بلوچستان کا ایک بدنام زمانہ دہشت گرد اپنی بیگم اور دو بچوں کے ہمراہ امارات ایئر لائنز کی فلائٹ نمبر EK086 سے جیسے ہی زیوریخ کے ہوائی اڈے پر اترا تو سوئس فیڈرل پولیس کے اہلکاروں نے اسے اور اس کی فیملی کو اپنی حراست میں لے کر امیگریشن پولیس کے حوالے کر دیا۔ پھر ان لوگوں کو ایئر پورٹ پر ہی ایک تفتیشی سیل لے جایا گیا جہاں تین گھنٹے تک مسلسل ان سے تفتیش کی جاتی رہی۔ اس دہشت گرد نے جب اپنا قصور پوچھا تو ا سے بلوچستان میں کی جانے والی دہشت گردانہ کارروائیوں کو فخریہ انداز میں قبول کرنے، تربت میں 20 مزدوروں کے بہیمانہ قتل کی مکمل ذمہ داری لینے کے اعلانات کو بطور ثبوت دکھایا گیا اور بعد ازاں اسے سوئس حکومت کی جانب تحریری طور پر حکم نامہ تھماتے ہوئے اسی دن، دبئی ڈی پورٹ کر دیا گیا۔ ساتھ ہی ساتھ اس دہشت گرد اور اس کی فیملی کو بتا دیا گیا کہ اگلے دس سال کے لئے آپ لوگوں کو سوئٹزر لینڈ کے لئے سکیورٹی رسک، سوئس عوام کے امن و امان کے لئے خطرہ اور مفاد عامہ کے پیش نظر عوام کی صحت کے لئے مضر سمجھتے ہوئے سوئٹزر لینڈ میں داخلے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اس کی گرفتاری اور ملک بدری کی سب سے بڑی وجہ سوئس حکومت کی وہ پریشانی بتائی جا رہی ہے جب اسے پبلک ٹرانسپورٹ پر آزاد بلوچستان کے نعرے اور بینرز لگانے پر‘ اپنے ہی عوام کی سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اس دہشت گرد کا نام مہران بلوچ تھا۔
مہران بلوچ کو جیسے ہی سوئس پولیس کی جانب سے یہ احکامات ملے تو اس نے امریکہ، بھارت‘ برطانیہ اور یو اے ای میں اپنے ساتھیوں اور سرپرستوں کے فون کی گھنٹیاں بجانا شروع کر دیں۔ اس نے ٹویٹ کرتے ہوئے سب لوگوں کو ان الفاظ میں اطلاع دی کہ ''دوستو! مجھے دو گھنٹوں سے زیوریخ ایئر پورٹ پر نظر بند کیا ہوا ہے اور لگتا ہے کہ سوئس حکومت پاکستان کی عسکری قیادت یا سی پیک اور گوادر پر کام کرنے والی حکومتِ چین کی درخواست پر مجھے باقاعدہ گرفتار کرنے والی ہے کیونکہ میرے ساتھ انہوں نے میری بیوی اور بچوں کو بھی بند کیا ہوا ہے۔ یہ مجھے ایک خلافِ معمول بات لگتی ہے اور اسی سے مجھے خدشہ ہے کہ مجھے گرفتار کر لیا گیا ہے۔ قبل اس کے کہ یہ مجھے پاکستان یا چین کے حوالے کر دیں، ہمارے دوستوں کو فوری مداخلت کے لئے پکارا جائے‘‘۔ جیسے جیسے مہران مری کا یہ ٹویٹ اس کے ''دوستوں‘‘ تک پہنچتا گیا، سفارتی سرگرمیاں تیز ہوتی گئیں۔ فوری طور پر اس کے وکیل اور دوست زیوریخ ایئر پورٹ پہنچنا شروع ہو گئے اور پھر فیصلہ کیا گیا کہ مہران بلوچ کی جانب سے سوئس پولیس کے ان احکامات کو باقاعدہ چیلنج کیا جائے گا‘ لیکن سوئس حکام نے مہران مری کی نظر ثانی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے اس کے وکلا کو بتا دیا کہ مہران بلوچ اور اس کی پوری فیملی کو Violation of Article 5 of Schengen Border Code کے تحت سوئٹزر لینڈ میں داخل ہونے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا گیا ہے۔
سوئٹزر لینڈ فیڈرل پولیس (FEDPOL) کے مطابق یہ شخص ان کے لئے سکیورٹی رسک ہے اور عوام کے لئے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے اور اس شخص کی وجہ سے اس بات کا خدشہ ہے کہ بین الاقوامی تعلقات کے ناتے سے کسی ملک کے ساتھ سنگین قسم کی غلط فہمیاں پیدا ہو جائیں۔
میں نے روزنامہ دنیا میں شائع ہونے والے اپنے ایک آرٹیکل میں بتایا تھا کہ UNHRC کے جنیوا میں سالانہ اجلاس کے دوران‘ امریکہ کی اقوام متحدہ میں مستقل مندوب نکی ہیلے نے جنیوا کے ایک ہوٹل کے ایک ہال کمرے میں بلوچ لبریشن آرمی کے برہمداغ بگٹی اور مہران بلوچ کو، دنیا بھر کی ایکٹو شخصیات کے ہمراہ علیحدہ سے مدعو کیا ہوا تھا۔ یہ ہیومن رائٹس سے متعلق دنیا کی وہ معروف شخصیات تھیں جو جنیوا میں ہونے والی کانفرنس میں شرکت کے لئے اقوام متحدہ کی دعوت پر آئی ہوئی تھیں۔ ان کو ''بلوچ لیڈران‘‘ سے ملانے کا خاص اہتمام کیا گیا تھا اور اس کانفرنس کے شرکا سے ''بلوچستان میں ہیومن رائٹس کی زبوں حالی‘‘ کے عنوان سے خطاب کرتے ہوئے مہران مری نے کہا کہ آپ سب امریکی سینیٹرز اور کانگرس سے درخواست کریں کہ پاکستان کو ایف سولہ طیاروں کی فروخت بند کرتے ہوئے‘ انہیں اس کے پرزوں کی سپلائی کی فراہمی پر بھی پابندی لگا دی جائے کیونکہ ہمیں خدشہ ہے کہ یہ ایف سولہ طیارے بلوچ عوام کے خلاف استعمال کئے جائیں گے۔ اقوام متحدہ میں امریکہ کی مستقل مندوب نکی ہیلے نے اپنی تقریر میں کہا کہ وائٹ ہائوس اس سلسلے میں بلوچ عوام کے ساتھ ہے۔
نکی ہیلے کے بارے میں ممکن ہے کہ بہت کم لوگوں کو علم ہو کہ اس خاتون کا اصل نام ''نمرتا رندھاوا‘‘ ہے۔ یہ بھارت کے ایک سکھ خاندان سے تعلق رکھتی ہے۔ اقوام متحدہ میں امریکہ کی اس مستقل مندوب کی پاکستان کے بارے کی جانے والی کسی بھی گفتگو یا میڈیا بریفنگ کے دوران لہجے کی کاٹ کی اصل وجہ یہی ہے کہ وہ بھارت کی ناری ہے۔ بے شک اس نے نمرتا رندھاوا کو دفن کرتے ہوئے اپنے آپ کو 2001ء کے امریکی انتخابات کے لئے ووٹرز کی فہرست میں بطور نکی ہیلے رجسٹر کروا رکھا ہے لیکن بھارتی نام کو دفن کرنے کے بعد بھی نکی ہیلے اپنے اندر پرورش پانے والی پاکستان دشمن ناگن کو دفن نہیں کر سکی۔ 18 اکتوبر کو پریس کانفرنس کرتے ہوئے پاکستان بارے نکی ہیلے کی ذہنی خباثت سنتے ہوئے لگتا ہی نہیں تھا کہ یہ بھارت کی نہیں، امریکہ کی مندوب بول رہی ہے۔ اس پریس کانفرنس میں نکی ہیلے کہہ رہی تھی کہ بھارت امریکہ کی مدد کرتے ہوئے پاکستان کی سرگرمیوں پر مکمل نظر رکھ سکتا ہے۔ بھارت کی یہ مدد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی سائوتھ ایشیا اور افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف اختیار کی گئی نئی پالیسی کے لئے سب سے زیادہ ممد ہو سکتی ہے۔
خود کو ہیومن رائٹس کے سرخیل کے طار پر پیش کرنے والے مہران مری نے سینکڑوں کی تعداد میں بلوچستان کے معصوم شہریوں کو اپنی دہشت گرد فورس کے ذریعے ناحق قتل کرایا۔ اس نے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے درجنوں پولیس اور لیویز کے اہلکاروں کو قتل کیا اور پاکستان میں دہشت گردی کراتے ہوئے پاک افواج اور ایف سی کے درجنوں اہلکاروں اور افسروں کی جان لی۔ کیا ہمارے دوست اس سے بے خبر ہے؟ کیا پاکستان کو اپنا دوست قرار دینے والی ریاستوں کی وزارت داخلہ اور خارجہ امور کے ماہرین سمیت خفیہ پولیس مہران مری کی دبئی میں موجودگی سے لاعلم تھی؟ کیا امارات حکومت نہیں جانتی کہ مہران مری بین الاقوامی طور پر پہچانا گیا دہشت گرد ہے؟ تو پھر وہ کام جو زیوریخ کے ہوائی اڈے پر ان کی فیڈرل پولیس اور امیگریشن نے کر دکھایا کیا یہاں نہیں کیا جا سکتا تھا؟ اسے حکومت پاکستان کے حوالے نہیں کیا جا سکتا تھا؟ دنیا بھر میں کسی بھی جگہ پر کسی بھی مسلمان ریاست کی سالمیت کے خلاف اگر بین الاقوامی سازش کی کڑیاں سامنے آتی ہیں یا کوئی بھی کسی مسلم ریاست کے خلاف فوجی ایکشن کرنے کی کوشش کرتا ہے تو پاکستان اور اس کے عوام سب سے پہلے اس مسلم ملک کی مدد کو پہنچتے ہیں تو پھر کیا وجہ ہے کہ پاکستان کے حوالے سے اس بات کا خیال نہیں رکھا گیا؟