپ سعودیوں سے کہہ سکتی ہے کہ ان لوگوں کو سمجھائیے۔ فساد کرنے سے منع کیجئے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ شہباز شریف شہزادہ محمد کے ذریعے مصالحت کا ڈول ڈالنے کی کوشش کریں۔ایک اور سوال بھی ہے‘ سعودی عرب میں مسجد نبوی میں ترک لیڈر کی موجودگی اور شہباز شریف سے ملاقات کیا محض اتفاقیہ ہے؟
وزیراعظم بننے کی بے تاب تمنا میں‘ شہباز شریف چاروں طرف سے مشکلات میں گھرے ہیں۔ ناخوشی سے بڑے بھائی نے آمادگی کا اظہار کیا ہے۔ خاندان میں کھینچا تانی ہے اور پارٹی شکست و ریخت کا شکار۔ ع
نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں
کمزور آدمی کو نفسیاتی سہارے کی ضرورت ہوتی ہے۔ شہباز شریف یقینا ایک کمزور آدمی ہیں۔ مردم بیزار‘ بے قابو مزاج‘ طاقتوروں سے مرعوبیت اور نعرہ فروشی۔ کسی بھی وجہ سے گئے ہوں‘ سعودیوں کو خیرخواہی کا یقین دلانے کی کوشش لازماً کریں گے۔ شریف خاندان‘ اس قدر سعودیوں سے متاثر ہے کہ جاتی امرا کے محلات کا رنگ و روغن اور آرائش یکسر انہی کے گھروں کی نقالی ہے۔ غلام کی نفسیات کے بارے میں فرانسیسی دانشور فرانزز فینن نے یہ کہا تھا ''آقائوں کی طرح بسر کرنے کی خواہش‘‘۔
ماجرا کیا ہے؟ کوئی دن میں کھل جائے گا۔ قیاس آرائیوں کی ضرورت کیا ہے؟ مادرِگیتی اپنے باطن میں کوئی راز چھپا کر نہیں رکھتی... اور محلاتی سازشوں کے عہد میں تو کبھی نہیں!
پسِ تحریر: شام ڈھلے خبر آئی کہ بڑے بھائی میاں محمد نواز شریف بھی ہفتے کے دن سعودیہ جائیں گے۔ یہی اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ پاکستان اور سعودیہ کے شاہی خاندانوں میں سنجیدگی سے بات چیت ہے۔ پاکستان کی داخلی سیاست ہی مکالمے کا موضوع ہو سکتی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved