تحریر : علامہ ابتسام الہٰی ظہیر تاریخ اشاعت     31-12-2017

نعمتوں کی فراوانی

معاشرے میں رہتے ہوئے اس بات کو بھانپنا کچھ مشکل نہیں کہ لوگوں کی اکثریت اپنے حالات اور واقعات پر شاکی نظر آتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی بے شمار نعمتوں کو نظر انداز کرکے ہمہ وقت معمولی معمولی باتوں پر اللہ تبارک وتعالیٰ کی ناشکری کا مرتکب ہوتا ہے اور اپنے ہی نامۂ اعمال کی سیاہی کے سبب آنے والی پریشانیوں اور غموں کا بار بار اظہار کرکے‘ ان گراں قدر نعمتوں کو فراموش کر دیتا ہے جو اس کو بن مانگے حاصل ہوئی ہیں۔ انسان اگر اپنے گرد و پیش میں غور کرے تو اس بات کو سمجھنا کچھ مشکل نہیں کہ وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی بے شمار نعمتوں سے فیضیاب ہو رہا ہے۔ سمجھنے کے لیے چند اہم نعمتوں کو قارئین کے سامنے رکھ رہا ہوں:
1۔ ایمان: ایمان اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے ملنے والی انتہائی قیمتی نعمت ہے۔ مسلمانوں کے گھروں میں پیدا ہونے والے افراد نے اس کے حصول کے لیے کوئی تگ و دو نہیں کی۔ ایمان کی نعمت کی قدر ان لوگوں سے پوچھنی چاہیے جنہوں نے اس گراں قدر نعمت کے حصول کے لیے اپنے گھر بار، اعزا و اقارب، مال اور وطن تک کو خیر باد کہہ دیا۔ نبی کریمﷺ نے جب دین کی دعوت کا آغاز کیا تو صحابہ کرامؓ کو اس دعوت کو قبول کرنے کی پاداش میں بہت زیادہ صعوبتیں سہنا پڑیں۔ صحابہ کرامؓ نے اپنے ایمان کی حفاظت کے لیے مختلف طرح کی اذیتوں، تکالیف، مشکلات، ظلم اور بربریت کو برداشت کیا اور نوبت ہجرت، سوشل بائیکاٹ اور جنگ وجدل تک جا پہنچی۔ ایمان اس قدر قیمتی نعمت ہے کہ اس کی عدم موجودگی میں باقی تمام نعمتیں ہیچ ہو جاتی ہیں۔ چنانچہ فرعون کا اقتدار، قارون کا سرمایا، ہامان کا منصب، شداد کی جاگیر اور ابولہب کا کنبہ اس لیے بے معنی ٹھہرا کہ یہ تمام لوگ نعمتِ ایمان سے محروم تھے۔
2۔علم: علم اللہ تبارک وتعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ علم کے ذریعے انسان حق و باطل اور اندھیرے و اجالے کے درمیان فرق کرنے کے قابل ہوتا ہے۔ بہت سے لوگ صاحبِ علم ہونے کے باوجود مالی تنگ دستی کے سبب اس نعمت کی اہمیت کو فراموش کر دیتے ہیں اور حالات کا شکوہ اور گردشِ دوراں کا گلہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ وہ اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ ان کے پاس ایک ایسی نعمت موجود ہے جس کے ذریعے وہ دنیا میں اچھے اخلاق اور آخرت میں کامیابی و کامرانی کیساتھ ہمکنار ہو سکتے ہیں۔
3۔ صحت: صحت اللہ تبارک وتعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک انتہائی اہم نعمت ہے۔ دماغی، نفسیاتی، روحانی اور جسمانی بیماریوں سے محفوظ رہ کر زندگی کو گزارنا اللہ تبارک وتعالیٰ کی ایسی عطا ہے جس کا ادراک اور احساس عام حالات میں انسان نہیں کر پاتا۔ حقیقت حال یہ ہے کہ کسی معمولی سی بیماری کے طول پکڑ جانے کی صورت میں انسان باآسانی اس حقیقت کا ادراک کر سکتا ہے کہ وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ صحت اور عافیت کے ایام میں کس قدر ناشکری کا مرتکب ہو رہا تھا۔ دورِ حاضر میں بہت سے لوگ قلب، جگر، گردوں، پھیپھڑوں، سینے اور آنکھوں بہت سی تکلیف دہ بیماریوں میں مبتلا ہو چکے ہیں۔ ٹی بی اور کینسر کے موذی امراض کا شکار افراد بھی معاشرے میں گاہے گاہے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ان لوگوں کی حالتِ زار کو دیکھنے کے بعد جب انسان اللہ تبارک وتعالیٰ کی عطا کردہ صحت کی نعمت پر غور کرتا ہے تو اس کے لیے اس بات کو سمجھنا کچھ مشکل نہیں رہتا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس پر کتنا بڑا کرم کیا کہ اسے موذی امراض سے محفوظ فرمایا۔ عام طور پر لوگ صحت کی نعمت کی قدر کرنے کی بجائے اس نعمت کا غلط استعمال کرکے اللہ تبارک وتعالیٰ کے غضب کو دعوت دے بیٹھتے ہیں۔ اپنی طاقت اور صحت کے گھمنڈ میں بہت سے لوگ غریبوں کا استحصال، کمزوروں پر ظلم و تشدد اور مجبوروں کی حق تلفی کا ارتکاب کر بیٹھتے ہیں۔ نتیجتاً ان کو بہت سے لوگوں کی بددعاؤں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ عصرِ حاضر میں نفسیاتی امراض بھی بہت زیادہ بڑھ چکے ہیں اور لوگ کثیر تعداد میں ڈپریشن اور اعصابی تناؤ کا شکار نظر آتے ہیں۔ اس موذی مرض سے چھٹکارا حاصل کرنے اور سکون کی نیند سونے کے لیے بہت سے لوگ نیند آور اور مسکن ادویات کا استعمال بھی کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود اس اذیت سے اس لیے چھٹکارا حاصل نہیں کر پاتے۔ حقیقتاً نفسیاتی امراض کا علاج صدق دل سے توبہ تائب ہونے، رجوع الی اللہ اور ذکر الٰہی میں موجود ہے۔ وہ لوگ جن کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے نفسیاتی اور دماغی آسودگی عطا کی ہے انہیں بھی اس نعمتِ بے پایاں پر اللہ تبارک وتعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے اور اپنی دماغی اور عقلی صلاحیتوں کو انسانوں کو نقصان پہنچانے کی بجائے ان کی فلاح وبہبود کے لیے استعمال کرنا چاہیے تاکہ اللہ تبارک وتعالیٰ انسان کی اس نعمتِ بے پایاں کو واپس لینے کی بجائے اس میں اضافہ فرماتا چلا جائے۔
4۔ رزق: رزق اللہ تبارک وتعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے اور ہمارے معاشروں میں سطح غربت سے نیچے رہنے والے لوگ بھی بالعموم دو وقت کے کھانے کی نعمت سے محروم نہیں ہیں۔ اس کے مدمقابل دنیا کے بہت سے پسماندہ علاقوں میں قحط سالی اور بدحالی اپنے پورے عروج پر ہے۔ بالخصوص افریقہ کے بعض علاقوں میں لوگ پینے کے صاف پانی سے بھی محروم ہیں۔ اسی طرح جنگوں اور ظلم و بربریت کا شکار بہت سے علاقوں کے لوگ دو وقت کی روٹی کے لیے ترستے نظر آتے ہیں۔ برماکے مسلمانوں کی حالتِ زار پر جب غور کیا جائے تو ان کو رزق کی نعمت تو ایک طرف‘ بیت الخلا کی سہولت بھی میسر نہیں۔ ایسے حالات میں اللہ تبارک وتعالیٰ کے عطا کردہ رزق پر ناشکری کا رویہ اپنانا کسی بھی طور پر درست نہیں۔ محنت اور جدوجہد کے ذریعے رزق حلال کی تلاش کو جاری رکھنا بلاشبہ ایک احسن قدم ہے لیکن اللہ تبارک وتعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں کی ناشکری کا مرتکب ہونا کسی بھی طور پر درست و جائز نہیں ہے۔ انسان کو روحانی اور دینی معاملات میں اپنے سے بہتر اور مادی معاملات میں اپنے سے کمتر لوگوں کو دیکھ کر اپنی سوچ کے زاویے کو درست کرنا چاہیے۔
5۔ والدین: والدین کی موجودگی بھی اللہ تبارک وتعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ والدین انسان کو زندگی گزارنے کے بہتر طریقے کے بارے میں احسن انداز سے آگاہ کرتے ہیں۔ اسی طرح انسان کی زندگی میں آنے والے اتار چڑھاؤ کے دوران اس کے لیے ہمہ وقت دعاگو رہتے ہیں۔ بہت سے لوگ اس قیمتی سرمائے کو اپنی بداخلاقی اور لاپروائی کی وجہ سے ضائع کر بیٹھتے ہیں اور ان کے دنیا سے چلے جانے کے بعد انسان کو احساس ہوتا ہے کہ اس کی زندگی میں والدین کی عدم موجودگی کی وجہ سے کتنا بڑا خلا پیدا ہو چکا ہے۔
6 ۔ وفادار بیوی: وفادار بیوی بھی اللہ تبارک وتعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے جس کی رفاقت میں انسان زندگی کے طویل روز وشب کے دوران آنے والی پریشانیوں اور مشکلات کا خندہ پشانی سے مقابلہ کرنے کے قابل ہوتا ہے۔ بہت سے لوگ اس نعمتِ بے پایاں کا شکر بھی ادا نہیں کرتے۔ اس نعمت کی قدر ان لوگوں سے پوچھنی چاہیے جو لوگ اس نعمت کو پانے کے بعد اس سے محروم ہو چکے ہیں یا اپنی بدحالی کی وجہ سے اپنے گھر بار کو بسانے کی قدرت نہیں رکھتے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اللہ تبارک وتعالیٰ کی اس نعمت پر بھی ٹھنڈے دل سے غور کریں اور اس عظیم نعمت کا شکریہ ادا کریں۔
7۔ تابع فرمان اولاد: تابع فرمان اولاد بھی اللہ تبارک وتعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ اس تابع فرمان اولاد کی وجہ سے انسان معاشرتی اور معاشی انجام کی امور دہی میںبہت زیادہ آسانی محسوس کرتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میںدو مقدس باپ اور بیٹوں کا ذکر کیا۔ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہم السلام، دونوں اللہ تبارک وتعالیٰ کی توحید کے علمبردار اور اللہ تبارک وتعالیٰ کے برگزیدہ رسول تھے۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام ہمہ وقت نیکی کے کاموں میں اپنے والد حضرت ابراہیم علیہ السلام کے معاون رہے ۔ اس کے بالمقابل حضرت یعقوب علیہ السلام کو جب اپنے پیارے اور صالح بیٹے حضرت یوسف علیہ السلام کی جدائی کا صدمہ سہنا پڑا تو انہوں نے اس دکھ کو بڑی شدت کے ساتھ محسوس کیا۔ ان جلیل القدر ہستیوں کے واقعات سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ تابع فرمان اور صالح اولاد اللہ تبارک وتعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے اور اس نعمت کی قدر بھی انہی لوگوں کو معلوم ہوتی ہے جو اولاد کی نعمت سے محروم ہوتے ہیں یا ان کی اولادیں نافرمانی اور بغاوت کے راستے پر چل نکلتی ہیں۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے ہمارے گرد وپیش میں جو نعمتیں رکھی ہیں ان نعمتوں کا ادراک اور احساس کرکے ہمیں ہمہ وقت شکر گزاری کے راستے کو اختیار کرنا چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ ابراہیم کی آیت نمبر7 میں ارشاد فرماتے ہیں ''یقینا اگر تم شکر کرو گے (تو) بلاشبہ ضرور میں تمہیں زیادہ دوں گا اور بے شک اگر تم ناشکری کرو گے (تو) بلاشبہ میرا عذاب بہت ہی سخت ہے‘‘۔ ہمارے معاشرے میں بہت سے لوگ نعمتوں کی فروانی کے باوجود ذلت، مسکنت، پشیمانی اور پریشانی کی زندگی کی تصویر بنے نظر آتے ہیں درحقیقت اس کے پس منظر میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی ناشکری اور اس کی نعمتوں کی قدر نہ کرنیوالے رویوں کا کلیدی کردار ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ہمہ وقت اللہ تبارک وتعالیٰ کی شکر گزاری کریں اور اس کی نعمتوں کی ناشکری سے بچنے کے لیے کوشاں رہیں تاکہ اللہ تبارک وتعالیٰ ان نعمتوں میں اضافہ فرماتا رہے اور ہمیں اپنے عذاب اور پکڑ سے محفوظ رکھے۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved