تحریر : ڈاکٹر انوار احمد تاریخ اشاعت     12-03-2013

ووٹ مانگتے وقت

شہر نیا ہو یا پرانا،اس میں ایک سے زیادہ مقامات پر نمازِ فجر کے بعد سے کئی لوگ بیٹھنا شروع ہوتے ہیں،ان میں سے کئی گھروں سے ناشتے کے بغیر آتے ہیں۔چند ہی خوش نصیبوں کی پوٹلیوں میں رات کی روٹی اور ذرا سا بچا ہوا سالن کچھ آنسوئوں اور دعائوں میں گندھا بندھا ہواہوتا ہے۔اس ایک طبقے کے سوا، ہمارے شہر وںمیں شاید ہی کوئی رہ گیا ہو،جو ریزگاری کی اب بھی قدر کرتا ہو،وگرنہ اسلام آباد اور لاہور کے فقیر تو پانچ روپے کے سکے کو حقارت اور دینے والے کو ملامت سے اسی طرح دیکھتے ہیں، جیسے کچھ قوتیں پاکستان پیپلزپارٹی کو دیکھتی ہیں۔اب یہ بات دوسری ہے کہ اس پارٹی کی موجودہ لیڈر شپ کی مصنوعی ہنسی سچ مچ کے بے ساختہ قہقہے میں تبدیل ہو سکتی ہے،اگر انہیں کوئی بتائے کہ کبھی ان کی پارٹی کی رکنیت فیس ایک چونی ہوتی تھی۔تب میرے ساتھ میرے دو اور دوستوں نے بھی ایک ایک چونی ادا کی تھی،جن کے میَں نام نہیں لے سکتا کیونکہ ان میں سے ایک مسلم لیگ ن کے سیکرٹری جنرل کی قیادت میں لاہور کی ایک درس گاہ میں پڑھاتے ہیں،وہی اپنے سرتاج عزیز کی درس گاہ جنہوں نے ابھی اپنے قائد کو(ن) لیگ کا نیا منشور پیش کیا ہے اور شاید آپ جانتے ہیں کہ یہی سیکرٹری جنرل اس سرچ کمیٹی کے سربراہ ہیں،جو پنجاب کی یونیورسٹیوں کے لیے وائس چانسلروں کاویسا منصفانہ انتخاب کرتی ہے،جیسا نتیجہ وہ انتخابات میں چاہتے ہیں۔جب کوئی متوالا خادم اعلیٰ کی میرٹ پسندی اور قانون کی حکمرانی کے حوالے سے قصیدہ پڑھنے لگتا ہے تو مجھے اس سرچ کمیٹی کی مسلم لیگ ن کے لیے بجا لانے والی خدمات یاد آجاتی ہیں۔بہر طور ابھی تو پاکستان کے ہر چھوٹے بڑے قصبے کے متعدد مقامات پر ’دیہاڑی‘ کے انتظار میں بیٹھے ہجوم کا ذکر کرنا ہے، جن کے پاس دن بھر کی بھوک پیاس اور تھکن سے چُور ہو کر گھر تک واپس جانے کا آسرا وہ ریزگاری ہوتی ہے،جسے وہ اپنی میلی جیبوں میں ٹٹولتے رہتے ہیں اور جونہی ان کی انگلیاں اس ریزگاری کو چھوتی ہیں تو ان کے لبوں سے بے ساختہ شکر کے کلمات ادا ہوتے ہیں ۔ یہ لوگ بیٹھتے تو جھرمٹ کی صورت میں ہیں،مگر عاشقوں کی طرح دعا صرف اپنے لیے کرتے ہیں کہ اے اللہ،پورے ہفتے نہیں تو کم از کم آج کے دن کی مزدوری کا کوئی وسیلہ بنا۔ایسے کسی مہربان کو بھیج جو قصائی کی طرح ہماری پسلیاں ٹٹول کر نہ چھانٹے،ہمارے محنت کر سکنے والے ہاتھ دیکھے،جو کشکول تھامنے سے اب تک بچے ہوئے ہیں۔جیسے جیسے سورج اُبھرتا،چڑھتا اور ڈوبتا ہے،ان کی منتظر آنکھوں میں کئی دفعہ روشنی بڑھتی اور گھٹتی ہے اوراکثر ہزیمت کا داغ لے کر اگلے دن پھر یہیں بیٹھنے کی آس من میں بسائے اپنے گھروں میں ایک اوررات بِتانے چلے جاتے ہیں،جہاں ان کے بچوں کی مائوں نے دیگچی میں ابلنے کے لئے پتھر ڈال رکھے ہوتے ہیں: ’ان دکھی مائوں کے نام رات میں جن کے بچے بِلکتے ہیں اور نیند کی مار کھائے ہوئے بازوئوں میں سنبھلتے نہیں، دُکھ بتاتے نہیں، منّتوں زاریوں سے بہلتے نہیں‘۔ میَں اپنے بچپن سے اس ہجوم کو دیکھ رہا ہوں،مگر اس میں اور اس کی یاسیت میںخوفناک اضافہ ہوتا جا رہا ہے،اس میں عام مزدور سے لے کر راج مستری،رنگ ساز اورچوب تراش تک شامل ہیں۔ان میں سے بیشتر نے اپنے اوزار گینتی،پھائوڑے،برش ،ڈول،رندہ اور آری بھی سامنے رکھے ہوتے ہیں۔اگر انگریزی ضرب المثل سے ان کی اہلیت کو پرکھیں تو یہ وہ بے روزگار مزدور ہیں،جو اپنے آلات پہ ناز کرتے ہیں، ان سے لڑتے نہیں۔اس ہجوم میں ایک اعظم نام کا چترالی بھی شامل ہو گیا ہے،جس سے میَں معافی کا طلب گار ہوں۔اس زمانے میں میَں بپسی سدھوا کا ایک ناول پڑھ رہا تھا،جسے کشور ناہید نے ’زیتون‘ کے نام سے ترجمہ کیا ہے،اس لیے اعظم کی چترال سے نسبت نے مجھے مجبور کیا کہ اس کی صلاحیت جانچے بغیر اسے باورچی رکھ لوں،حالانکہ پہلے ہی دن مجھے لگا کہ پکانے میں سب سے مشکل،چپاتی میَں خود اس سے کم بری بنا سکتا ہوں،مگر وہ خوبانی کے باداموں کے کئی ہار اپنی ماں سے لے کر آیا تھا جن سے تین ہفتوں تک بھوک کا مقابلہ کر سکتا تھا۔دبئی میں اس کا بھائی اس کے لیے روزگار تلاش کر رہاتھا،اسی بھائی نے اسے ایک موبائل بھی لے کر دیا تھا،جب اس کی کال آتی تو وہ چیخ چیخ کے اس سے باتیں کرتا،پھر اونچی آواز میں اس سے لڑتا۔ ہمارے گھر کی بالائی منزل پر ایک نفیس خاتون رہتی تھیں،جن کا کہنا تھا کہ جب سے اعظم نے یہاں رہنا شروع کیا ہے،ان کے نفسیاتی معالج نے اپنا معاوضہ دوگنا کر دیا ہے۔ایک شام جب میری مخالفت کے باوجود ’’ عوامی حکومت‘‘ نے مقتدرہ قومی زبان کو براہِ راست نوکر شاہی کی تحویل میں دیا اور رضا ربانی یا اعتزاز احسن جیسے کسی ’مہذب‘ رکن پارلیمنٹ نے بھی میرے کسی احتجاجی خط کا جواب نہ دیا اور میَں دفتر سے پلٹا تو اشرافیہ سے تعلق رکھنے والی اس خاتون نے نصف شب کے بعد اعظم کی مشکوک حرکات کے بارے میں شکایات کا پشتارہ کھولا تو میَں نے اعظم کو گیٹ پر بلا کر اس مہینے کی تنخواہ اور چترال تک کا کرایہ دے کر گھر سے فوراًچلے جانے کو کہا۔اس نے ایک آدھ بار معصومیت سے پوچھا’صاب! آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے؟مگر میَں نے دل میں یہ ٹھان کے اس پر چیخنا شروع کیا کہ وہ کہے گا کہ مجھے معاف کر دیں، یا ایک موقع اور دے دیں تو میَں اپنی طے شدہ جارحیت پر قابو پا لوں گا،مگر وہ سچ مچ چلا گیا اور جاتے وقت وہ کپڑے بھی اپنے کمرے میں چھوڑ گیا،جو میں نے اسے عید کے لیے بنوا کے دیے تھے۔اس کے جانے کے بعد میں رات گئے تک اسے ڈھونڈتا رہا مگر وہ کہیں نہ تھا۔ سدھوا کاناول پڑھا تو معلوم ہوا کہ معافی کا لفظ چترالیوں کے ذخیرہ الفاظ اور ایک موقع اور لینا ان کی فطرت میں شامل نہیں۔اب ہمیں نہیں معلوم کہ جنرل مشرف چترال کے لوگوں سے ووٹ مانگتے وقت کیا ہنر آزمائیں گے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved