شیخ رشید نے ایک نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں نہایت وثوق سے ا لزام لگایا ہے کہ ''فیض آباد دھرنے کی فنانسنگ شریف خاندان سے تعلق رکھنے والے ایک رکن اسمبلی نے کی ہے اور اس کیلئے اگر مسلم لیگ نواز کی قومی یا صوبائی حکومت جوڈیشل کمیشن تشکیل دیتی ہے تو وہ ان الزامات کے حق میں مکمل ثبوت بھی مہیا کرنے کو تیار ہیں‘‘ شیخ رشید احمد کے اس الزام کو اگر اس رکن اسمبلی کی قومی اسمبلی میں کی جانے والی تقریر کی روشنی میں دیکھا جائے تو شیخ رشید کی باتوں میں کچھ وزن محسوس ہوتا ہے لیکن اس نازک اور حساس مسئلے پر سچ جانچنے کیلئے اس کی تحقیق ہونی چاہئے اور محض الزامات تک محدود نہیں رہنا چاہئے۔ اس لئے کہ اس جماعت کا سوشل میڈیا اور اس کا ساتھ دینے والے بھارت نواز ترقی پسند فیض آباد دھرنے کی تمام ذمہ داری اداروں پر ڈالنے کیلئے دن رات ایک کئے ہوئے ہیں۔ یہ سوشل میڈیا ونگ اور بھارتی ہائی کمیشن میں بیٹھا ہوا راء کا سیل کسی پر دھرنے کا ملبہ ڈالنے سے پہلے اگر ایک لمحے کیلئے اپنے اپنے گریبان میں جھانکتے ہوئے میاں شہباز شریف کی اس تقریر کو ایک مرتبہ یاد کر لیں تو انہیں یاد آ جائے گا کہ وفاقی وزیر قانون زاہد حامد کے استعفے کی بات تو وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے لاہور کے الحمرا ہال میں اپنے بڑے بھائی میاں محمد نواز شریف کی موجو دگی میں تقریب کی صدارتی کرسی پر بیٹھے ہوئے ان کی جانب انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے انہیں براہ راست مخاطب کرتے ہوئے کی تھی اور ختم نبوت کے نام پر دھرنا دینے والوں پر حکومت کے حکم سے طاقت کے استعمال کے دوران تشدد کی پس پردہ کہانی جب سامنے آئے گی تو سب کو معلوم ہو جائے گا کہ سوشل میڈیا ونگ کی قیا دت کے احکامات کہاں تک بجا لائے جا رہے تھے اور جب یہ سب فون ریکارڈ اور احکامات جوڈیشل کمیشن میں سامنے آئیں گے تو پھر کچھ اور کہنے کی ضرورت ہی نہیں رہے گی۔
شیخ رشید کے مطالبے کو ردی کی ٹوکری میں پھینکنے کی بجائے اسلام آباد اور پنجاب پولیس، ایف سی سمیت ختم نبوت کے دھرنے کو فیض آباد سے اٹھانے اور شرکاء کے خیمے اکھاڑنے کیلئے وزیر داخلہ احسن اقبال کو ملنے والے احکامات کا سچ سامنے آنے سے قانون نافذکرنے والی فورسز کے استعمال کے پس پردہ مقاصدکو شک کی نگاہ سے دیکھا جا سکتا ہے۔ اس دھرنے کو کنٹرول کرنے کے طریقہ کار پر چوہدری نثار علی خاں نے جس طرح چوہدری احسن اقبال کی خبر لی تھی اس کا دکھ وزارت داخلہ کا قلم دان سونپنے والوں کو جس طرح ناگوار گزرا اس کا بدلہ انہوں نے چوہدری نثار سے جس طرح لیا چوہدری نثار کودربار شاہی میں اپنی حیثیت کا اندازہ ہو چکا ہو گا ۔ طلال چوہدری، دانیال عزیز،کیپٹن صفدر اور احسن اقبال چوہدری نثار علی خان کے متعلق جو جذبات رکھتے ہیں وہ کسی سے بھی ڈھکے چھپے نہیں رہے۔۔۔اور یہ بھی کوئی راز نہیں کہ ان سب کو مسلم لیگ نواز کی سب سے طاقتور سمجھی جانے والی شریف فیملی کی بھر پور مدد اور اعتماد حاصل ہے اسی لئے وہ اداروں کے خلاف بھی آئے روز کھلے عام ہرزہ سرائی سے باز نہیں آ رہے بلکہ اس میں مزید شدت اور تیزی لا رہے ہیں تاکہ نظام کو غیرمستحکم کیاجائے۔
چوہدری نثار علی خان کی حالت اس پلاٹ کی مانند ہوتی جا رہی ہے جو آہستہ آہستہ چائنا کٹنگ کی زد میں آتا جا رہا ہے اور لگتا ہے کہ وہ وقت اور گھڑی جلد ہی آنے والی ہے جب چائنا کٹنگ کی زد میں آ کر اس پر کوئی پلازہ یا شادی ہال کی خوشنما عمارت دکھائی دینے لگے۔ ہمارے جیسے معمولی لکھنے والے جہاں تک دیکھ سکتے ہیں چوہدری نثار علی خان کی نظریں یقینا اس سے میلوں دور تک دیکھنے کی فراست اور طاقت رکھتی ہیں لیکن سال کے سب سے چھوٹے اور مختصر دن 22 دسمبر کو ان کی پریس کانفرنس کہہ لیں یا ان کا جاری کردہ بیان سمجھ لیں کہ مسلم لیگ ن کے سب سے سینئر رکن نے ان پرطنز اور الزامات کے وہ نشتر لگائے کہ سننے اور پڑھنے والے عجلت پر دنگ رہ گئے۔ چوہدری نثار علی خان کو اگر کوئی یہ جا کر بتانے کی کوشش کرے تو یہ سورج کو چراغ دکھانے کے برا بر ہو گا کہ وہ ہم سب سے زیادہ جانتے ہیں کہ زہر میں بجھے ہوئے یہ تیر کس کے کہنے پر اور کس کی کمان سے ان پر برسائے گئے۔۔۔۔اور اگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ تیر شہنشاہ معظم کی اجا زت اور منظوری کے بغیر ہی پیادوں کی جانب سے ان پر برسائے گئے ہیں تو پھر اس راجپوت کو اپنے گھر کے تمام گھوڑوں کی رکابیں کھول دینی چاہئیں۔اگر انہیں بروٹس نظر نہیں آ رہا ہے تو اپنے سائے سے پوچھ لیں۔
چوہدری نثار علی خان کوان کی پریس کانفرنس کا جواب دیتے ہوئے بڑے نپے تلے جوابی وار کے ذریعے جس خوبصورتی سے ان پر عمران خان کا نام لئے بغیر اشاروں کنایوں میں ان کی در پردہ مدد کرنے۔۔۔ ان سے قریبی روابط رکھنے کا الزام لگاتے ہوئے ان کی میاں نواز شریف سے وفاداری کو چیلنج کرتے ہوئے شکوک و شبہات کا جو لٹھ برسایا گیا ہے اس پر ایک راجپوت ہونے کے ناتے چوہدری نثارعلی خان پر فرض ہو جاتا ہے کہ یا تو وہ اس لٹھ کو خاموشی سے سہہ جائیں یاروز روز پیادوں کے ہاتھوں بے عزت ہونے کی بجائے شہنشاہ کے دربار سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے رخصت لے لیں کیونکہ اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو ان کے اپنے مصاحبین اور حلقۂ انتخاب کے علا وہ ان سے ہمدردی رکھنے والے یا انہیں ایک نڈر راجپوت سمجھنے والے لوگ یہ سوچنا شروع ہو جائیں گے کہ '' چوہدری دی چپ دے پچھے کوئی گل ضرور اے‘‘۔چوہدری نثار علی خان کو یہ بتانے کی ضرورت ہی نہیں کہ ان کے دوست اور ساتھی میاں شہباز شریف کو ان کے بھائی نے مکھن سے بال کی طرح پنجاب سے نکالتے ہوئے انہیں خوش خبری دے دی ہے کہ اگلے وزیر اعظم میرے بھائی ہوں گے ۔۔۔ایک ایک تجزیہ کارا ور سیا سی حلقوںسمیت مرکز کی سب سے بڑی سول ایجنسی آئی بی نے بھی یہ رپورٹ میاں نواز شریف کو دے دی ہے کہ اگلے انتخابات میں آپ کی مرکز میں حکومت بننے کے دور دور تک بھی امکانات نہیں ہیں۔۔۔ہاں پنجاب میں بھر پور مقابلہ ہو سکتا ہے اور یہاں آپ کی کامیابی کے امکانات باقی تمام سیا سی جماعتوں سے سب سے زیا دہ ہیں۔۔۔۔اور اس پنجاب کی وزارت اعلیٰ کیلئے میاں نواز شریف نے ابھی سے بتا نا شروع کر دیا ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں کسی بھی صوبے میں ان کی صاحبزادی مریم صفدر پہلی خاتون وزیر اعلیٰ ہوں گی۔ اور یہ اعلان انہوں نے ایسے وقت میں کرایا ہے کہ جب ن لیگ بری طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ اس سے قبل پانامہ لیکس سے دو ماہ پیشتر حسین نواز کا انٹرویو کراتے ہوئے قوم کو یہ بتانے کی کوشش کی گئی تھی کہ یہ جو پاناما آنے والا ہے یہ سب ہمارا ہی کیا دھرا ہے ۔۔۔ وہ علیحدہ بات ہے کہ وہ پلانٹڈ انٹرویو انہی کے گلے پڑ گیا۔۔۔ اس طرح پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے حوالے سے خوش خبری دیتے ہوئے جو پیغام دیا گیا ہے یقینا اس سے چوہدری نثار علی خان اور میاں شہباز شریف کو بہت کچھ سمجھ آ گیا ہو گا؟