یہ وہ مقام تھا جب افغانستان میں اسلام آباد اور واشنگٹن کے مفادات کے درمیان ٹکرائو پیدا ہوا۔ طالبان‘ اسامہ بن لادن اور اُس کی تنظیم‘ القاعدہ کی میزبانی کر رہے تھے۔ افغانستان کے پہاڑوں سے اسامہ بن لادن نے نائن الیون کا منصوبہ بنایا۔ جواب میں اکتوبر 2001 ء میں امریکہ نے افغانستان پر چڑھائی کر دی۔ اس جنگ میں پینٹا گون کا مرکزی ہدف‘ افغانستان میں اپنے ٹھکانے بنا کر‘ القاعدہ کو دیگر ممالک پر حملے کرنے سے روکنا تھا۔ اس دوران پاکستان کے طالبان کے ساتھ روابط برقرار رہے تاکہ وہ افغانستان میں اپنے مفادات کا تحفظ کر سکے۔
آج 16 سال بعد امریکہ کی لڑی جانے والی اور فی الحال بے نتیجہ جنگ نے ٹرمپ انتظامیہ کو مجبور کر دیا ہے کہ وہ اسلام آباد کے ساتھ اپنے تعلقات پر نظرِ ثانی کرے۔ یقینا امریکہ‘ پاکستان کی نسبت کہیں زیادہ طاقتور اور بااثر ملک ہے۔ یہ عالمی تاریخ کی طاقتور ترین فوج اور 18 ٹریلین ڈالر کا معاشی حجم رکھتا ہے۔ امریکہ کے مقابلے میں پاکستان معاشی طور پر ایک غریب ملک ہے۔ پاکستانی فوج اگرچہ ایک بے حد لڑاکا فورس ہے لیکن اس کا امریکی جنگی مشین سے کوئی مقابلہ نہیں۔ اس فرق کے باوجود واشنگٹن‘ اسلام آباد کو طالبان سے تعلقات توڑنے پر مجبور نہیں کر سکا۔
واشنگٹن کی ناکامی کی ایک وجہ‘ جنگ کے اخراجات کم کرنے کی کوشش بھی تھی۔ مثال کے طور پر 2011ء میں دنیا کے مطلوب ترین شخص‘ اسامہ بن لادن کی پاکستان کے ایک شہر‘ ایبٹ آباد سے برآمدگی نے واشنگٹن کے دل میں کوئی شک نہیں رہنے دیا کہ پاک فوج انتہا پسندوں سے تعلقات رکھتی ہے۔ اس کے باوجود امریکہ‘ اسلام آباد کو امداد فراہم کرتا رہا۔ اس جنگ کے دوران پاکستان کو فراہم کی گئی امریکی امداد کا حجم 33 بلین ڈالر ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پینٹاگون کے نزدیک پاکستان کے ساتھ شراکت داری افغانستان میں سپلائی روٹ اور القاعدہ کے کارکنوں کی تلاش کے لیے ضروری تھی۔ چنانچہ اس نے پاکستان کے انتہا پسندوں کے ساتھ جزوی تعلقات کو نظر انداز کرنے کی پالیسی اپنائے رکھی۔ صدر جارج ڈبلیو بش اور ان کے جانشین‘ بارک اوباما نے اس شراکت داری کو خطرے میں ڈالنا مناسب نہ سمجھا۔
لیکن اب ٹرمپ انتظامیہ کے دور میں یہ پالیسی تبدیل ہو سکتی ہے۔ انہوں نے امریکی خارجہ پالیسی کے روایتی خدوخال پر سوال اٹھاتے ہوئے عالمی معاملات کو نظر انداز کرنے
اور داخلی معاملات پر توجہ دینے کی پالیسی اپنائی ہے۔ واشنگٹن کے اسلام آباد کے ساتھ تعلقات میں تبدیلی اس سلسلے کی ایک کڑی ہے لیکن اگر صدر ٹرمپ یا اُن کے جنرل یہ سوچ رہے ہیں کہ مزید دھمکیاں پاکستان کو رویہ بدلنے پر مجبور کردیں گی تو یہ امریکہ کی خام خیالی ہے۔ جب تک پاکستان کے افغانستان میں مفادات خطرے میں رہیں گے‘ وہ امریکی دھمکیوں کی قیمت چکانے کے لیے تیار ہے۔ اب اس کے پاس وسائل کی فراہمی کا متبادل ذریعہ‘ چین کی صورت بھی موجود ہے۔
اسلام آباد ‘بھارت میں نریندر مودی کے ہندوتوا کے فروغ کو بھی اپنی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔ انتہاپسند ہندوئوں نے اب تک پاکستانی ریاست کے وجود کو تسلیم نہیں کیا۔ وہ اس ملک کی جغرافیائی سلامتی کو اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ اگر مودی 2019ء میں‘ دوسری مرتبہ بھی اقتدار سنبھالنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، جس کے واضح امکانات دکھائی دیتے ہیں‘ تو اسلام آباد کی اس تشویش میں اضافہ ہو جائے گا کہ نئی دہلی‘ افغانستان کی طرف سے اس کی مشکلات بڑھا دے گا؛ چنانچہ اس خطرے کا تدارک کرنے کے لیے پاکستان‘ طالبان کی مدد جاری رکھے گا۔
پاکستان کی افغان پالیسی کا تعلق بھی اپنے تحفظ کی اسی سوچ سے ہے‘ جو ملک کی خارجہ پالیسی کی روح رواں ہے۔ اب ستم ظریفی یہ ہے کہ واشنگٹن نے سرد جنگ کے دور میں اسلام آباد کے پراکسی دستوں کی پشت پناہی کرنے کی جس پالیسی کی حمایت کی تھی‘ آج یہی پالیسی اسے تکلیف پہنچا رہی ہے؛ تاہم اصل قصور جغرافیے کا ہے۔ اگر کل آخری نیٹو فوجی‘ افغان سرزمین سے نکل جائے تو بھی پاکستان اور بھارت ایک دوسرے کو اس سرزمین‘ جسے ''سلطنتوں کا قبرستان‘‘ کہا جاتا ہے‘ پر قدم رکھنے کی اجازت نہیں دیں گے۔
بھارت کی افغانستان کی طرف سے مداخلت سے روکنے کے لیے‘ پاک فوج افغان سرحد کے ساتھ باڑ لگا رہی ہے۔ اس منصوبے کا ایک پہلو فاٹا کو ریاست پاکستان میں ضم کرنا ہے۔ نو آبادیاتی دور سے فاٹا پر کسی کی حکومت نہیں۔ اسے ریاستی عملداری میں شامل کرنے کے بعد پاک فوج اپنی پوری توجہ‘ بھارتی عزائم کی طرف مبذول کر سکتی ہے۔ فوج نے مقامی انتہا پسندوں کو مرکزی سیاسی دھارے میں شامل کرنے کی پالیسی بھی بنا لی ہے؛ تاہم ملی مسلم لیگ کا قیام ملک میں فوج اور حکومت کے درمیان تنائو کا باعث بن سکتا ہے جیساکہ وزارتِ داخلہ کے بیانات سے ظاہر ہوتا ہے۔ پاکستان کے طالبان سے روابط کمزور کرنے کی کوشش کا نتیجہ‘ اسلام آباد اور واشنگٹن کے تعلقات خراب ہونے کے سوا اور کچھ نہیں نکلے گا۔