حسرت ہی رہی ہے کہ کبھی ہم بھی، بقولِ فیضؔ، فروغِ گلشن اور صوتِ ہزار کا موسم دیکھیں۔ امید محض امید کی منزل میں رہتی ہے یعنی بر نہیں آتی۔ گویا کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ معاشرہ بے حِسی اور بے دِلی سے عبارت ہے۔ منیرؔ نیازی نے اِسی کیفیت کو بیان کرنے لیے کہا تھا ؎
منیرؔ! اِس شہر پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے
کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ
کہیں، کسی گوشے میں زندگی کی رمق مشکل سے دکھائی دیتی ہے۔ زندگی سے محرومی پورے معاشرے پر محیط ہے۔ ہر شعبہ انحطاط پذیر ہے۔ فکر و نظر زوال آمادہ ہیں۔ عمل پسندی معدومیت کی طرف بڑھ رہی ہے۔ بصیرت تو بہت دور کی منزل ہے، لوگ بصارت ہی کا حق ادا نہیں کر پا رہے۔
بنیادی سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہے۔ اس سوال پر غور کرنے سے جواب خود بخود سُوجھنے لگے گا۔ جتنی بھی خرابیاں ہمیں دکھائی دے رہیں اور ہماری راہوں میں رکاوٹیں کھڑی کر رہی ہیں وہ ہماری اپنی خامیوں اور کوتاہیوں کا نتیجہ ہیں۔ عمل پسند رویّے سے گریز اگر نمایاں ہے تو اِس کے ذمہ دار ہم خود ہیں۔ کسی بھی معاملے میں سوچنے سے گریز کی روش پر ہم اپنی مرضی سے گامزن ہیں۔ اس معاملے میں کسی کا زور چلتا ہے نہ زبردستی۔ یہ سب کچھ اپنی مرضی کا سَودا ہے۔
کسی بھی معاشرے میں تحرّک اندر سے پیدا ہوتا ہے۔ تحرّک اور عمل پسندی کو نافذ نہیں کیا جا سکتا۔ اقبالؔ نے کہا ہے ع
اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں سے ہے
جو کچھ کرنا ہے ہمیں ہی کرنا ہے۔ کسی اور کو ہمارے مفاد کی فکر کیوں لاحق ہو؟ پاکستانی معاشرہ اس وقت شدید بے دِلی اور بے عملی کی کیفیت سے ''سرشار‘‘ ہے۔ لوگ عمل سے یوں بھاگ رہے ہیں جیسے یہ کوئی متعدّی مرض ہو! بہت پہلے خبردار کر دیا گیا تھا کہ ع
عمل سے زندگی بنتی ہے جنّت بھی، جہنّم بھی
مگر ہم نے فکر اور عمل دونوں کو ایک طرف ہٹا کر زندگی کو جنّت یا جہنّم میں تبدیل کرنے کے لیے اپنے ہی طریقے وضع کر لیے ہیں۔ اب اگر اس معاملے میں ہم دنیا سے انوکھے بھی ثابت ہوتے ہیں تو اِس میں کسی کے لیے بظاہر پریشانی کی کوئی بات نہیں۔ جہاں سوچنے کا عمل ترک کر دیا جاتا ہے‘ وہاں ایسا ہی ہوتا ہے۔
بے حِسی، بے دِلی، بے ذہنی اور بے عملی حد سے بڑھے تو معاشرے کی عمومی حدود سے نکل کر ریاستی مشینری کو بھی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ ریاستی مشینری کو بھی پُرزے معاشرے ہی سے تو ملتے ہیں۔ ریاست کو چلانے والے آسمان سے نہیں آتے، متعلقہ مِٹّی ہی سے جنم لیتے ہیں۔ جیسا معاشرہ ہو گا ویسی ہی ریاستی مشینری بھی ہو گی۔ یہ تو ممکن ہی نہیں کہ چند کانٹے کسی خاص ترتیب سے رکھے جائیں تو گلاب بن جائیں یا گلاب کی پتی کانٹا بن کر انگلی کو زخمی کر دے! جس روش پر پورا معاشرہ گامزن ہوتا ہے اُسی پر ریاستی مشینری بھی گامزن رہتی ہے۔ اور جب معاملہ ریاستی مشینری تک پہنچ جائے تو ریاست کے تانے بانے کو خطرات لاحق ہوتے ہیں۔ اس وقت ہم ایسی ہی کیفیت سے دوچار ہیں۔
آج کا پاکستان اگر ہر شعبے میں زوال آمادہ دکھائی دے رہا ہے تو اِس کا بنیادی سبب صرف یہ ہے کہ ہم نے زمانے کے تسلیم شدہ اصولوں کو خیر باد کہتے ہوئے اپنی مرضی اور میلان ہی کو اصول کا درجہ دے دیا ہے۔ دنیا جس ڈگر پر چلتی ہے اُسی ڈگر پر چلتے ہوئے خوش حالی، ترقی اور استحکام کی منزل تک پہنچا جا سکتا ہے۔ دنیا ایک سمندر ہے۔ اس سمندر میں جُڑ کر رہنے والے ہی ڈھنگ سے زندہ رہتے ہیں، جزیروں کی شکل میں زندگی بسر کرنے والوں کے لیے صرف پریشانیاں اور پشیمانیاں رہ جاتی ہیں۔ بہتر زندگی کے لیے باقی دنیا جو کچھ کر رہی ہے وہی کچھ ہمیں بھی کرنا ہے۔ یعنی سوچ بلند بھی رکھنی ہے اور عمل سے آراستہ بھی۔ قدم قدم پر اپنے وجود کو سنبھالنا ہے۔ عمل کی دنیا میں قدم قدم پر مسابقت ہے۔ ایک دوڑ سی لگی ہوئی ہے۔ اس دوڑ میں وہی جیت سکتا ہے جو اپنے حواس قابو میں رکھے، فکر کی گہرائیوں میں اترنے سے گریزاں نہ ہو اور عمل سے ترکِ تعلّق نہ کرے۔
کسی بھی معاشرے کے لیے اپنی عمومی روش سے دور ہونا اور پھر دور رہنا ایسا آسان نہیں ہوا کرتا جیسا دکھائی دیتا ہے۔ عادت اچھی ہو یا بُری، مشکل سے جان چھوڑتی ہے۔ محض سوچ لینے یا فیصلہ کر لینے سے کسی بھی بُری یا مُضر عادت کو ترک نہیں کیا جا سکتا۔ اِس کے لیے مجاہدے کی منزل سے گزرنا پڑتا ہے۔ جنہیں سوچنے سے شغف نہ ہو اُنہیں سوچنے پر مائل کرنا انتہائی دشوار ہوتا ہے۔ اور خود اُن کے لیے بھی سوچنے کی عادت کو پیدا کرکے پروان چڑھانا ایک دشوار گزار گھاٹی کے سفر کی مانند ہوتا ہے۔ بہرحال، یہ سب ناممکن نہیں ہوتا۔ جس نے طے کر لیا کہ سوچنے اور سوچے ہوئے پر عمل کر گزرنے کی منزل تک پہنچنا ہے وہ آخرِ کار منزل تک پہنچ کر ہی دم لیتا ہے۔ معاملہ ارادے کی پختگی اور ثابت قدم رہنے کی عادت پروان چڑھانے کا ہے۔
جب ہم کسی صورت حال میں پھنسے ہوئے ہوتے ہیں تو قدم قدم پر احساس ہوتا ہے کہ سب کچھ ختم ہو چکا ہے، اب حالات کے درست کرنے کی کوئی گنجائش نہیں رہی۔ گویا ؎
بند ہیں موت کی راہیں بھی اسیروں کے لیے
جانے اِس قید سے اب کیسے نکلنا ہو گا؟
حواس اور اعصاب پر دباؤ بہت بڑھ گیا ہو تو ایسا ہی ہوا کرتا ہے۔ کوئی بھی صورتِ حال کبھی اِتنی بُری نہیں ہوتی کہ اُسے تبدیل نہ کیا جا سکے۔ اپنے آپ کو تبدیلی کے لیے آمادہ کرنا شرط ہے، باقی سب تو زیبِ داستاں ہے۔ ؎
وہ کون سا عقدہ ہے جو وا ہو نہیں سکتا؟
ہمت کرے انسان تو کیا ہو نہیں سکتا!
حالات کتنے ہی خراب ہوں، بالآخر ختم ہوتے ہیں اور نئی صورتِ حال جنم لیتی ہے۔ دیکھا صرف یہ جاتا ہے کہ بُرے حالات کا سامنا کرنے کے حوالے سے ہم نے کیا کیا۔ اگر ہم نے ہتھیار ڈال دیئے ہوں تو نئی صورتِ حال میں ہمارے لیے کچھ خاص نہیں ہوتا۔ رات کے مقدر میں گزر جانا ہی لکھا ہوتا ہے۔ ؎
شب کی تقدیر میں لکھا ہے گزر ہی جانا
راہ سورج کی کہاں روک سکے اہلِ ستم
ہر صورتِ حال ہمیں بہت کچھ سکھانے پر کمر بستہ رہتی ہے۔ اب یہ تو ہم پر منحصر ہے ہم کیا اور کتنا سیکھتے ہیں۔ فکر و عمل سے محرومی کی راہ پر گامزن رہنے سے ہم اپنے مرکز سے دور ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اگر اپنے مرکز کے نزدیک آنا ہے تو بہتر زندگی بسر کرنے کا مصمّم ارادہ کرنا ہو گا اور یہ بھی کافی نہیں، اُس ارادے کو عملی جامہ بھی پہنانا ہو گا۔
ہر طرف خرابیاں ہوں تو قدم قدم پر احساس ہو گا ؎
دل ماہیٔ بے آب کی مانند ہے بے تاب
اِس درد بھری شب کی سَحر ہے کہ نہیں ہے؟
درد بھری شب کی سَحر یقینا ہے مگر اِس کے استقبال کی تیاری کرنا پڑتی ہے۔ جتنا گڑ ڈالیے گا اُتنا میٹھا ہو گا۔ بہتر زندگی بسر کرنے کے لیے فکر اور عمل دونوں کی سطح کو بلند کرنا ہو گا۔ ہر درد بھری شب کو سَحر کرنے کا یہی ایک کارگر فارمولا ہے۔