پیر صاحب کی طرف چلنے سے پہلے گڈگورننس کا ماتم اور مسیحی بھائیوں کے ساتھ اظہار ہمدردی ویک جہتی بہت ضروری ہے۔ چند اخباروں کی سرخیاں پنجاب حکومت جان و مال کے تحفظ میں ناکام لاہور میدان جنگ بن گیا، جگہ جگہ احتجاج، کراچی میں مظاہرہ کے دوران تشدد توڑ پھوڑ، پتھرائو، لاٹھی چارج، شیلنگ، گیس لائن نذر آتش ،مال روڈ پر دھرنا، پریس کلب کے باہر مظاہرے، کفن پوشوں کا جی ٹی روڈ پردھرنا، فیروزوالا سمیت کئی مقامات پر سڑکیں بلاک۔ ملک بھر میں مظاہرے، لاہور میں توڑ پھوڑ، بیشتر علاقے میدان جنگ بنے رہے۔ LAHORE BECOMES BATTLEFIELD CHRISTIANS TAKE TO STREETS OVER RIOTS یہ ہیں اس گڈ گورننس کی چند جھلکیاں جس کے بہت ڈھنڈورے پیٹے جاتے ہیں اور تنخواہ داروں کی اک فوج اس پر مامور ہے کہ کوے کو سفید، رات کو دن اور جھوٹ کو سچ ثابت کریں۔ ظلم، زیادتی، غفلت اور نااہلی کی انتہا ہے کہ مسیحی بھائیوں کی بستی تو خالی کرا لی گئی کیونکہ حکومت کو یقین تھا کہ کچھ ہونے والا ہے لیکن اس ’’غریب آباد‘‘ کے گھروں کی حفاظت کو ضروری نہیں سمجھا گیا۔ مکین نکال کر مکان، کوٹھے، جھونپڑیاں بالکل لاوارث چھوڑ دی گئیں۔ غریبوں کا روم جلتا رہا اور گڈ گورننس گٹار بجاتی رہی۔ خدا جانے ان کچے پکے کوٹھوں کے اندر کتنی بیٹیوں کے جہیز، کتنی مائوں کے ارمان اور کتنے بھائیوں،باپوں کی جمع پونجیاں بھی جل گئی ہوں گی۔ اس سانحہ پر کمبل پوش درویش ساغر صدیقی یاد آتا ہے جس نے سچ کہا تھا جس شہر میں لُٹ جائے فقیروں کی کمائی اس شہر کے ’’خادم‘‘ سے کوئی بھول ہوئی ہے ہم تو ماتم ہی کرسکتے ہیں سو مسلسل محو ِماتم ہیں اور تب تک یہ سلسلہ جاری رہے گا جب تک عذاب ٹل نہیں جاتے۔ مسیحی بھائیوں کے لیے صبرو سکون کی دعا کے ساتھ اب چلتے ہیں پیرصاحب پگاڑو کی طرف جو خود بھی اس سانحہ پر بہت پریشان تھے۔ ہفتہ کی شام ’’بریشم کی طرح نرم‘‘ دوست محمد علی درانی کا فون آیا کہ اتوار کو لنچ ان کی رہائش پر ہوگا۔ میں نے کہا ’’آپ تو جانتے ہی ہیں کہ اتوار کو میری ریکارڈنگ ہوتی ہے اور میں 3 بجے سے پہلے فارغ نہیں ہوتا۔ آدھ گھنٹہ ڈرائیونگ ٹائم سو میں تو لنچ پر آپ کو جوائن کر ہی نہیں سکتا۔‘‘ درانی صاحب نے اپنی مخصوص ہنسی کے بعد کہا…… ’’فکر نہ کریں کیونکہ یہ لنچ پانچ تا چھ بجے شام کے درمیان ہوگا۔‘‘ میں نے کہا ’’حضور! یہ لنچ کا کون سا ٹائم ہے؟‘‘ انکشاف کیا کہ لنچ پیر صاحب پگاڑو کے اعزاز میں ہے اور ان کا لنچ 5 اور 6بجے کے درمیان ہی ہوتا ہے۔ ملاقات کے دوران معلوم ہوا کہ اس لنچ کے بعد پیر صاحب ڈنر کرتے ہی نہیں۔ پیر صاحب انتہائی چارمنگ، خوشگوار اور ’’ڈائون ٹو ارتھ‘‘ سی پرسنالٹی کے مالک ہیں۔ برادر بزرگ محبّی مجیب شامی صاحب نے گپ شپ کے دوران پوچھا کہ ’’بڑے پیر صاحب مرحوم تو ستاروں اور نجوم میں گہری دلچسپی رکھتے تھے، آپ کی کیا کیفیت ہے؟‘‘ پگاڑو صاحب نے جواب میں اپنے والد مرحوم ومغفور کے چند ایسے دلچسپ واقعات سنائے جن کا تعلق ان کے علم نجوم سے تھا لیکن پھر اپنی بات کرتے ہوئے کہا… میرا فوکس آسمان کے ستاروں سے زیادہ زمینی حقائق پر ہوتا ہے اور میں ان کی چال پر زیادہ توجہ دیتا ہوں۔ میرا اپنا ہی ایک ’’قولِ زرّیں‘‘ ہے کہ جس گھر میں کوئی سرائیکی یا سندھی بولنے والا ہو، وہاں سویٹ ڈش کی ضرورت نہیں پڑتی کہ مجھے اپنی سرائیکی اور سندھی فارسی اور فرنچ سے زیادہ میٹھی محسوس ہوتی ہے۔ پیر صاحب پگاڑو نے ظاہر ہے سندھی تو نہیں بولی لیکن ان کی اردو اور انگریزی پر سندھی کا سحرانگیز سایہ خوب تھا۔ سائیں نے اپنی گفتگو کے کسی ایک حصہ کو بھی ’’آف دی ریکارڈ‘‘ نہیں کہا لیکن میں مہمان کے اعزازو احترام میں کچھ تبصرے رضا کارانہ طور پر آف دی ریکارڈ ہی رکھوں گا۔ میرے نزدیک ساری گفتگو میں سیاسی حوالہ سے اہم ترین بات یہ تھی کہ سندھ پر بھی پی پی پی کی گرفت ڈھیلی پڑ رہی ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ پیپلزپارٹی اس بار لاڑکانہ سے بھی ساری سیٹیں نہ نکال سکے۔ پیر صاحب مسلم لیگ فنکشنل کو صحیح معنوں میں فنکشنل کرنے کے موڈ میں ہیں۔ ان کا ’’پرسنالٹی ٹائپ‘‘ دیکھ کر میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ وہ ایسا کرنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ پیر صاحب نے خود بتایا کہ جب انہوں نے پارٹی کی پہلی میٹنگ کی صدارت کی تو ہر کوئی چپ تھا۔ بالآخر میں نے کہا کہ ’’بھئی تم لوگ بھی کچھ بولو‘‘ تو سب نے کہا ’’آپ جو کہیں گے اور کرینگے وہ بالکل درست ہوگا‘‘ تو میں نے انہیں سمجھایا کہ ’’نہیں…… ہم ہر فیصلہ مشترکہ مشورے اور مکالمے سے کریں گے، ہر بات دلیل کے ساتھ ہوگی، ہرفیصلہ اجتماعی برین سٹارمنگ کے نتیجہ اور روشنی میں ہوگا۔‘‘ ایسی دلکش شخصیت کا مالک‘ اتنا اہم پیر اگر لوگوں کے ساتھ فرش پر بیٹھ کر اتنے فرینڈلی انداز میں اتنا جمہوریت نواز ہوگا تو پارٹی عرش تک بھی پہنچ سکتی ہے۔ خصوصاً ان حالات میں جب پی پی پی بھی پگھلنے لگی ہے۔ پیرصاحب کیساتھ چند گھنٹے بہت خوشگوار گزرے اور پھر درانی کی میزبانی اور شامی صاحب کی خوش کلامی… اک اور اطلاع کہ ’’بلاول ہائوس‘‘ کے بعد لاہور میں ’’کنگری ہائوس‘‘ بھی آباد ہونے والا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved