جو ملے تھے راستے میں
شگفتہ اور بے تکلف تحریروں سے مزین یہ کتاب احمد بشیر نے لکھی‘ الفیصل ناشران نے چھاپی اور اس کی قیمت 400 روپے رکھی۔ تحقیق و ترتیب یونس جاوید کی ہے جو اپنی جگہ پر ایک ممتاز ادیب ہیں۔ کتاب کا انتساب اس طرح سے ہے :پیارے ممتاز مفتی‘ میں نے تمہیں عقل سکھائی‘ تم نے مجھے جنون‘ ہم دونوں ناکام رہے۔ اس سے بھی پہلے یہ تحریر کہ :پیارے یونس جاوید‘ صحافت میں میرا اچھا خاصا نام تھا۔ تم نے میری پُرانی دھجیاں جمع کر کے کتاب بنا دی۔ اب اگر ادیبوں کے قبیلے نے مجھے قبول نہ کیا تو؟خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ خاکوں پر مشتمل یہ کتاب کوئی 300 صفحوں پر محیط ہے‘ جن ادیبوں کے خاکے لکھے‘ بلکہ اُڑائے گئے ہیں‘ کیونکہ خاکہ جب تک اُڑایا نہ جائے خاکہ نہیں بنتا‘ اُن کے اسمائے گرامی یہ ہیں :
شروع میں چراغ حسن حسرت کا انٹرویو ہے‘ اس کے بعد مولانا حسرت موہانی‘ میرا جی‘ احسان دانش‘ ظہیر کاشمیری‘ ممتاز مُفتی‘ خواجہ خورشید انور‘ قدرت اللہ شہاب‘ حارث میر‘ میجر اسحاق‘ کشور ناہید‘ عبدالمجید بھٹی اور بریگیڈیئر عاطف شامل ہیں، ایک صاحبِ طرز ادیب اور صحافی کے قلم سے یہ دلچسپ تحریریں پڑھنے کے لائق ہیں۔
مضامین و مباحث
شاعر‘ نقاد اور محقق حیدر قریشی کی یہ کتاب عکاس پبلی کیشنز اسلام آباد نے چھاپی اور قیمت 300 روپے رکھی ہے۔ انتساب اپنے ناناجی میاں سراج دین صاحب اور اپنی بے جی خیراں بی بی کے نام ہے۔ اس میں تبصرے‘ خاکے‘ تنقیدی مضامین اور ادبی نالج دستیاب ہوتے ہیں۔ معاصر ادب اور ادیبوں کے بارے ان کی رائے صائب سمجھی جاتی ہے۔ ادبی منظرنامہ کے عنوان سے ان کے یہ چھ مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ حاصل مطالعہ‘ تاثرات‘ مضامین اور تبصرے‘ ستیہ پال آنند کی بُودنی نابُودنی‘ ڈاکٹر گوپی چند نارنگ اور مابعد جدیدیت اور ڈاکٹر وزیر آغا : عہد ساز شخصیت۔
جدید ادب کے نام سے ایک جریدہ بھی نکالتے ہیں۔ کچھ مضامین میں چھیڑ چھاڑ اور نوک جھونک بھی ہے جو اس کتاب کو مزیدار بھی بناتی ہے۔ بعض مضامین بظاہر خشک ہیں لیکن دلچسپی سے وہ بھی خالی نہیں ہیں۔ عمومی قیام جرمنی میں ہے۔
نگارِش ماجدی
یہ کتاب مولانا عبدالماجد دریابادی کے خطوط ہیں جو رئیس احمد جعفری کو لکھے گئے اور جو ہمارے مرحوم دوست‘ شہرہ آفاق کتاب ''سفرنامہ مقبوضہ ہندوستان‘‘ کے مصنف سید انیس شاہ جیلانی نے مرتب کئے ہیں۔ اسے شیخ غلام علی اینڈ سنز نے چھاپا۔ قیمت درج نہیں ہے۔ دو سربرآوردہ صحافیوں کی یہ خط کتابت ساڑھے تین سو صفحات کو محیط ہے۔ آغاز میں کلمہ ثانی کے عنوان سے لکھتے ہیں : زمانے گزر گئے۔ ایک جگ بیت گیا۔ نگارشِ ماجدی چھپنے کو ہے۔ بس آج کل کی بات رہ گئی ہے۔ بہت جلد چھپ جائے گی۔ یہ سُنتے سُنتے لوگ کیا‘ خود ہم بھی بُھول بھال گئے۔ سوئے ہوئے فتنے کو جگانا ممکن تو بہرحال ہوتا ہی ہو گا۔ تازہ ہوائی ہمارے ''دشمن‘‘ امجد سلیم علوی نے اُڑا تو دی ہے۔ نگارش ماجدی کی باری آ گئی ہے۔ وہی بس آج ابھی ہاتھ کے ہاتھ لے لو۔ اب چھپنے میں کوئی دیر نہیں ہے۔ دن ہی کتنے رہ گئے ہیں۔ گویا ہم پھر سے جوان ہونے کو ہیں۔
راجہ گدھ (تنقیدی جائزہ)
اس کے مصنف غلام حسین غازی ہیں۔ اسے بُک ہوم نے چھاپا اور قیمت 400 روپے رکھی ہے۔ انتساب علی عباس جلالپوری کے نام ہے۔ دیباچہ گل سلطان اعوان نے لکھا ہے۔ اسے مندرجہ ذیل ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے : وجہ تنقید‘ عنوان بے عنوان غلط عنوان‘ جنرل ضیاء الحق کا مارشل لاء اور راجہ گدھ کا ظہور‘ غلط کردار نگاری و غلط منظر کشی‘ حرام و حلال کا قرآنی نظریہ بمقابلہ گدھ‘ غلط نظریہ ارتقاد‘ راجہ گدھ میں جنسی اشارے‘ بابے‘ راجہ گدھ میں بانو قدسیہ کا فلسفہ محبت‘ اپنی من مانی پرندوں کی زبانی‘ تھیسز اینڈ اینٹی تھیسیز اور مدرس نقاد کے باب میں۔
کتاب میں مصنفہ کے نظریات سے نہ صرف کھل کر اختلاف کیا گیا ہے بلکہ اسے اکرام اللہ کے ناول ''گُرگِ شب‘‘ سے ماخوذ قرار دیا گیا ہے۔ اس پر جنرل ضیاء الحق نے پابندی عائد کر دی تھی۔
ادب کے اطراف میں
ناصر علی سید کی یہ کتاب ملاقات پبلی کیشنز پشاور نے چھاپ کر اس کی قیمت 300 روپے رکھی ہے۔ یہ مصنف کے ادبی کالموں کا مجموعہ ہے جس کا انتساب سید ذی شان ناصر‘ افراز علی سید اور ابتسام علی سید کے نام ہے۔ ان کالموں کو ایڈٹ حسام حُر نے کیا ہے۔ دیباچے لکھنے والوں میں محمود شام (کراچی) حیدر قریشی (جرمنی) عتیق احمد صدیقی (امریکہ) قیصر محمود بٹ (پشاور) اور میجر (ر) محمد عامر اسلام آباد شامل ہیں۔ پیش لفظ ''کوئی بھی کیوں لکھتا ہے‘‘ کے زیرعنوان مصنف کا بقلم خود ہے۔ کم و بیش ساڑھے تین سو صفحات پر مشتمل اس کتاب کا ٹائٹل اعزاز علی سید (امریکہ) نے بنایا ہے۔ یہ کتاب 2013ء میں شائع ہوئی۔ کالموں کی تعداد 331 ہے۔ بیرونی فلیپ محمود شام جبکہ اندرونی فلیپ بزبان انگریزی اقبال سکندر نے لکھا ہے۔ اس کا ایک دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ ہر کالم کا عنوان مصرعے کی شکل میں ہے۔
رنگ ریز
تصوف اور اخلاقیات پر مشتمل یہ کتاب شفیق سہروردی نے لکھی اور مطبوعات جھوک ایاز‘ حسن ابدالی نے چھاپ کر اس کی قیمت 150 روپے رکھی ہے۔ کتاب کا انتساب جناب خرم حنیف خان اور ڈاکٹر میاں محمد واجد کے نام ہے۔ دیباچے لکھنے والوں میں ہمارے شاعر دوست ضیاء المصطفی تُرک اور ڈاکٹر عزیز ابن الحسن ہیں۔ حرف تشکر مصنف نے بقلم خود لکھا ہے۔ اسے چھوٹے چھوٹے 127 ٹکڑوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پس سرورق سائیں ایاز سہروردی کی تصویر اور طارق حنیف (لندن) کے قلم سے کتاب کا مختصر تعارف درج ہے۔ بابا جی کا طویل انٹرویو بھی شامل ہے۔
آج کا مقطع
آخر تو آ ہی لینا تھا اِس نے مجھے ‘ ظفر
کب سے لگی ہوئی تھی مری جستجو میں خاک