تحریر : جاوید حفیظ تاریخ اشاعت     02-01-2018

’’دو ٹوک باتیں‘‘

کچھ عرصہ پہلے سی ایس ایس کے امیدواروں سے سوال کیا گیا کہ اہم شخصیات میں سے ان کا رول ماڈل کون ہے۔ جواب میں سب سے زیادہ تین اشخاص کے نام لئے گئے اور وہ تھے عبدالستار ایدھی مرحوم، جنرل راحیل شریف اور آئی جی پولیس ذوالفقار چیمہ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ شاید ہی کسی امیدوار نے آصف زرداری یا نواز شریف کا نام لکھا ہو حتیٰ کہ عمران خان بھی مذکورہ بالا تینوں شخصیات سے پیچھے رہے۔
پچھلے دنوں اسلام آباد میں ذوالفقار چیمہ کی دوسری کتاب ''دو ٹوک‘‘ کی تعارفی تقریب برپا ہوئی اور چیمہ صاحب نے مجھے بھی اظہار خیال کی دعوت دی۔ صدارت وزیر تعلیم انجینئر بلیغ الرحمن نے کی۔ سینیٹر راجہ ظفر الحق مہمان خصوصی تھے۔ میں ذوالفقار چیمہ اور ان کی فیملی کو عرصے سے جانتا ہوں۔ تینوں بھائی لائق فرض شناس اور ایماندار ہیں۔ راجہ ظفرالحق صاحب نے کہا کہ ذوالفقار چیمہ کو ملک کا وزیر داخلہ ہونا چاہئے تھا تاکہ پاکستان ان کی غیر معمولی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھا سکتا۔ میں نے کہا کہ وہ نیب کے چیئرمین بنا دئیے جاتے تو ہماری کرپشن سے خاصی حد تک جان چھوٹ جاتی۔ کئی مشکلات سے نجات مل جاتی مگر ساتھ ہی اس بات کا بھی اضافہ کیاکہ ان کی اس عہدے پر تعیناتی نہ تو نواز شریف کو سوٹ کرتی تھی اور نہ ہی آصف زرداری کو۔
''دو ٹوک‘‘ ذوالفقار چیمہ کے اخباری کالموں کا مجموعہ ہے۔ عین اسی طرح جیسے پہلی کتاب ''دو ٹوک باتیں‘‘ تھی۔ جیسا کہ ٹائٹل سے ظاہر ہے موصوف زہر ہلاہل کو کبھی قند نہیں کہتے لیکن خوبی یہ بھی ہے کہ ان کی تلخ نوائی قاری پر گراں نہیں گزرتی‘ وہ ہلکے پھلکے انداز میں سنجیدہ باتیں بڑی خوبصورتی سے کرتے ہیں۔ا سلام اور پاکستان دونوں سے انہیں بے پناہ محبت ہے اور اسی حوالے سے قائداعظمؒ اور علامہ اقبالؒ کے گرویدہ ہیں۔ جمہوریت پسند ہیں اور ڈکٹیٹرشپ سے متنفر۔ بطور پولیس آفیسر علاقے کے شرفاء سے قریبی رابطہ ان کا وتیرہ رہا۔ جہاں ان کی پوسٹنگ ہوتی تھی اشتہاری وہاں سے فرار ہو جاتے تھے۔ گوجرانوالہ اور شیخوپورہ جیسے ریجن کو موصوف نے بڑی حد تک جرائم سے نجات دلائی۔ اگر ایسا ایماندار اور بہادر افسر وہاں پوسٹ نہ کیا جاتا تو گوجرانوالہ کے کئی صنعتکار آج بنگلہ دیش یا ملائشیا میں بیٹھے ہوتے کہ اغوا برائے تاوان اور بھتہ خوروں سے تنگ آ چکے تھے۔
کتاب کا انتساب اسامہ احمد وڑائچ شہید کے نام ہے جو چیمہ صاحب کے بھانجے تھے اور دسمبر 2016ء میں فضائی حادثہ کی وجہ سے خالق حقیقی سے جا ملے تھے۔ حادثے کے وقت وہ ڈپٹی کمشنر چترال تھے۔ کئی اور ینگ افسروں کی طرح اسامہ بھی ذوالفقار چیمہ کے نقش قدم پر چل کر مثالی سول سرونٹ بننا چاہتے تھے۔ البتہ یہ بات مجھے کتاب پڑھنے کے بعد پتہ چلی کہ عمران خان بھی اس پولیس افسر سے متاثر ہوئے تھے۔ کافی عرصہ پہلے جب وہ سیاست کے ابتدائی مراحل میں تھے تو ان کا جانا رحیم یار خان ہوا جہاں ذوالفقار چیمہ ایس پی تھے۔ عمران خان نے وہاں کے لوگوں سے موصوف کی کارکردگی کے قصے سنے تو انہیں یقین ہو گیا کہ ا گر ایک ایس پی ضلع کی صورت حال بدل سکتا ہے تو میں بھی ملک میں تبدیلی لا سکتا ہوں۔
یہ بات میں یقین سے کہہ رہا ہوں کہ پولیس میں ذوالفقار چیمہ کے علاوہ بھی ایماندار افسر تھے اور آج بھی ہیں۔ 1983ء میں جب وہ پولیس سروس کے لئے سلیکٹ ہوئے تو گائوں کے لوگ ان کے والد چوہدری محمد اسلم مرحوم کو مبارک دینے گئے۔ نیک صفت والد کے الفاظ تھے ''محکمہ تو بدنام ہے اللہ تعالیٰ اسے سیدھی راہ پر رکھے‘‘ نیک والد کی دعا باب قبول تک پہنچی۔ ذوالفقار چیمہ خالی خولی ایماندار افسر ہی نہ تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں فیض صاحب کی زبان میں دست قاتل کو جھٹک دینے کی توفیق بھی دی ہے۔ راولپنڈی میں پوسٹنگ ہوتی ہے تو جوئے کے اڈے ویران ہو جاتے ہیں۔ یہ بات ایک معروف سیاستدان پر بہت گراں گزرتی ہے اور وہ وزیراعلیٰ شہباز شریف کو کہہ کے انہیں پوسٹ آئوٹ کرا دیتے ہیں مگر اس افسر کو نہ تبادلوں کا خوف تھا اور نہ نوکری کے ضیاع کا۔ اولڈ راوینز کے گورنمنٹ کالج لاہور میں سالانہ اجتماع میں وہ صدر مشرف کے ریفرنڈم کا علی الاعلان مذاق اڑاتا ہے کہ ٹھپے لگاتے لگاتے ڈپٹی کمشنر اور ایس پی صاحبان اس قدر تھک گئے کہ بازوئوں کی مالش کرانا پڑی۔ شوکاز نوٹس ملتا ہے۔ ایک سینئر افسر کہتا ہے کہ تقریر کے متن سے انکار کر دو مگر ذوالفقار چیمہ جھوٹ بولنے پر قطعاً آمادہ نہیں‘ نوکری جاتی ہے تو جائے۔ اللہ کا کرنا ایساہوتا ہے کہ ریفرنڈم بہت متنازع ہو جاتا ہے اور حکومت خودہی شوکاز نوٹس واپس لے لیتی ہے۔ 
آپ کو یاد ہوگا کہ آج سے کوئی دو عشرے پہلے ایک مقبول ٹی وی سیریل اندھیرا اجالا چلا تھا۔ یہ سیریل پولیس کے بارے میں تھا۔ کچھ نیک اور فرض شناس پولیس افسر روشنی یعنی اجالے کی علامت تھے جبکہ روایتی تھانیدار اور حوالدار تاریکی اور شر کی علامت تھے۔ یہ لوگ رشوت لے کر تفتیش کا حلیہ بگاڑنے میں ماہر تھے۔ ''دو ٹوک‘‘ میں ایک کالم ایک ایسے ہی ایس ایچ او سے متعلق ہے جس کا نام اے ڈی چوہدری ہے۔ وہ رشوت لینے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتا۔
ذوالفقار چیمہ کے پچپن کے دوست اور کلاس فیلو جاوید خواجہ گوجرانوالہ کے صنعتکار ہیں۔ ان کی فیکٹری میں ڈاکہ پڑتا ہے اور وہ مدد کے لئے چیمہ صاحب سے رجوع کرتے ہیں جو متعلقہ ایس پی کو کیس ٹریس کرنے کا حکم دیتے ہیں۔ بڑی بڑی مونچھوں والا تھانیدار اے ڈی چوہدری تفتیش پر مامور ہوتا ہے۔ اس تھانیدار کا دعویٰ ہے کہ وہ مقتول کا سر دیکھ کر قاتل کو پکڑ سکتا ہے۔ اے ڈی چوہدری فیکٹری کے دیگر پارٹنرز کے نام معلوم کر کے انہیں خوب تنگ کرتا ہے۔ ہر کوئی رشوت دے کر تھانیدار سے جان چھڑاتا ہے۔ پھر وہ تفتیش کا دائرہ گوجرانوالہ کے دیگر صنعت کاروں کی طرف پھیلاتا ہے اور اپنے میٹرک فیل بھتیجے بھانجے فیکٹریوں میں ملازم کراتا ہے۔ تفتیش کے بہانے خواجہ صاحب سے کار لے کر ڈرائیور کو پورے پنجاب بلکہ کے پی تک جانے کا حکم دیتا ہے کہ ڈاکو پکڑنے ہیں۔ ڈاکو تو نہیں پکڑے جاتے البتہ اے ڈی چوہدری اپنے تمام رشتہ داروں سے ملاقاتیں کر آتا ہے۔ وہ خواجہ صاحب سے نوزائیدہ کٹے والی بھینس بھی مفت میں لے لیتا ہے۔ خواجہ صاحب کی دو کاریں بھاگ دوڑ میں کھٹارا ہو جاتی ہیں مگر ڈاکو نہیں پکڑے جاتے۔ چند مہینے بعد خواجہ اپنے بچپن کے کلاس فیلو ڈی آئی جی گوجرانوالہ کو کہتے ہیں کہ اتنا میرا ڈاکے میں نقصان نہیں ہوا تھا جتنا تفتیش میں ہوا ہے۔ چیمہ صاحب کیس سی آئی اے کے سپرد کر دیتے ہیں جبکہ ذوالفقار چیمہ پولیس میں روشنی کا مینار اور امید کی کرن تھے‘ عین اس وقت تھانیدار اے ڈی چوہدری تاریکی کا پہاڑ تھا‘ خودغرضی اور لالچ کی علامت۔
ہال سامعین سے بھرا ہوا تھا۔ کئی سینئر ریٹائرڈ اور حاضر سروس پولیس افسران موجود تھے۔ اس سے ذوالفقار چیمہ کی ہر دل عزیزی عیاں تھی۔ موقع مناسب جان کر میں نے اپنے گھر پر 2010ء میں پڑنے والا ڈاکے کا ذکر پھر سے کیا۔ ملزم ٹریس ہو گئے۔ سرغنہ اٹھمقام میں آرام سے رہ رہاہے۔ ایک ملزم گرفتار ہوا۔ اسکی شناخت بھی ہو گئی اور پھر اسے ایک لوئر کورٹ سے ضمانت مل گئی مجھے تو اسلام آباد پولیس میں کوئی ذوالفقار چیمہ نظر نہیں آیا البتہ اے ڈی چوہدری بہت ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved