تحریر : نسیم احمد باجوہ تاریخ اشاعت     02-01-2018

تصدق کی یاد میں لکھی گئی سطور

پورا نام تھا تصدق سہیل۔ جنوری 2000 میں برطانیہ میں 60 سالہ قیام کے بعد پاکستان جا کر رہنے لگا اور وہ بھی کراچی کے جنگل میں۔ وہاں نہ کوئی دوست نہ کوئی رشتہ دار۔ ماسوائے تصویریں بنانے کے وہاں کوئی مصروفیت نہ تھی۔ جون 1947 میں اُس نے اپنے والدین اور بہن بھائیوں کے ساتھ جالندھر (مشرقی پنجاب) سے پاکستان (مغربی پنجاب) اتنے برُے حالات میں ہجرت کی کہ اُس کا اور اُس کے اہل خانہ کا زندہ بچ کر لاہور پہنچ جانا ایک معجزہ سے کم نہ تھا۔ تقسیم ہند پر ہونے والے بدترین فسادات کی وحشت نے اُسے ذہنی طور پر اتنا متاثر کیا کہ وہ خود ذہنی مریض بن گیا۔ اُس کی تصویریں اسی وحشت کی عکاسی کرتی تھیں۔ پاکستان میںکسی نے اُس کے فن کی طرف ذرہ بھر توجہ نہ دی۔ جتنی شہرت صادقین کو ملی اُتنی گمنامی تصدق کے حصہ میں آئی مگر وہ اپنے حال میں مست رہا۔ میں نے پہلی بار اُس کا نام شہرہ آفاق پاکستانی دانشور اور اشتراکی راہنما طارق علی کے لکھے ہوئے مضمون میں پڑھا جو London Review of Books میں شائع ہوا۔ تصدق کا طارق علی کے ساتھ اتنا رابطہ رہا کہ وہ یہاں اس کی زندگی کے شب و روز سے واقف تھے اور جانتے تھے کہ وہ کتنی مشکلات کے باوجود تصویریں بنانے کا فن سیکھنے میں کامیاب رہا۔ اقبال نے ایک جگہ لکھا تھا:؎ 
میرے کام کچھ نہ آیا یہ کمال نے نواز ی
تصدق یہی بات اپنے بارے میں اتنی ہی صداقت سے کہہ سکتا تھا۔ تصویر بنانے کا ہنر اُس کے ہر گز کام نہ آیا۔ نہ دولت ملی نہ شہرت نہ عزت زخموں سے چور دل رنجیدگی میں ڈوبا رہا۔ یہ وہی کیفیت ہے جسے غائب نے کمال فصاحت و بلاغت سے بیان کیا تھا۔ع 
بے کسی ہائے تمنا کہ نہ دنیا ہے نہ دیں
طارق علی تصدق کو 1987 سے جانتے تھے۔ انہوںنے تصدق کے فقیرانہ انداز زندگی کے بہت سے پہلوئوں پر روشنی ڈالی ہے۔ وہ پڑھ کر دل اور اُداس ہو جاتا ہے۔ ہم سب اُن فنکاروں اور ادیبوں کو تو جانتے ہیں جنہیں شہرت ملی یا دولت یا دونوں۔ مگر بدقسمتی سے کئی بڑے بڑے فنکار اور اعلیٰ درجہ کے ادیب ناکامی یا گمنامی کا شکار ہوئے۔ لاہور کی گلیوں میں خانہ بدوشوں کی زندگی بسر کرنے والے اور فٹ پاتھوں پر ٹھوکریں کھانے والے ساغر صدیقی کی طرح۔ اُردو ادب کے ہر طالب علم نے اُن کی لکھی ہوئی اُس کمال کی غزل ضرور سنی یا پڑھی ہوگی جس کا ایک مصرع سب سے زیادہ مشہور ہوا۔ع 
جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں
طارق علی لکھتے ہیں کہ تصدق سہیل نے شہرہ آفاق سویڈیش تمثیل نگارIBSEN کے لکھے ہوئے تمام ڈرامے پڑھے تھے بلکہ اُنہیں سٹیج ہوتے ہوئے بھی دیکھا تھا۔ ایک بار نہیں بلکہ کئی بار ۔تصدق کو اس ڈرامہ نویس کا لکھا ہوا جو ڈرامہ سب سے زیادہ پسند تھا اُس کا نام ہے Ghosts ۔ اس ڈرامہ کے ایک کردار کا نام ہے آسولڈ ( Osward) ۔وہ بھی تصدق کی طرح تصویریں بناتا رہتا ہے۔ شدید جسمانی معذوری کے باوجود ایک دن یہ کردار فیصلہ کرتا ہے کہ اب اُس کے لئے مزید زندہ رہنا اتنا مشکل ہوگیا کہ اُسے خودکشی کر لینی چاہئے۔ مسئلہ یہ تھا کہ وہ یہ کام اکیلے نہ کر سکتا تھا۔ مجبوراً اُس نے اپنی ماں سے مدد مانگی۔ ماں اور بیٹے کے درمیان کیا گفتگو ہوئی وہ آپ بھی پڑھیے گا۔ 
آسولڈ : ماں آپ کو میری مدد کرنا ہوگی۔
والدہ( Mrs. Alving): میں؟ میں تو تمہاری ماں ہوں۔
آسولڈ: آپ سے بہتر یہ کام اور کون کر سکتا ہے؟
والدہ: میں؟ تمہاری ماں؟ مرنے میںاپنے بچے کی مدد کروں؟
آسولڈ: ہاں۔ بالکل اس وجہ سے کہ آپ میری ماں ہیں۔
والدہ: میں؟ جس نے تمہیں زندگی دی
آسولڈ: میں نے آپ سے کبھی زندگی نہ مانگی تھی اور پھر آپ نے مجھے کس قسم کی زندگی دی؟ مجھے یہ ہر گز قبول نہیں۔ آپ اسے واپس لے لیں۔
طارق علی کے الفاظ میں تصدق کی سوچ یہ تھی کہ جن لوگوں نے قیام پاکستان کے پرُ آشوب درد میں اتنی بڑی بڑی قربانیاں دیں کہ آج اُن کا تصور کرنا بھی مشکل ہوگا۔ (تاریخ انسانیت کی سب سے بڑی ہجرت اور لاکھوں افراد کا قتل عام) اُنہوں نے جب قیام پاکستان کے بعد (بقول فیض) داغ داغ اُجالا اور شب گزیدہ سحر دیکھی ہوگی تو اُن کے دل پر کیا قیامت گزری ہوگی؟ وہ IBSEN کے ڈرامہ کے معذور اور زندگی سے بیزار کردارOswald کی طرح اپنے خالق سے یہی دُعا مانگتے ہوں گے کہ کاش اُنہیں آسمان اٹھالے یا زمین نگل لے تاکہ وہ مزید عذاب بھگتنے سے بچ جائیں۔ مگر آسمان دُور تھا اور زمین سخت تھی اس لئے Oswald کی والدہ نے خود کشی کے ارادہ میں اُس کا ہاتھ نہ بٹایا اور نئے وطن نے لاکھوں مہاجرین کے زخموں پر اخوتِ عوام کی مرہم لگائی۔ تصدق نے اپنی تصویروں کی ذریعہ مہاجرین کے اس المیہ کو بیان کیا ہے جو نئے وطن میں چاہے جتنے بھی دُکھی ہوں وہ اپنے پرانے گھروں کو واپس نہیں جا سکتے تھے۔ میں اپنے قارئین کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ ایک لمحہ کے لئے غور فرمائیں کہ تصدق سہیل کی طرح اُن لاکھوں افراد کے دل و دماغ پر کیا گزری ہوگی جنہوں نے اپنی زندگی میں دوبارہ ہجرت کی۔ پہلے ہندوستان سے پاکستان اور پھر پاکستان سے برطانیہ یا امریکہ یا مشرق وسطیٰ یا یورپ یا کینیڈا۔ کسی درخت کی ٹہنی سے پتہ خشک ہوکر ٹوٹ جائے تو کچھ کہا نہیں جا سکتا کہ موسم خزاں کی سرد اور تیز ہوا اُسے اڑا کر کس جگہ لے جائے گی؟ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ طارق علی (پاکستان ٹائمز کے پہلے ایڈیٹر سردار مظہر علی خان کے بیٹے) جیسا دانشور اور تاریخ کا ذہین طالب علم (جو کئی اچھی کتابوں کا مصنف ہے) تصدق سہیل کا تعزیت نامہ لکھے اور اس خار دار اور بے حد متنازعہ موضوع پر اپنی رائے ظاہر نہ کرے؟
طارق علی کی رائے میں برطانوی راج اور کانگریس کے تعلقات میں زیادہ بگاڑ اُس وجہ سے ہوا کہ دُوسری جنگ عظیم چھڑ جانے پر کانگرس نے برطانوی راج کی جنگی مدد کرنے کی بجائے تمام صوبائی وزارتوں سے استعفیٰ دے دیا۔ جنگ عظیم کے سارے سالوں میں کانگرس کی قیادت جیلوں میں قید رہی۔ (مولانا ابوالکلام آزاد نے گوالیار کے قلعہ میں قید کے دوران غبار خاطر لکھی۔) جنگ ختم ہوئی تو کانگریس مسلم لیگ کے ساتھ کوئی بھی قابل قبول سمجھوتہ کرنے سے مسلسل انکار کرتی رہی۔ مہاتما گاندھی کا رویہ مصالحانہ تھا مگر اُس پر پنڈت جواہر لال نہرو کا ضدی پن، ہٹ دھرمی اور سیاسی قوت کا گھمنڈ غالب آیا۔ طارق علی وثوق سے لکھتے ہیں کہ جب گاندھی نے قائداعظم محمد علی جناح کو وزیراعظم بنا کر ہندوستان کی وحدت کو قائم رکھنے کے لئے قومی حکومت بنانے کی تجویز پیش کی تو اُسے نہرو اور کانگریس کے دائیں بازو کی قیادت نے ویٹو (Veto )یعنی نامنظور کروا دیا۔ 1946 ء تک قائداعظم ہر ممکن کوشش کرتے رہے کہ کانگریس کے ساتھ معاملات خوش اسلوبی سے طے ہو جائیں جس سے ہندوستان بطور ایک اکائی قائم رہے۔ بنیادی شرط یہ تھی کہ ہندوستانی مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کا سکہ بند تحفظ ہو جائے۔ یہی وجہ ہے کہ قائداعظم ایک وفاقی نظام حکومت کو بہترین حل سمجھتے تھے۔ جس کا مطلب ہے کمزور مرکز اور مضبوط خودمختار ریاستیں یا صوبے۔ کانگریس نے مسلم لیگ کی عوامی حمایت کے بارے میں بالکل غلط اندازہ لگایا۔ ماسوائے مولانا شبیر احمد عثمانی اور پیر صاحب مانکی شریف کوئی بھی قابل ذکر مسلمان مذہبی راہنما قائداعظم کا ساتھی نہ بنا۔ کانگریس کو مسلمانوں کی مذہبی قیادت کی مسلم لیگ دُشمنی کی قوت پر اتنا بھروسہ تھا کہ وہ مسلم لیگ کے ساتھ سمجھوتہ کرنے پر تیار نہ ہوئی۔ بہار کے فسادات میں تیس ہزار مسلمان مارے گئے تو کانگریس نے اسے نوا کھلی (بنگال) میں پچاس ہندوئوں کے قتل کے برابر قرار دیا۔ طارق علی نے تقسیم ہند کی زیادہ ذمہ داری کانگریس کے دائیں بازو کی فرقہ واریت (راشٹریہ سیوک سنگھ اُس کا ہر اول دستہ تھی۔ ) پر عائد کی ۔ کالم نگار طارق علی سے پوری طرح اتفاق کرتا ہے۔ میں اس موضوع پر سات جلدوں میں ایک تحقیقی اور دستاویزی کتاب مرتب کر رہا ہوں۔ ایک جلد لندن میں چھپ چکی ہے۔ ہر سال ایک جلد شائع کرنے کا ارادہ ہے۔ مقصد یہ ہے کہ اپنی تاریخ کا مطالعہ تنگ نظری اور تعصب سے نہیں بلکہ دیانتداری اور غیر جانبداری سے کیا جائے۔

 

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved