تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     31-12-2017

امریکہ سے ٹکر لینے کا نیا رومانس

جب سے ہوش سنبھالا ہے پاکستان کے سیاسی، فوجی اور دانشور حلقوں کو یہی کہتے سنا ہے کہ امریکہ کی دوستی گھاٹے کا سودا ہے۔ ہوش سنبھالنے سے پہلے کا احوال جاننے کے لئے چند کتابیں پڑھ لیں تو پتا چلا کہ ہر دور میں‘ ہر حکمران نے یہی سودا بیچا کہ یہ گھاٹے کا سودا ہے مگر عوام کو چونا لگا کر امریکہ سے ذاتی فائدے بھی حاصل کر لیے۔ جنرل ایوب نے امریکیوں کو پشاور اور چٹاگانگ میں سی آئی اے کو روس اور چین کی جاسوسی کے لیے اڈے دیئے اور بدلے میں جان کینیڈی سے اپنے اقتدار کی ضمانت لی اور بعد میں فخر سے کتاب بھی لکھ ماری Friends not Masters۔ جنرل ضیاء نے بھی جمی کارٹر کے چار سو ملین ڈالرز کی امداد یہ کہہ کر ٹھکرا دی کہ یہ تو مونگ پھلی کا دانہ ہے۔ امریکہ نے چار ارب ڈالرز دے دیئے تو جنرل صاحب نے امریکیوں کو گلے لگا لیا۔ جنرل مشرف نے بھی یہی ڈیل کی کہ ہر سال ڈیڑھ ارب ڈالرز دو اور مجھے پاکستان کا حکمران رہنے دو، پھر جو جی چاہے ہم سے کرا لو۔
ڈالرز دے کر امریکی ہم سے اپنا کام کراتے رہے‘ لیکن ہم عوام کو یہی واعظ کرتے رہے کہ امریکی دوستی گھاٹے کا سودا ہے۔ یہ عوام کے لیے گھاٹے کا سودا ہوگا لیکن پاکستان کی ہر طرح کی قیادت کے لیے امریکی دوستی رحمت ثابت ہوئی ہے۔
مجھے آج تک سمجھ نہیں آئی کہ اگر میں ذاتی زندگی میں کسی انسان کے بارے میں یہ رائے رکھتا ہوں کہ اس سے دوستی گھاٹے کا سودا ہے تو کیا میں ستر سال تک اس سے دوستی رکھوں گا؟ کیا اس کو فیورز دوں گا یا اس سے لوں گا؟
اب تازہ بڑھک وزیرخارجہ خواجہ آصف نے ماری ہے کہ امریکہ سے دوستی گھاٹے کا سودا ہے۔ 
میرے خیال میں ہماری اس نئی تبدیلی کے پیچھے بھی ڈالرز ہی ہیں۔ امریکہ جب تک ہر سال پاکستان کو ڈیڑھ ارب ڈالرز کی فوجی اور معاشی امداد دیتا رہا‘ ہم اس کے گیت گاتے رہے۔ پچھلے دو سال سے امداد میں رکاوٹ آنا شروع ہوئی جب امریکہ نے گلہ کیا کہ آپ ہر سال ڈالرز لے کر بھی افغانستان میں طالبان کو سپورٹ کر رہے ہو۔ وار آن ٹیرر کے تحت جو ہر سال ڈیڑھ ارب ڈالرز ملتے تھے‘ وہ امریکہ نے بند کر دیئے۔ ایف سولہ طیاروں کی فراہمی کے لیے امریکہ نے جو پانچ سو ملین ڈالرز کی سبسڈی دینا تھی‘ وہ بھی روک لی گئی کہ اگر پاکستان نے وہ طیارے لینے ہیں تو پوری قیمت ادا کرے۔امریکی کانگرس میں بل بھی پیش کیے گئے کہ پاکستان کو دہشت گرد ریاست قرار دیا جائے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک سال پہلے تک‘ ہر تیسرے ماہ اسحاق ڈار امریکی سفیر سے مل کر کہتے تھے کہ اس سہ ماہی کی تین سو ملین ڈالرز کی قسط ادا کی جائے کیونکہ ہمارے پاس پیسے نہیں ہیں۔ یہ وہ امریکی امداد تھی جو جنرل مشرف دور سے چلی آ رہی تھی۔ نواز شریف اور نواز لیگ‘ دونوںاقتدار میں آنے سے قبل شدید تنقید کرتے تھے کہ جنرل مشرف نے پاکستان کو امریکہ کے ہاتھوں بیچ دیا ہے لیکن جب 2013ء میں خود نواز شریف وزیراعظم بنے تو اسحاق ڈار کشکول اٹھا کر امریکی سفیر کے گھر پہنچ گئے کہ سرکار پیسے دیں کیونکہ ہم آپ کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ چار سال تک اسحاق ڈارامریکیوں سے یہ کہہ کر ڈالرز لیتے رہے کہ ہم آپ کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ 
جب اسحاق ڈار ڈالرز لے کر آتے تھے تو خواجہ آصف کابینہ میں کیوں یہ بات نہیں کرتے تھے کہ ہمیں امریکیوں سے ڈالرز نہیں لینے چاہئیں کیونکہ یہ گھاٹے کا سودا ہے؟
میں نے بیس سال کی پارلیمانی رپورٹنگ میں نوٹ کیا ہے کہ اپوزیشن پارٹیاں فوج کی پالیسیوں سے اختلافات کا اظہار صرف اپوزیشن میں ہونے کی صورت میں کرتی ہیں۔ اپوزیشن میں ہوتے ہوئے ان کی بھارت، افغانستان اور امریکہ تعلقات پر مختلف اپروچ ہوتی ہے۔ خواجہ آصف تو کھل کر فوجی پالیسیوں پر تنقید کرتے رہے اور انہیں سراہا بھی جاتا تھا۔ لیکن پتا نہیں ان سب کو وزیر بنتے ہی کیا ہو جاتا ہے کہ راتوں رات وہ راگ الاپنا شروع کر دیتے ہیں جو انہیں الاپنے کو کہا جاتا ہے۔ آپ خواجہ آصف کی قومی اسمبلی میں اپوزیشن کے دنوں کی تقریریں اٹھا کر دیکھ لیں، موصوف وزیرخارجہ بن کر بالکل الٹ بیان داغ دے رہے ہیں۔ اب خواجہ آصف فرماتے ہیں کہ امریکہ سے دوستی گھاٹے کا سودا ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ سودا عوام کے لیے گھاٹے کا ہے یا اس گھاٹے میں کچھ حصہ حکمرانوں کا بھی ہے؟ خواجہ آصف کے اپنے بچے امریکہ پڑھتے رہے ہیں اور وہیں سیٹل ہیں۔ چوہدری نثار علی خان کے سب بچے امریکی شہری ہیں۔ رحمن ملک کے سب بچے برطانوی شہری ہیں۔ ڈاکٹر عاصم حسین خود کینیڈین شہری ہیں اور بچے بھی۔ہر دوسرے بیورو کریٹ اور افسر کے بچے کینیڈا، امریکہ اور یورپ کے شہری ہیں۔ 
اس وقت سوئس بینکوں میں پاکستان کے جو دو سو ارب ڈالرز موجود ہیں‘ وہ انہی لوگوں کے ہیں جو پاکستان کے مستقبل سے مایوس تھے۔ دبئی میں آٹھ ارب ڈالرز کی جائیداد بھی انہی پاکستانیوں نے خریدی جو اس ملک کے مستقبل پر یقین نہیں رکھتے۔ جب پاکستان کے مفادات کا تحفظ کرنے کا وقت آتا ہے تو یہ سب اپنے ذاتی مفادات کا خیال کرتے ہیں۔ کئی دفعہ بتا چکا ہوں کہ سینیٹ کی کمیٹی برائے خارجہ کے اجلاس میں سینیٹر صغریٰ امام نے سرتاج اور جلیل عباس جیلانی کا حشر کر دیا تھا کہ آپ لوگ اپنے ذاتی فائدوں کے لیے امریکیوں کو پاکستان کے نقصان پر فیور دیتے ہیں۔ پاکستان نے امریکہ کو افغانستان تک مفت راہداری دے رکھی ہے۔ جب سلالہ کی وجہ سے یہ راہداری بند کی گئی تھی تو سینٹرل ایشیا کے ایک ملک نے فی کنٹینر سترہ سو ڈالر چارج کیے۔ صغریٰ امام کے بقول‘ ہم امریکہ سے اربوں ڈالر راہداری کی مد میں لے سکتے تھے لیکن جنرل مشرف نے وہ مفت میں دی اور اس کے بدلے اپنے اقتدار کی طوالت کا سودا کیا۔ سب نے امریکہ کو ہی فوائد دیئے۔ جب صغریٰ امام نے پوچھا کہ آپ نے امریکہ کو کیوں مفت راہداری دی تو فارن آفس کے افسران‘ جن کے بچے امریکہ سیٹل ہیں، بولے: امریکہ ہمارا دوست ملک ہے۔ یوں اربوں ڈالرز ہم نے دوستی کے نام پر لٹا دیئے۔ خود امریکی کہتے ہیں کہ مفت میں کوئی لنچ نہیں ہوتا۔ پاکستانی پالیسی میکرز اس لنچ کے بدلے ذاتی فوائد لیتے ہیں۔عابدہ حسین اپنی کتاب میں لکھتی ہیں کہ انہیں بھی امریکہ میں پاکستان کا سفیر ہوتے ہوئے پیشکش کی گئی تھی کہ اگر وہ ایف سولہ طیاروں پر کمپنی کی شرائط پر ڈیل کر لیں تو واشنگٹن میں فلیٹ اور بچوں کی یونیورسٹی تعلیم کا خرچہ مل سکتا ہے۔ کتنے پاکستانی افسران نے ایسی پیشکش سے انکار کیا ہوگا؟
پاکستانی ہر سال امریکہ سے پاکستان کو چار ارب ڈالرز کا زرمبادلہ بھیجتے ہیں جو عرب ملکوں اور یورپ کے بعد سب سے زیادہ ہے۔ امریکہ پاکستانی ٹیکسٹائل کا بڑا خریدار ہے لیکن اپنے بچوں کو امریکہ سیٹل کرانے کے بعد ہمارے سول ملٹری حکمران فرماتے ہیں کہ امریکہ سے دوستی گھاٹے کا سودا ہے۔ ہمارے سیاستدانوں کے بچے غیر ملک میں کاروبار کرتے ہیں، وہیں رہتے ہیں۔ دنیا کے پانچ براعظموں میں ہمارے سابق وزیراعظم کی جائیداد ہے۔ ان کے بیٹے برطانوی شہری ہیں۔ وزیر خزانہ کے بچے دبئی کے شہزادے ہیں۔ خواجہ آصف بھول گئے ہیں کہ اٹک قلعہ میں قید نواز شریف کو پھانسی سے امریکی صدر بل کلنٹن نے ہی بچایا تھا۔ زرداری اور بینظیر بھٹو کو جنرل مشرف سے این آر او امریکی وزیرخارجہ کنڈو لیزا رائس نے ہی لے کر دیا تھا جبکہ جنرل مشرف کے پاکستان میں اقتدار کے ضامن بھی امریکہ کے نائب صدر ڈک چینی اور وزیر دفاع رمز فیلڈ ہی تھے۔
مجھ سے ہنسی نہیں رک رہی کہ ہم بھی کیسے منافق ہیں۔سویلین حکمران ہوں یا فوجی، امریکہ سے این آر او لینا ہو، حکمرانی کا تحفظ کرانا ہو، پھانسی سے بچنا ہو، بچوں کو امریکہ سیٹل کرانا ہو، سب فائدے لیتے ہیں اور امریکہ کو برا بھلا بھی کہتے ہیں۔ ڈرون حملوں کے لیے پاکستانی اڈے بھی دے رکھے تھے اور دن رات ٹی وی اینکرز سے ڈرون کیخلاف ٹاک شوز بھی کراتے تھے۔ یا منافقت تیرا آسرا۔
اپنے بچوں کو امریکہ میں اعلیٰ تعلیم اور سیٹل کرانے کے بعد اب قیادت کے اندر امریکہ سے ٹکرانے کا رومانس پیدا ہو رہا ہے۔ انہیں علم ہے کہ امریکہ دشمنی کی سزا پاکستانی عوام بھگتیں گے کیونکہ ان لوگوں کے اپنے بچے تو امریکہ رہتے ہیں۔ بم گرے تو مریں گے غریب کے بچے۔
پاکستانیو! خبردار، ہوشیار! آپ کو راز کی بات بتائی جا رہی ہے۔ پھر نہ کہنا خبر نہ ہوئی۔ امریکہ سے دوستی گھاٹے کا سودا ہے۔ ایک دفعہ پھر واہ۔ واہ بھئی واہ! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved