یہ دنیا ایک حیرت کدہ ہے۔ جیسے جیسے انسان دیکھتا جائے، سوچتا جائے، حیرت شدید سے شدید تر ہوتی چلی جاتی ہے۔ سائنسدان جب اس دنیا پر غور کرتے ہیں تو سب سے زیادہ جو چیز انہیں حیران کرتی ہے، وہ خود زندگی ہے۔ سٹیون ہاکنگ کہتا ہے کہ جب ہم اس زمین پر زندگی کو دیکھتے ہیں، تو ایسا لگتا ہے کہ کائنات کچھ بھی کر سکتی ہے۔ ایک سیارے پر زندگی کا پیدا ہونا اور اتنی کثرت سے اتنی مختلف شکلوں میں پیدا ہونا ایک بہت ہی حیران کن بات ہے۔ مغرب کے نامور سائنسدان عملاً خدا کو اور مذہب کو تسلیم نہیں کرتے۔ ان میں سے بہت سے مذہبی لوگوںکا مضحکہ اڑاتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ قرآن پاک کے سوا سب الہامی کتابیں بعد ازاں تبدیل کر دی گئیں۔ آج ان میں جگہ جگہ غلطیاں اور نقائص ہیں۔ دوسرا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ چرچ نے ایک طویل عرصے تک مغرب پر حکومت کی اور یہ حکومت بہت ظالمانہ تھی۔ گیلیلیو گیلیلی کی مثال سب کے سامنے ہے۔ اس بیچارے نے مشاہدہ کیا اور بتایا کہ سیارہ زحل کے گرد اس کے بہت سے چاند گردش کر رہے ہیں۔ اس زمانے میں مروّجہ نظریات یہ تھے، جنہیں چرچ نے تسلیم کر رکھا تھا کہ ہماری یہ زمین کائنات کا محور و مرکز ہے اور ہر چیز اسی کا طواف کر رہی ہے۔ گیلیلیو کو نظر بند کر دیا گیا اور باقی زندگی وہ نظر بند ہی رہا۔ یہ وہ حالات ہیں، جن میں مذہبی طبقات کا مذاق اڑانا، انہیں ridicule کرنا بہت آسان ہے۔
دنیا ایک حیرت کدہ کیونکر کہلا سکتی ہے؟ اس لیے کہ ہیرے جواہرات، سونے، لوہے، تیل اور جن قدرتی وسائل کے لیے یہاں ہماری زمین پر خون آشام جنگیں ہوتی ہیں، کائنات میں وہ ہر جگہ بکثرت پائے جاتے ہیں۔ زحل کا ایک چاند ایسا ہے، جہاں قدرتی تیل کے دریا بہہ رہے ہیں، استعمال کرنے والا کوئی نہیں۔ ملکیت کا دعویٰ کرنے والا کوئی نہیں۔ ہائیڈروجن، کاربن، آکسیجن، لوہا، یہ سب عناصر ہر کہیں بکثرت پائے جاتے ہیں۔ یہی وہ عناصر ہیں، جن کے آپس میں اشتراک سے کرّۂ ارض پہ زندگی پیدا ہوئی۔ یہی وہ عناصر ہیں، جو ہمارے جسموں کے اندر پائے جاتے ہیں۔
جب ہمارے جسم میں لوہا کم ہو جائے تو ڈاکٹر ہمیں آئرن supplement لکھ کر دیتے ہیں۔ اسی طرح اگر زنک کم ہو جائے تو پھر اسے بطور دوا استعمال کرنا ہوتا ہے۔ ہڈیوں میں کیلشیم پایا جاتا ہے۔ جسم میں سب سے زیادہ مقدار میں خون پایا جاتا ہے۔ یہ پانی کی وجہ سے سیال مائع کی صورت میں پایا جاتا ہے۔ پانی ہائیڈروجن اور آکسیجن سے مل کر بنا ہے۔ یہ سب وہی عناصر ہیں‘ جو کائنات میں پائے جاتے ہیں۔ ہائیڈروجن، نائٹروجن، کیلشیم، کاربن، فاسفورس اور آکسیجن، یہ چھ عناصر انسانی جسم کا 99.99 فیصد حصہ ہیں۔ یہ سب عناصر تو دنیا میں ہر کہیں وافر مقدار میں پائے جاتے ہیں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ یہ عناصر مل کر ایک زندہ مخلوق کا روپ دھار چکے ہیں۔ یہ زندہ مخلوقات سوچ رہی ہیں، ان میں نر اور مادہ پائے جاتے ہیں، وہ ایک دوسرے میں کشش محسوس کرتے، مباشرت کرتے اور بچّے پیدا کرتے ہیں۔ پھر بچوں کی محبت ان کے دل و دماغ پر کچھ اس طرح سے غلبہ پا لیتی ہے کہ وہ اپنی جان دے کر بھی اپنی اولاد کی حفاظت کرتے ہیں۔
ان عناصر کا اس قدر عمدہ توازن میں زندگی کی شکل اختیار کرنا اور پھر اپنی حفاظت، یہ بہت ہی حیران کن بات ہے۔ سائنسدان کائنات میں جب کھوج لگاتے ہیں تو سب سے زیادہ انہیں ایک زندہ خلیے ہی کی تلاش ہوتی ہے۔ اب تک یہ تلاش ناکام ہی رہی ہے۔ پھر سوچنے والوں کے لیے سب سے زیادہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ باقی سب مخلوقات تو صرف بنیادی ضرورتوں کے بارے ہی میں سوچ سکتی ہیں۔ جب کہ انسان کائنات کی ابتدا اور اس کے اختتام کے بارے میں تھیسز پیش کرنے لگا۔ یہ سب کیسے اور کیوں ہوا؟ یہ سب وہ باتیں ہیں، سوچنے والے دماغ جن پر ہمیشہ سے سوچتے آئے ہیں۔ ویسے انسانوں میں سے بھی کم ہی لوگ ان چیزوں پر غور کرتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ایک پردہ انسانی ذہن پر ڈال دیا گیا ہے۔ جیسے ہی وہ اٹھنے لگتا ہے، دماغ ان چیزوں کے بارے میں سوچنے لگتا ہے۔ یہی بات آیت الکرسی میں بھی کی گئی ہے کہ کوئی اس کے علم میں سے کسی چیز کا احاطہ نہیں کر سکتا؛ البتہ وہ جسے جتنا بتانا چاہے، بتا دیتا ہے۔ (مفہوم)۔
نظریۂ ارتقا کے بہت بڑے ناقد ترک دانشور ہارون یحییٰ کی ایک بات پر غور کریں تو ذہن چونک پڑتا ہے۔ وہ یہ کہتا ہے کہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ہم بہت تفصیل سے ایک خواب دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ کھاتے پیتے ہیں، سفر کرتے ہیں، کپڑے خریدتے ہیں، اچانک ہم اٹھ جاتے ہیں اور معلوم ہوتا ہے کہ وہ سب تو خواب تھا۔ کئی دفعہ جب انسان کوئی برا خواب دیکھ رہا ہوتا ہے تو ایک دم اٹھنے پر وہ سکون محسوس کرتا ہے۔ ہارون یحییٰ کہتا ہے کہ آپ کے پاس کیا ثبوت ہے کہ اس وقت ہم جو سب کچھ کر رہے ہیں، وہ خواب نہیں بلکہ حقیقت ہے۔ یہاں یہ کہتا چلوں کہ نظریۂ ارتقا کے خلاف ہارون یحییٰ نے ساری زندگی جو کام کیا، اس کی بنیاد غلط تھی۔ ہارون یحییٰ اور دوسرے بہت سارے مسلمان دانشوروں کا خیال یہ تھا کہ نظریۂ ارتقا ماننے کا یہ مطلب ہے کہ ہمیں خدا کا انکار کرنا پڑے گا۔ جب کہ آپ سورہ دہر کی پہلی آیت پڑھیں تو اس میں خود خدا یہ فرما رہا ہے کہ زمانے میں انسان پر کتنا طویل وقت گزرا، جب وہ کوئی قابلِ ذکر شے نہ تھا۔ سچی بات یہ ہے کہ خدا نے صرف انسان نہیں بلکہ یک خلوی جانداروں اور چیونٹی سے لے کر ہاتھی تک سب کو بنانا تھا۔ یہ سب جاندار اسی زمین پر پیدا کیے گئے۔
خیر، جب انسان یہ سنتا ہے کہ زحل کے چاند ٹائٹن پر قدرتی تیل کے دریا بہہ رہے ہیں تو وہ سوچنے لگتا ہے کہ کاش میں وہاں تک رسائی رکھتا۔ یہاں اس زمین پر ہماری ساری زندگی وسائل کی کمیابی کے خلاف جدوجہد میں گزر جاتی ہے۔ وہاں کھرب ہا کھرب ڈالر کے ذخائر بیکار پڑے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ہماری آزمائش کے لیے جان بوجھ کر یہ کمیابی رکھی گئی ہے۔ آپ ایک ایسے سیارے کے بارے میں سوچیں کہ جہاں سبھی امیر ہوں۔ کون کسی کے لیے مزدوری کرے گا۔ کون اینٹیں بنائے گا۔ آپ شوبز والوں کو دیکھیں۔ ان سب کے پاس وسائل وافر مقدار میں ہوتے ہیں۔ ان کی ساری تگ و دو پھر ایک دوسرے کو نیچا دکھانے، سرد جنگیں لڑنے میں صرف ہوتی ہے۔ پھر یہ کہ بہت سارے لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ جب تک آزمائش اور تنگی میں رہتے ہیں، وہ مثبت انداز میں سوچتے ہیں۔ جیسے ہی ان کے پاس وسائل کی فراوانی ہوتی ہے، وہ ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہو جاتے اور ایک دوسرے کو تباہ کر ڈالتے ہیں۔ اس کی وجہ خوں آشام جبلتیں ہیں۔ روزمرّہ زندگی سے نکل کر، کبھی کبھار انسان کو ان نکات پر بھی سوچنا چاہئے۔