تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     29-12-2017

قائد اعظم کا پاکستان

اس سال 25 دسمبر کے دن قائد اعظم کے پاکستان کے نوجوانوں نے کمال کر دیا۔ بانیٔ پاکستان کی سالگرہ کے موقع پر سوشل میڈیا پر تو جیسے جذبوں کی بہار آ گئی۔ 
آج کل ہر کوئی قوم کو ''قائد اعظم کا پاکستان‘‘ دینا چاہتا ہے۔ سیاسی مولوی حضرات‘ جو قیامِ پاکستان کے وقت زیادہ تر کانگریس کے پارٹنر تھے یا کانگریس کے ہمنوا، اس کام میں سب سے آگے ہیں‘ جن کے مقابلے کے لئے ایک اور لشکر موجود ہے۔ ایسی سپاہ جو نہ ووٹ ڈالتی ہے، نہ پاکستان پر بھارتی حملے کی مذمت کرتی ہے‘ نہ مادرِ وطن کے شہیدوں کے لئے ایک عدد سستی موم بتی قربان کرنے پر آمادہ ہے۔ پہلا گروہ بانیٔ پاکستان کو علامہ محمد علی جناح بنا کر ملک کو اپنے اپنے طبقے کی تشریح کے مطابق تخلیق کا تنگ چوغا پہنانے کی ناکام کاوش میں مصروف ہے۔ 70 سال گزر گئے‘ مگر محترم انور مسعود صاحب کی مشہورِ زمانہ ''بنیان‘‘ کی طرح ان کا نظریہ بانیٔ پاکستان پر فٹ ہونے سے انکاری ہے۔ دوسری طرف ایک اور پارٹی بانیٔ پاکستان کو لارڈ محمد علی جناح ؒ بنا کر اپنی اپنی این جی اوز کا بینر اوپر رکھنے کی سعی کر رہی ہے۔ بالکل ویسے ہی جس طرح 2 شکاری بابوں کے لواحقین اپنے اپنے بابے کو سر بلند کرنے کی کوشش کرتے کرتے حوالات تک جا پہنچے تھے۔ کچھ سیاسی مسخرے مگر سب کو پیچھے چھوڑ گئے ہیں۔ ان میں سے سب سے آگے خونیں انقلاب کی پیش گوئی کرنے والا ہے۔ اسے دیکھ کر قوم کو کراچی کے وہ جنازے یاد آ رہے ہیں‘ جن کی اگلی صف میں مقتول کے ٹارگٹ کِلر قاتل کھڑے ہو کر اسے اپنی مرضی کے پرچم میں لپیٹتے نظر آتے ہیں۔ 
لطف کی بات یہ ہے کہ اس مسخرے پن کے بانی سمجھتے ہیں‘ قوم کو ابھی تک پتہ نہیں چل سکا کہ ملک کا حکمران آج کل کون ہے۔ ایسے میں مجھے لکھنؤ کے بانکے والا غصہ یاد آ گیا‘ جس نے گوری فوج کے کالے سپاہی کو ان لفظوں کی جھاڑ پلائی تھی ''ارے سنتری جی... آپ کی زلفِ گِرہ گیر کی جڑوں میں 10، 20 چرمی پاپوش جَڑنے کو جی مچلتا ہے‘‘۔ 
ایک اور شیر دل‘ جو حال ہی میں منی لانڈرنگ میں لت پت ہو کر کوچۂ اقتدار سے نکلے‘ سالہا سال سے قائد اعظم ثانی ہونے کے دعویدار ہیں۔ ایک انجمنِ ستائشِ باہمی اور بھی ہے‘ جہاں قائد اعظم کے نام پر ہر سال ایک پارٹی کے لیڈروں اور ان کے ریٹائرڈ غم گساروں کو اکٹھا کرکے اسے ''سوادِ اعظم‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ رنگ رنگیلے نظریات‘ نیلے نعروں اور پیلے لشکاروں والا ایک گروہ اور بھی ہے جو بھارت ماتا کی جے، ہرے کرشنا ہرے رام‘ کی لے پر لمبے عرصے سے صرف ایک ہی دھن بجا رہا ہے۔ یہی کہ قائدِ اعظم نے پاکستان کیوں بنایا تھا؟ اس کا جواب بلکہ سارے مسخروں کی دکانیں بند کر دینے والا جواب کسی اور کی زبان سے نہیں بلکہ خود بانیٔ پاکستان حضرت قائدِ اعظم ؒ کی زبان سے بہت اچھا لگے گا۔ آئیے فادر آف دی نیشن کا وہ انٹرویو پڑھیں جو بی بی سی نے 13 اگست 1947ء کے روز نشر کیا۔ قائد ِ اعظم نے فرمایا: ''مجھے معلوم ہے کہ اہلِ برطانیہ/ اہلِ امریکہ ہندوستان کے معاملات میں انتہائی دلچسپی رکھتے ہیں۔ میں مسلم انڈیا کی جانب سے آپ کے لیے نیک دلی تمنائوں کا اظہار کرتا ہوں۔ آپ کی طرف سے بھی ایسے ہی جذبات کی توقع رکھتا ہوں۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں برصغیر ہندوستان کے باسی اَن گنت نسلوں، مسالک اور مذاہب سے تعلق رکھتے ہیں۔ لیکن اِن میں دو بڑی قومیں صرف ہندو اور مسلمان ہیں۔ کروڑوں مسلمانوں کو اقلیت نہیں گردانا جا سکتا۔ ہندوستان کے شمال مغربی اور شمال مشرق کے خطوں میں
مسلمانوں کی تعداد سات کروڑ ہے۔ وطن کے اِن حصوں میں ہندوئوں کے مقابلے میں ہماری آبادی 70 فیصد ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ انڈیاکی تقسیم ہندوستان اور پاکستان کی صورت میں ہو۔ کیونکہ یہی ایک عملی حل ہے۔ جس کی بدولت دونوں قومیں آزادی سے ہمکنار ہو کر یقینا دیگر آزاد ریاستوں کی مانند ایک اچھے دوست اور ہمسایہ کی طرح رہ سکتی ہیں‘ جیسے امریکہ، کینیڈا اور شمال و جنوب کی امریکی ریاستیں۔ ہندوستان کی تقسیم‘ مسلم انڈیا اور ہندو انڈیا میں علیحدگی اس لئے ضروری ہے کہ دونوں قومیں مختلف، منفرد بلکہ بعض معاملات میں ایک دوسرے کے بالکل الٹ ہیں۔ آپ کے لئے میں اس فرق کو واضح کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ ہماری تاریخ، تہذیب، زبان، فنِ تعمیر، موسیقی، قوانین، فقہ، تقویم، غرضیکہ معاشرتی قدریں اور کل ضابطۂ حیات سب کچھ مختلف ہے۔ متحدہ ہندوستان کا تصور تو ناممکنات میں سے ہے۔
اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ انگریز کی غلامی سے نکل کر مسلمان ہندوئوں کے غلام بن جائیں‘ جو کہ مسلمانوںکو ہرگز قبول نہیں۔ انفرادی ووٹ کے استعمال سے مسلمان مستقل طور پر اپنے سے تین گنا بڑی قوم کے زیر نگیں اقلیت بن کر رہیں گے‘ جس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ ایک قوم دوسری قوم پر اپنی اکثریت کی وجہ سے مسلط رہے گی۔ ایسی حکومت کا چلنا ناممکنات میں سے ہے‘ کیونکہ اس کے اختیار اور انضباط کو دونوں میں سے کوئی بھی مذہب قبول کرنے کو تیار نہیں ہو گا۔ ایسی حکومت صرف طاقت کے بل بوتے پر چل سکتی ہے۔ اور یہ کبھی بھی کروڑوں مسلمانوں کی حمایت حاصل نہیں کر سکے گی۔ اگر برطانوی حکومت اس مسئلہ کی سنگینی کا احساس کرتے ہوئے اِس تقسیم کے مسئلے کو نیک نیتی‘ بے ریائی اور بے باکی سے حل نہیں کرتی تو اِس کے مضر اثرات دنیا کے امن کو تہہ و بالا کر سکتے ہیں۔ ہماری تجویز شدہ تقسیم پر عمل کرنے سے ہندو تین چوتھائی رقبہ کے مالک اور مسلمان ایک چوتھائی ہندوستان میں رہتے ہوئے ایک پُر اثر آواز بن جائیں گے۔ اور دونوں قومیں اپنے اپنے تہذیب و تمدن اور نظامِ فکر کو پروان چڑھاتے ہوئے دنیا میں امن اور ترقی کی ترویج میں اپنا کردار کر سکیں گی۔ مسلمانوںکو آزادی کی خواہش کسی سے کم نہیں۔ آزادی، بھائی چارہ اور حُریت کی چاہت تو ان کے خون میں رچی بسی ہے، لیکن اس آزادی کا مطلب برطانوی استحصال اور ہندو تسلط‘ دونوں ہی سے نجات حاصل کرنا ہے۔ کروڑوں مسلمان فقط آقائوں کی تبدیلی پر کسی بھی صورت راضی نہ ہوں گے‘‘۔
بات شروع ہوئی تھی 25 دسمبر کے دن کے تناظر میں۔ ان دنوں 25 دسمبر کے حوالے سے صاحبِ طرز ادیب و خطیب جناب انور مقصود کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہے۔ صرف 44 سیکنڈ کا یہ ویڈیو کلپ آپ کو ادبِ لطیف کا وہ مزہ دے گا کہ آپ اُسے شیئر کئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ شاعری تو ویسے بھی ادبِ لطیف کا مغز مصالحہ ہے۔ 
بزعمِ خویش سیاست اجالنے والو! 
وطن کے نام پہ کیچڑ اُچھالنے والو!
اٹھا کے جام سیاست کی آستینوں میں 
بہ قولِ پیرِ مغاں سانپ پالنے والو! 
چڑھا کے دیگ صحافت کے گرم چولہے پر 
لہو کی آگ سے پانی اُبالنے والو!
خطیبِ شہر کی آواز سے حذر واجب 
ادیبِ شہر کی رنگینیٔ بیاں سے بچو!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved