افغان جنگ کی تباہ کاریوں نے امریکہ کو‘ 16 سالوں سے جنوبی ایشیا میں الجھا رکھا ہے۔ اگست میں امریکی صدر‘ ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان کی پیچید ہ کشمکش کا ایک حل تجویز کیا تھا۔ ''نئی حکمتِ عملی کوئی ڈیڈ لائن دیے بغیر‘‘ اس جنگ زدہ ملک میں قیام امن کے لیے ضروری حالات پیدا کرنے کی بات کرتی ہے۔ اس مقصد کے لیے صدرٹرمپ نے بھارت پر زور دیا کہ وہ افغانستان کی معاشی ترقی میں زیادہ فعال کردار ادا کرے۔ ٹرمپ نے پاکستان کو اپنے مخصوص انداز میں دو ٹوک پیغام دیا۔ امریکی صدر نے دو سو ملین نفوس پر مشتمل اس جوہری طاقت کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان‘ انتہا پسندگروہوں جیسا کہ حقانی نیٹ ورک اور طالبان کو محفوظ ٹھکانے فراہم کرنے کی پالیسی جاری رکھے ہوئے ہے۔ اسلام آباد کے رویے میں تبدیلی لانے کے لیے‘ ٹرمپ انتظامیہ نے دھمکی دی کہ وہ پاکستان سے ''غیر نیٹو اہم اتحادی‘‘ کا درجہ واپس لے لیں گے۔ اس کے علاوہ پاکستان کو 2002 ء کے بعد سے فراہم کی جانے والی اربوں ڈالر امداد کا بڑا حصہ بھی روک لیں گے۔ تاہم یہ دھمکی کارگر ثابت نہیں ہو رہی۔ نیٹو کمانڈر‘ جنرل جان نکولسن کا کہنا ہے کہ پاکستان اب بھی انتہا پسند وں کو محفوظ ٹھکانے فراہم کر رہا ہے۔ اگر واشنگٹن‘اسلام آباد کے خلاف سخت ایکشن لیتا ہے تو بھی اُسے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوںگے۔ دراصل افغانستان میں واحد خطرہ انتہا پسند ی ہی نہیں‘ امریکہ یہاں دیگر تزویراتی طاقتوں کے خلاف بھی حالت جنگ میں ہے۔
سیاسی جغرافیائی طاقتوں کی جدوجہد کی بنیاد اس مفروضے پر ہے کہ تمام قومیں اپنے بچائو کی جنگیں لڑ رہی ہیں۔ اس مقصد کے لیے وہ تمام دستیاب وسائل استعمال میں لاتی ہیں۔ پاکستان کے لیے اپنے بچائو کی جنگ کا تعلق اس ملک کی تخلیق کے وقت سے ہے۔ برطانوی تسلط سے آزادی حاصل کرنے کے صرف دو ماہ بعد‘ پاکستان کو کشمیر کے مسئلے پر بھارت کے خلاف جنگ لڑنا پڑی۔ بانی پاکستان‘ قائداعظم محمد علی جناحؒ اس بات سے آگاہ تھے کہ بھارت کے کچھ دھڑے‘اس کمزورہمسایہ ریاست کو‘منہدم کرنے کی پالیسی رکھتے ہیں۔ چنانچہ پاکستان نے ترقیاتی منصوبوں کو نظر انداز کرتے ہوئے‘زیادہ وسائل کا رخ قومی دفاع کی طرف موڑ دیا۔ یہی وجہ ہے کہ پاک فوج کو غیر معمولی طاقت اور اختیارات مل گئے۔ اس کے بعد پاکستان کی خارجہ پالیسی کا رہنما اصول بن گیا کہ بھارت ایک دشمن ملک ہے۔ اب ہو سکتا ہے کہ آپ پاکستان کو ماضی کے خوف میں جکڑی ہوئی ریاست قرار دینا پسند کریں لیکن اس ملک کی پوزیشن سمجھنا ضروری ہے۔ اس کی ایک سرحد اپنے روایتی دشمن سے ملتی ہے۔ یہ کسی صورت نہیں چاہے گا کہ اس کا مغربی سرحد پر بھی نئی دلی سے واسطہ پڑ جائے۔ ان معروضات کو ذہن میں رکھتے ہوئے پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ نئی دلی‘ جس کے کابل حکومت کے ساتھ دوستانہ روابط ہیں‘ کو اپنی مغربی سرحد سے دور رکھے۔ اس دوران بھارت ترقیاتی فنڈز فراہم کرتے ہوئے افغان حکومت کو قریب ہونے کی کوشش کرتا ہے۔
1979 ء میں سوویت مداخلت کے بعد امریکہ نے‘ افغانستان میں پراکسی قوتیں تیار کرنے کے لیے پاکستان کی مدد کی۔ یہ پالیسی امریکہ کی کمیونزم کے خلاف وسیع تر محاذآرائی کا حصہ تھی۔ سی آئی اے اور سعودی عرب نے پاکستان کی انٹیلی جنس ایجنسی‘ آئی ایس آئی کے ذریعے افغان مجاہدین کو رقم اور ہتھیاروں کی بھاری کھیپ فراہم کرنا شروع کر دی۔ یہ مجاہدین سوویت یونین کے خلاف لڑنے والے مذہبی اور لسانی گروہ تھے۔ ایک بے دین نظریے‘ کمیونزم کو ایک اسلامی ریاست سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے مجاہدین کی جدوجہد رنگ لائی اور ایک عشرہ طویل گوریلا جنگ کے بعد‘ 1989ء میں سوویت یونین‘ سنگلاخ پہاڑوں اور بے رحم وادیوں کے اس ملک سے اپنی فورسز نکالنے پر مجبور ہو گیا۔ اس کے ساتھ ہی واشنگٹن نے بھی آنکھیں پھیر لیں۔ چنانچہ افغانستان کو کنٹرول کرنے کے لیے مجاہدین کے درمیان رقابت کی جنگ شروع ہو گئی۔ 1994ء میں ہونے والی خانہ جنگی سے جنوبی افغانستان سے ایک نئی بنیاد پرست تحریک ابھری‘ جسے دنیا طالبان کے نام سے جانتی ہے۔
پاکستان اب مجاہدین کی پشت پناہی کرتے کرتے تنگ آچکا تھا۔ طالبان کے سر اٹھانے سے ایک اور موقع فراہم ہو گیا۔ ا نہوں نے سوچا کہ طالبان کے ساتھ تعاون کرنے سے کابل میں استحکام آسکتا ہے۔ اسلام آباد کے تعاون سے کابل ہمسایہ ریاست‘ ترکمانستان سے توانائی حاصل کرسکتا تھا۔ پاکستان میں اس وقت بے نظیر بھٹو کی حکومت تھی۔ انہوں نے طالبان کو ملک پر اپنا اقتدار قائم کرنے کے لیے فنڈز فراہم کرنا شروع کر دیے۔ یہاں تک کہ طالبان نے ستمبر 1996ء میں کابل میں حکومت قائم کرلی۔ یہ وہ مقام تھا جب افغانستان میں اسلام آباد اور واشنگٹن کے مفادات کے درمیان ٹکرائو پیدا ہوا۔ طالبان‘ اسامہ بن لادن اور اُس کی تنظیم‘ القاعدہ کی میزبانی کر رہے تھے۔ افغانستان کے پہاڑوں سے اسامہ بن لادن نے نائن الیون کا منصوبہ بنایا۔ (جاری)
نوٹ:۔ عالمی امور کے‘ ایک امریکی تجزیاتی ادارے کا مضمون‘ جس میں انکشاف کیا گیا کہ پاکستان کی موجودہ دفاعی پالیسی‘ قائداعظم محمد علی جناحؒ نے تیار کی تھی۔