دو ہزار تیرہ کے الیکشن سے سات آٹھ ماہ پہلے صدر آصف علی زرداری سے پیپلز پارٹی پنجاب کے کئی اراکین اسمبلی نے کہا کہ آئندہ الیکشن سے پہلے کچھ ایسے ترقیاتی منصوبے شروع کیے جائیں جن کی بنیاد پر عوام سے ووٹ لیے جا سکیں۔ یہ بات سن کر صدر زرداری اپنی مخصوص ہنسی ہنسے اور کہا، '' عوام کے ووٹ کام سے مل سکتے تو ق لیگ والوں کو کبھی شکست نہ ہوتی۔ ووٹ سیاست سے ملتے ہیں اور وہ میں نے کر لی ہے۔ آپ لوگ دیکھنا عمران خان مسلم لیگ ن کو تباہ کر دے گا اور پیپلز پارٹی ایک بار پھر اگلی حکومت بنائے گی‘‘۔ آصف زرداری کی دی ہوئی یہ لائن لے کر پیپلز پارٹی کے وزراء مسلم لیگ ن پر پل پڑے اور انہیں طعنے دینے لگے کہ عمران خان سے بچیں، ہماری فکر نہ کریں۔ اسی بک بک جھک جھک میں سات آٹھ ماہ گزر گئے اور الیکشن کی تاریخ کا اعلان ہو گیا۔ اگرچہ دہشت گردی کے خطرے کی وجہ سے پیپلز پارٹی کھل کر الیکشن مہم نہیں چلا پائی مگر ترقیاتی منصوبے نہ ہونے کی وجہ سے اس کا تاثر حکومت کے لیے نااہل جماعت کا بن گیا۔ جب الیکشن ہوا اور ووٹوں کی گنتی شروع ہوئی تو پتا چلا کہ آصف زرداری کی سیاست کو تحریک انصاف کا سیلاب بہا کر لے گیا ہے۔ بھٹو کے نام کی ندی جو گلگت سے لے کر بحیرہ عرب تک اپنی جولانیاں دکھایا کرتی تھی، سندھ کی صوبائی حکومت کے تالاب تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ وہ بھٹو جو پھانسی پر لٹکا ہوا بھی اپنی پارٹی کو تین دہائیوں سے اقتدار میں رکھے ہوئے تھا، دو ہزار تیرہ کے الیکشن میں دفن ہو گیا۔ زرداری نے الیکشن کو آر اوز کا الیکشن قرار دے کر اپنی عزت بچانے کی کوشش کی مگر اس کے بعد ہونے والے ہر ضمنی انتخاب اور بلدیاتی انتخابات میں پیپلز پارٹی کی شرمناک شکست سے ''آر او الیکشن‘‘ کے الزام کا کھوکھلا پن آشکار ہوتا رہا۔ اب ایک بار پھر الیکشن کی آمد آمد ہے اور آصف علی زرداری وہی پرانا انداز سیاست لیے کبھی عمران خان پر الزامات کی بوچھاڑ کر دیتے ہیں تو کبھی نواز شریف کو طعنے دینے لگتے ہیں۔ عوامی فلاح کے لیے ان کے پاس کیا منصوبہ ہے، منشور کا کیا کرنا ہے، سندھ میں کوئی ایسا کام کیا کرنا ہے جسے دیکھ کر باقی پاکستان کے لوگ بھی پیپلز پارٹی سے کوئی اچھی امید لگا لیں؛ زرداری صاحب ان تمام باتوں سے لا تعلق ہو کر کبھی ڈاکٹر طاہرالقادری میں نوابزادہ نصراللہ خان مرحوم کو زندہ دیکھ رہے ہیں تو کبھی حکومت کو دھمکا کر سمجھ رہے ہیں کہ بھٹو کی پارٹی آئندہ بھی میدان مار لے گی۔
ایسا نہیں کہ پیپلز پارٹی میں کسی کو خیال ہی نہیں کہ اب پاکستان کے لوگ سیاسی جماعتوں سے کام کرنے کی توقع رکھتے ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری، بختاور بی بی ، آصفہ بی بی اور وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نہ صرف ترقیاتی کاموں کی اہمیت کو سمجھتے ہیں‘ بلکہ اپنی سی کوشش بھی کرتے رہتے ہیں کہ سندھ کو پاکستان کے لیے مثال بنا دیں۔ بلاول آج کل سندھ میں میرٹ پر نوکریاں دینے کا نظام وضع کرنے کے لیے کوششوں میں مصروف ہیں تو ان کی دونوں بہنیں سرکاری سکولوں کی خبر گیری میں مصروف ہیں۔ مگر بلاول کی کوششوں کا انجام یہ ہے کہ صوبہ سندھ کے محکمہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی نالائقی میرٹ کی راہ میں حائل ہو گئی ہے۔ بختاور اور آصفہ کی حالت یہ ہے کہ جب لیاری کے ایک سرکاری سکول کو اپنی ہی حکومت کے محکمہ تعلیم سے فرنیچر نہ دلوا سکیں تو انہوں نے اپنے پیسوں سے فرنیچر خرید کر نانا اور والدہ کے حلقے میں اپنی سیاسی عزت بچائی۔ جدید ذہن کے یہ تینوں بھائی بہن اچھی طرح سمجھ رہے ہیں کہ ان کے والد کا اندازِ سیاست پیپلز پارٹی کو تباہی کے راستے پر لیے جا رہا ہے مگر بے بس ہیں۔ بلاول جہاں خاموشی رہ کر اپنی ناراضی آصف علی زرداری پر واضح کرنے کی کوشش کرتے ہیں، وہاں بختاور اب کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر ان کی سیاست پر گھر کی چار دیواری میں ہی سہی، تنقید کرنے لگی ہیں۔ کہنے کو فریال تالپور کا کردار بھی محدود ہو رہا ہے مگر آصف علی زرداری کی وجہ سے اتنی طاقتور بہرحال ضرور ہیں کہ کام کے آدمیوں کو بلاول تک نہیں پہنچنے دیتیں۔ اگر قسمت کا مارا کوئی پہنچ ہی جائے تو پہلے کی طرح اسے ذلیل کرکے نکالا نہیں جاتا البتہ اس کے خلاف سازشیں اتنی کی جاتی ہیں وہ خود ہی بھاگ نکلتا ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو کے بارے میں مشہور ہے کہ انہیں اپنے ہزاروں کارکنوں کے نام اور کارنامے یاد رہتے تھے۔ پنجاب کے سابق آئی جی اور بھٹو کے ساتھی راؤ رشید مرحوم کی روایت ہے کہ ایک موقع پر جنوبی پنجاب میں ایک جلسے کے حاضرین میں سے سندھ سے آئے کارکن کو نہ صرف پہچان لیا بلکہ اس کا نام لے کر اپنے پاس بلا لیا۔ اس سے کہیں کم مگر ملتا جلتا طرز عمل محترمہ بے نظیر بھٹو کا بھی تھا لیکن آج کی پیپلز پارٹی میں کارکنوں کے ساتھ جو سلوک ہو رہا ہے اس کا اندازہ کراچی اور اندرون سندھ جا کر ہوتا ہے۔ عام کارکن تو بے چارہ کس گنتی میں ہے، حالت یہ ہے کہ سندھ اسمبلی کا ایک رکن آصف علی زرداری سے ملنے بلاول ہاؤس چلا گیا تو وہاں کے حاجب نے ہی پانچ لاکھ روپے کا تقاضا کر ڈالا۔ اس غریب سے یہ بندوبست نہ ہو سکا تو ملاقات سے بھی منع کر دیا گیا۔ پارٹی فنڈ کے نام پر نقد رقوم کے مطالبوں سے تنگ آئی ہوئی ایک خاتون رکن سندھ اسمبلی نے مہینہ بھر پہلے نئے مطالبے کے جواب میں کہلا بھیجا، ''آئندہ مجھے رکنِ اسمبلی بننا ہے نہ پارٹی میں رہنا ہے اس لیے اب اسمبلی سے ملنے والی تنخواہ سے ایک دھیلا بھی زیادہ پارٹی فنڈ میں نہیں دوں گی‘‘۔ زرداری اندازِ سیاست میں حکومت کا مال اتنا مباح ہو چکا ہے کہ سندھ سے پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے منتخب اراکین اپنے ان بھائیوں کو رشک بھری نظروں سے دیکھتے ہیں جو سندھ کی صوبائی حکومت میں شامل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آئندہ الیکشن میں سندھ اسمبلی کے لیے پیپلز پارٹی کا ٹکٹ لینے کے لیے تو قطاریں لگ رہی ہیں مگر قومی اسمبلی کا انتخاب لڑنے کے لیے کوئی تیار نہیں۔ مجبوری میں فارمولا بنایا جا رہا ہے کہ جسے مارے‘ باندھے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑایا جائے گا‘ اس کو ایک ٹکٹ صوبائی اسمبلی کا بھی ملے گا تاکہ اپنے بھائی، بیٹے کو صوبائی اسمبلی بھیج کر سندھ حکومت کے مال پر جتنا ممکن ہو ہاتھ صاف کر لے۔
ہر سال دسمبر کے آخری دنوں میں مالیاتی اداروں کے ماہرین مختلف سیاسی تجزیہ کاروں سے آئندہ سال کے سیاسی حالات کی پیش گوئیاں کراتے ہیں تاکہ سرمایہ کاری کے ماحول کا اندازہ کر سکیں۔ ٹی وی اینکروںکے برعکس یہ ماہرین آئیں بائیں شائیں کرنے کی بجائے پیشہ ورانہ انداز میں مختلف سیاسی ماڈل بنا کر سوال اٹھاتے ہیں تو ان کے سوالوں سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ کاروباری طبقہ کن خطوط پر سوچ رہا ہے۔ اس سال کراچی میں کام کرنے والے مالیاتی ماہر سے بات ہوئی تو اس سے پوچھا کہ ان کے نزدیک آئندہ الیکشن کا بہترین نتیجہ کیا ہوسکتا ہے تو جواب چونکا دینے والا تھا۔ کہنے لگا، ''ہمارے نزدیک پاکستان کے لیے بہترین حکومت مسلم لیگ ن یا تحریک انصاف فراہم کر سکتی ہے‘‘۔ پیپلز پارٹی کا پوچھا تو کہا، ''پیپلز پارٹی کی حکومت ملکی معیشت کے لیے ایک ڈراؤنے خواب کی طرح ہے، جو اگر بن گئی تو بہت کچھ تباہ ہو جائے گا‘‘۔ اس کی بات سن کر دیگر اداروں کے لوگوں سے رابطہ کیا تو معلوم ہوا کہ ملک کے معاشی دارالحکومت میں سرمایہ کار یکسو ہو چکے ہیں کہ پیپلز پارٹی کی حکومت تباہی کا پیغام ہو گی جس کا فی الحال کوئی امکان نہیں ۔
یہ کہتے ہوئے کلیجہ منہ کو آتا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کی پارٹی بلاول بھٹو زرداری کی برائے نام قیادت میں ایک بار پھر عام انتخابات میں ملک گیر شکست کھانے کا بندوبست کر چکی ہے۔ شاید یہ شکست ہی اسے زرداری کے نرغے سے نکال کر ایک بار پھر عوام میں لے آئے!