تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     01-01-2018

زندہ چیز کی قیمت

میری یہ بات آپ کو عجیب لگے گی لیکن حقیقت یہی ہے کہ میری اور آپ کی احتیاج صرف ایک مٹھی کے برابر ہے۔ ایک مٹھی ، اگر مناسب جگہ سے وہ بھر لی جائے ۔ آپ نے یورینیم کے بارے میں سنا ہوگا۔ ہماری اس زمین میں بھی ایسے قیمتی ترین عناصر پائے جاتے ہیں ، جن کی ایک مٹھی کی قیمت اربوں روپے ہے۔ خیر یہاں تو ہر ایک کار آمد چیز ، حتیٰ کہ بکرے اور بھینس پر بھی انسانوں نے پہلے ہی قبضہ کر لیا ہے ۔ سونے اور ہیرے جواہرات کی کانیں تو بہت دور کی بات ہیں ۔قیمتی ذخائر پر تو بڑی ریاستیں ہتھیار اٹھائے ایک دوسرے کے سامنے کھڑی ہیں ۔ جنوبی چین کے سمندروں پر قبضے کی ایک جنگ لڑی جا رہی ہے ۔ قطب شمالی پر معدنیات سے مالا مال زمین پر مختلف ممالک اپنا حقِ ملکیت جتاتے ہیں ۔ تیل کے لیے جنگیں لڑی جاتی ہیں ؛حتیٰ کہ پانی کے لیے بھی۔روس آج تک پچھتا تا ہے کہ اس نے ہیروں کی کانوں والے الاسکا کو کس قدر کم قیمت پر امریکہ کو بیچ دیا ۔کبھی انسان یہ سوچتا ہے کہ چاند سے قیمتی دھاتیں اکھٹی کر کے زمین پر لائی جائیں ۔ مسئلہ ہے تو صرف فاصلے کا ۔ ہم ایک چھوٹے سے سیارے پہ رہائش پذیر ہیں۔بڑے راکٹ بنانے کے لیے لوہا اور دوسری دھاتیں ، انہیں اڑانے کے لیے ایندھن اور سب سے بڑھ کر قیمتی چیز ، اعلیٰ ترین انسانی مہارت ہے۔ ان لوازمات کی قیمت اربوں ڈالر ہے۔ یہ تو چاند کی بات ہے ،راکٹ پر جو صرف تین دن کی مسافت پر ہے ۔ جو کرّہ ء ارض کے گرد گردش کر رہا ہے ۔ دور دراز کے سیاروں پر اترنا ، وہاں سے قیمتی معدنیات اکھٹی کرنا اور پھر انہیں لے کر واپس زمین پر آنا ، یہ سب وہ چیزیں ہیں ، جو سائنسی فکشن فلموں میں تو ممکن ہو سکتی ہیں ، حقیقت کی دنیا میں نہیں ۔نظامِ شمسی کی حدود سے نکل کر کسی اور سورج تک جانا اور اس کے کسی سیارے پر اترنا ، یہ تو ایک ایسا خواب ہے ، جو فکشن فلمیں بھی ہمیں نہیں دکھا سکتیں۔ 
جیسا کہ پہلے عرض کیا، کرّہ ء ارض پر ایک ایک کار آمد چیز حتیٰ کہ ہر ایک بکرے پر بھی انسان نے قبضہ کر لیا ہے ۔ آدمی کبھی سخت گرمی کے دنوں میں بکرا منڈی جائے اور وہاں سخت ترین سودے بازی کرتے ہوئے دیہاتیوں کو دیکھیے تو چکر ا جاتا ہے ۔ زمین کے لیے تو باپ بیٹے کو اور بھائی بھائی کو قتل کر دیتے ہیں ۔زیادہ تر انسان یہ خواہش دل میں لیے ہی مر جاتے ہیں کہ اتنی بڑی زمین پر انہیں پانچ سات مرلے کا ایک پلاٹ نصیب ہو ۔ وہاں وہ مٹی اور پتھروں سے بننے والی اینٹ اور سیمنٹ سے اپنا گھر تعمیر کر سکے ۔ 
لوہا، سونا اور ہیرے جواہرات ، کائنات میں یہ بہتات میں ہیں ۔ رات کو کبھی آپ ٹمٹماتے ہوئے ستاروں پہ ایک نظر ڈالیے ۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ ستارے کیا ہیں ؟ ہائیڈروجن گیس کے جلتے ہوئے گولے۔ ان گولوں کے اندر یہ سب عناصر بن رہے ہوتے ہیں۔خصوصاً اس وقت ، جب یہ اپنی زندگی مکمل کرنے کے بعد دھماکے سے پھٹ جاتے ہیں ۔ اس عمل میں ان قیمتی عناصر کے ٹرلین ڈالر مالیت رکھنے والے ذخائر خلا (Space) میں بکھر جاتے ہیں ۔ یہ وہ موقع ہوتا ہے ، جب ہم انسانوں میں سے کوئی اگر ایک مٹھی بھی بھر سکے تو اس کی سات نسلیں نوابوں کی زندگی بسر کر سکتی ہیں ۔ انسان وہاں تک نہیں جا سکتا؛حتیٰ کہ ہمارے اپنے سورج کے اندر بھی یہ قیمتی عناصر بن رہے ہیں ۔ ہم اس تک بھی نہیں جا سکتے ۔ ہم صرف دیکھ دیکھ کر للچا سکتے ہیں ۔ہاں ، کبھی کبھار ان عناصر سے لبریز کوئی چٹان زمین پر آگرتی ہے تو اس کا ایک ایک ٹکڑا کروڑوں روپوں میں فروخت ہوتا ہے ۔ صرف نواب اور رئیس خلا سے آنے والے قیمتی پتھروں سے بنی گھڑیاں اور دوسری مصنوعات خریدسکتے ہیں ۔ ایسی ایک گھڑی کی قیمت تین کروڑ روپے ہو سکتی ہے ۔
ایک اورزاویے سے دیکھیے تو ہماری زمین پر ہی اس قدر دولت پائی جاتی ہے ، جتنی کہ ساری کائنات میں ملا کر بھی نہیں مل سکتی۔ یہ دولت ہے زندگی کی اور زندہ خلیات کی ۔ سائنسدان اربوں ڈالر کے منصوبے بناتے ہیں ۔ راکٹ خلا میں جاتے ہیں ، مریخ پر روبوٹ اتارے جاتے ہیں ۔ کس لیے ؟ صرف اور صرف ایک زندہ خلیے کی تلاش میں ۔ اگر ایک زندہ خلیے کی قیمت یہ ہے تو ایک مرکزی اعصابی نظام ، ایک سینٹرل نروس سسٹم (ریڑھ کی ہڈی جمع دماغ) کی کیا قیمت ہوگی ، جو sensesکی مدد سے ڈیٹا اکٹھا کرتا اور پھر اس پر اپنا ردّعمل دیتا ہے ۔ میں پورے دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر آج یہ بات سامنے آئے کہ سیارہ ء عطارد پر مرکزی اعصابی نظام والا ایک جاندار موجود ہے تو سو ارب ڈالر لگا کر بھی انسان اس تک پہنچے گا۔ اسے اٹھا کر راکٹ میں رکھے گا اور زمین پر لا کر اس کا جائزہ لے گا ۔ اس لیے کہ انسان میں بے تحاشا تجسس رکھا گیا ہے ۔ اسی تجسس کی قیمت یہ ہے کہ ہم اربوں ڈالر کے منصوبوں سے مختلف سیاروں پر اپنے روبوٹ اتار چکے ہیں ۔ اگر ایک جانور کے دماغ کی قیمت یہ ہے تو پھر انسانی دماغ کی قیمت کیا ہوگی ؟ فرض کریں کہ ہمیں یہ معلومات ملتی ہیں کہ سیارہ ء عطارد پر ایک ذہین جاندار موجود ہے ، جو کہ انسان کی طرح سوچ سکتاہے ۔ چین ، امریکہ اور یورپ اپنے وسائل یکجا کر کے اس ذہین مخلوق تک رسائی اور اسے بے دست و پا کر کے گرفتار کرنے کی کوشش کریں گے۔ اس سے پہلے کہ اپنے ہتھیاروں کے ساتھ وہ زمین پر دھاوا بول دے ۔ 
ایک زندہ چیز کی آپ کیا قیمت لگا سکتے ہیں ؟ اس بات کا جواب وہ شخص دے سکتاہے ، جس کے گردے خراب ہو چکے ہوں اور وہ بہت امیر ہو۔ وہ ایک گردے کے لیے دو تین کروڑ روپے ایسے دے گا، جیسے کہ کوئی بھکاری کو دو روپے دیتا ہے ۔ پھر بھی مستعار لیا گیا یہ گردہ ویسے ہرگز کام نہیں کرے گا، جیسا کہ اس کے اپنے گردے کرتے تھے ۔ اس کے جسم کا قدرتی مدافعاتی نظام باہر سے آنے والے عضو کو دشمن سمجھ کر اس کے خلاف لڑتا رہے گا ۔ مسلسل اسے ادویات لینا ہوں گی کہ اس کے جسم کا قدرتی مدافعاتی نظام کمزور ہو جائے اور اس گردے کو مسترد نہ کرے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا اس کا جسم بیماریوں کے خلاف لڑنے کی قوت بھی کھودے گا اور مسلسل وہ بیمار ہی رہے گا۔ اب اگر ایسے شخص سے کہا جائے کہ وہ پانچ ارب روپے میں ایسا گردہ لے سکتا ہے، جو اس کے اپنے گردے کی طرح کام کر ے گا تو ایک منٹ کے اندر وہ یہ سودا کر لے گا ۔ یہ قیمت ہے ایک عضو کی تو ایک پورے جاندار کی قیمت کیا ہو سکتی ہے ؟ یہ گردے ، یہ جگر اور دل ہر ایک بلی اور ہر ایک کتے کے اندر نصب ہیں اور مفت میں۔ میں آپ کو ایک عجیب بات بتائوں ۔ گلی میں پھرنے والے کتے بلیاں کیوں قیمت نہیں رکھتے ؟ اس لیے کہ وہ بہتات میں پائے جاتے ہیں ۔ فرض کریں کہ انسان کے سوا کوئی جاندار زمین پر نہ ہوتا ۔ صرف پودوں پر ہمارا گزارا ہوتا اور پوری دنیا میں صرف دس بلیاں پائی جاتیں تو کھرب پتی حضرات زندہ چیز پالنے کی خواہش میں اربوں روپے کی ایسی ایک بلّی خریدتے ۔اس لیے اگر کبھی آپ اربوں روپے مالیت کی چیز کو چھونا چاہیں تو ایک بلی سے کھیل لیجیے ۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved