درد کی کہانی ہے کہ کسی موڑ پر رکنے، تھمنے کا نام نہیں لیتی۔ اِس کہانی میں ٹوئسٹ بھی کبھی کبھار ہی آتا ہے۔ کہانی صراطِ مستقیم پر گامزن رہتی ہے اور خون کے آنسو رلاتی رہتی ہے۔ دنیا بھر کے محققین درد کے تدارک کی فکر میں غلطاں رہتے ہیں۔ وہ آج تک سمجھ نہیں پائے کہ درد ہوتا کیوں ہے اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ کوئی بے درد کیونکر ہو جاتا ہے! بات صرف محسوس کرنے کی ہے۔ جو درد کو محسوس کرے اس کی زندگی میں سو دکھ اور جسے کسی بھی بات کا ذرا بھی احساس نہ ہو اس کے لیے تو مزے ہی مزے ہیں۔
ہم زندگی بھر سو طرح کے درد محسوس کرکے ہلکان ہوتے رہتے ہیں۔ قدم قدم پر کسی نہ کسی بے درد سے کوئی نہ کوئی درد ملتا رہتا ہے جو زندگی کا توازن بگاڑنے پر تُل جاتا ہے۔ جیسے ہی ہم ایک درد کو جھیل کر سنبھلتے ہیں کوئی دوسرا درد ہمارے سامنے آ کھڑا ہوتا ہے۔ ایسے میں وہ لوگ بہت خوش نصیب محسوس ہوتے ہیں جن کے نصیب میں بظاہر کوئی درد نہیں ہوتا۔ کبھی آپ نے کسی ایسے گھرانے کے بارے میں سنا ہے جو کسی بھی نوع کے درد سے یکسر مبّرا یا محفوظ ہے؟ اگر نہیں تو جان لیجیے کہ اٹلی میں ایسا ایک گھرانہ موجود ہے جس کے ارکان کو بڑی سے بڑی چوٹ لگنے پر بھی درد محسوس نہیں ہوتا۔ یہ خاندان 78 سالہ خاتون، ان کی دو بیٹیوں اور بیٹیوں کے تین بچوں پر مشتمل ہے۔ ان تمام افراد کو بھاری چوٹ لگنے پر ذرا بھی درد محسوس نہیں ہوتا۔ حد یہ ہے کہ ایک لڑکی کے کاندھے کی ہڈی ٹوٹی تو اسے ذرا بھی درد محسوس نہیں ہوا۔ ایک لڑکے کی ٹانگیں ٹوٹ چکی ہیں مگر وہ مزے سے اسکیئنگ کرتا رہتا ہے۔
ماہرین نے اس کیس پر بہت غور کیا ہے مگر ان کی سمجھ میں کچھ خاص آیا نہیں۔ خاندان میں اور کسی کو یہ ''اعزاز‘‘ نہیں ملا۔ صرف یہی 6 افراد درد کی لذت سے محروم ہیں! اب ماہرین کا کہنا ہے کہ ان 6 افراد کی جینز کا تجزیہ کرکے وہ کوئی ایسی دوا تیار کرنے کی کوشش کریں گے جس کے کھانے سے درد کی شدت میں تیزی سے اور نمایاں کمی یقینی بنائی جاسکے۔
فی زمانہ درد کی لذت سے محروم ہونا بھی ایک نعمت سے کم نہیں۔ کچھ شک نہیں کہ درد کا اپنا مزا بھی ہوتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ زمانہ درد کے سلسلے کو برقرار رکھنے پر تُلا رہتا ہے اور معاملات اس نہج پر رہتے ہیں کہ انسان یکے بعد دیگرے مشکلات میں گھرتا چلا جاتا ہے اور یوں درد کی لذت سے بھی ''ہمکنار‘‘ رہتا ہے۔
درد کی اثر پذیری سے دور دور رہنے والے اطالوی گھرانے سے متعلق خبر کی انٹرنیٹ کی دنیا میں خاصی پذیرائی کی گئی ہے مگر یہ بات اہلِ جہاں کو سمجھائے تو کون سمجھائے کہ درد محسوس نہ کرنے کی صلاحیت اس گھرانے کے حوالے سے تو اب سامنے آئی ہے، ہم نے یہ صلاحیت نہ جانے کب سے پروان چڑھا رکھی ہے! بے درد ہوکر زندگی بسر کرنے میں مجموعی طور پر ہمارے خطے کا کوئی جواب نہیں۔ ذرا پڑوس میں جھانکیے تو اندازہ ہوگا کہ درد محسوس نہ کرنے کے مقابلے ہوتے رہتے ہیں۔ اور یہ طے کرنا بہت مشکل ہوتا ہے کہ کون زیادہ یا سب سے بے درد ہے۔
دنیا بھر میں درد محسوس کرنے کے دعوے سبھی کرتے ہیں مگر اس معاملے میں ہم سب پر بازی لے جاچکے ہیں، یعنی دعوے کرنے میں۔ اس معاملے میں ہم ع
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے
کے مصداق دنیا پر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں کہ ہم نہ ہوں تو درد محسوس کرنے والا کوئی نہ ہو اور حقیقت یہ ہے کہ درد محسوس نہ کرنے کے معاملے میں ہمارا، دور دور تک، کوئی ثانی نہیں۔
ویسے تو خیر حالات کے ستم سہنے اور کسی بھی طرح کا درد محسوس نہ کرنے کے معاملے میں اس پورے خطے ہی کا کوئی جواب نہیں۔ عشرے گزر جاتے ہیں، صورتِ حال تبدیل نہیں ہوتی۔ معاملات جوں کے توں پڑے رہتے ہیں مگر کوئی کسی طرح کا درد محسوس نہیں کرتا۔ کرے بھی کیسے کہ یہ وصف بڑی مشکل سے پیدا ہو پاتا ہے۔
سرکاری شعبے میں علاج کی سہولتیں انتہائی ناگفتہ بہ مرحلے میں ہیں جس کے نتیجے میں بیماریاں پھیلتی جاتی ہیں اور صحتِ عامہ کا معیار ہے کہ گرتا جاتا ہے مگر ہم اس حوالے سے کسی بھی سطح پر درد محسوس نہیں کرتے۔
تعلیم کے شعبے کا جو حال ہے وہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ سرکاری اسکولز میں تعلیم برائے نام ہے یا پھر ہے ہی نہیں مگر ہم جاگنے کو تیار نہیں۔ علم کے نام پر قائم کی جانے والی عمارتیں جہالت کے تیر برسا رہی ہیں مگر ہمیں اس معاملے میں کسی طرح کا درد محسوس نہیں ہو پاتا۔
سڑکوں کا جو حال ہے وہ سب پر عیاں ہیں۔ لوگ دن رات ٹوٹی پھوٹی سڑکوں پر دھکے کھاتے ہوئے سفر کرتے ہیں۔ یومیہ سفر میں جسم کا جوڑ جوڑ دکھ جاتا ہے مگر کسی کو درد محسوس نہیں ہوتا۔ کوئی نہیں سوچتا اور پوچھتا کہ جسم کا جوڑ جوڑ الگ کردینے والی یہ سڑکیں کب مرمت یا تعمیر نو کے مرحلے سے گزریں گی۔ کوئی کیسے پوچھے؟ درد محسوس ہوگا تو پوچھے گا!
کسی نے خوب کہا ہے کہ ؎
درد ہو دل میں تو دوا کیجے
دل ہی جب درد ہو تو کیا کیجے
اطالوی گھرانے کی خصوصیت اس کی اپنی پیدا کردہ نہیں، قدرت کا عطیہ ہے۔ ہمارا کمال یہ ہے کہ درد کو گھاس نہ ڈالنے کی صفت ہم نے پیدا کی اور پروان چڑھائی ہے۔ ایسا کرنے کے لیے جس ٹائپ کا جگرا درکار ہے وہ بھی کچھ ہمارے ہی سینوں میں پایا جاتا ہے۔
اہلِ جہاں درد سے نمٹنے کے طریقے سوچتے رہتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ درد سے مکمل نجات کا ایک انتہائی کارگر طریقہ غالبؔ نے ڈیڑھ پونے دو سال پہلے سُجھایا تھا ع
درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا!
درد کو بڑھنے دیجیے، جب یہ حد سے گزرے گا تو تکلیف دینا چھوڑ دے گا۔ بس یہی ہے درد کا موثر علاج۔ ہمارے معاملے میں بھی درد تمام حدوں سے گزر گیا ہے اور ہم لذتِ درد سے محرومی کی ساری حدیں پار کرگئے ہیں۔ گویا ع
دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی
اگر محققین اور ماہرین کو درد سے فوری نجات دلانے والی کوئی دوا تیار کرنا ہے تو اتنی زحمت نہ اٹھائیں بلکہ ہم سے سیکھیں کہ درد کو محسوس نہ کرنے کا ہنر کیا ہوتا ہے اور کن کن ''درجہ ہائے کمال‘‘ سے گزرتا ہے! ہم نے عشروں، بلکہ صدیوں کی محنت سے ایسی ہنر مندی پروان چڑھائی ہے کہ مشکلات ہماری ''استقامت‘‘ کی دیوار سے سر ٹکراکر پاش پاش ہو جاتی ہیں۔