تعلیم عام کرنے کا مشن جاری رہے گا : شاہد خاقان عباسی
وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ ''تعلیم عام کرنے کا مشن جاری رہے گا‘‘ اور جن سکولوں میں چاردیواریاں نہیں ہیں‘ ان کے گرد چاردیواریاں تعمیر کرانے کا پروگرام ہے اور جن سکولوں میں بھینسیں باندھی جاتی ہیں اُن میں دیگر جانوروں مثلاً بھیڑ‘ بکریاں باندھنے کو کہا جائے گا اور گھوسٹ ٹیچر حضرات کی اصلاح کے لیے عاملین کی خدمات حاصل کی جائیں جنہیں جنوّں بھُوتوں کے معاملات پر کافی دسترس ہے اور جن سکولوں کی دیواریں اور چھتیں گرنے والی ہیں‘ انہیں کھلے میدان میں پڑھنے کی ترغیب دی جائے گی کیونکہ دُھوپ میں جو وٹامن ہوتے ہیں‘ طلبہ اور اساتذہ اس سے مستفید ہو سکیں گے جبکہ کھلی فضا ویسے بھی صحت کے لیے کافی مفید ہوتی ہے اور یہ مشن ہم آئندہ بھی زوروشور سے جاری رکھیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ''شعبہ صحت کی ترقی ضروری ہے‘‘ اور ہسپتالوں میں ایک ایک بیڈ پر چار چار مریضوں کی حوصلہ افزائی کی جائے گی کیونکہ اس سے یگانگت اور اخوت میں اضافہ ہوتا ہے۔ آپ اگلے روز راشد آباد سٹی آف ایجوکیشن اینڈ ہیلتھ کیئر میں طلبہ سے گفتگو کر رہے تھے۔
نوازشریف این آر او کرنے نہیں گئے : رانا تنویر حسین
وفاقی وزیر دفاعی پیداوار سائنس و ٹیکنالوجی رانا تنویر حسین نے کہا ہے کہ ''نوازشریف سعودیہ این آر او کرنے نہیں گئے‘‘ کیونکہ اُن سے وہاں کسی نے ملاقات ہی نہیں کی تو این آر او کیسے ہو سکتا تھا اور اگر این آر او تنہا ہو سکتا تو یہیں کر لیتے‘ انہیں سعودیہ جانے کی کیا ضرورت تھی جبکہ سعودیہ تو وہ شہبازشریف کی خاطر گئے تھے کہ انہیں زیادہ پریشان نہ کیا جائے لیکن بالآخر شہبازشریف کو اُن کے حال پر ہی چھوڑنا پڑا۔ انہوں نے کہا کہ ''بھارت کا مکروہ چہرہ دنیا کے سامنے بے نقاب کریں گے‘‘ جبکہ ہمارا چہرہ تو پہلے ہی بے نقاب ہو چکا ہے بلکہ ہم نے تو نقاب پہننے کی کبھی ضرورت ہی محسوس نہیں کی کیونکہ ہمارا چہرہ تو نقاب میں بھی نظر آ جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''سیاسی فیصلے پاکستان میں ہوں گے‘‘ جبکہ سعودیہ میں صرف مالی معاملات کے فیصلے ہوتے ہیں اور شہبازشریف سے مبینہ طور پر دس ارب کا مطالبہ بھی کر دیا گیا ہے اور اس طرح شاہی خزانے میں رفتہ رفتہ کمی کا آغاز ہو گیا ہے۔ آپ اگلے روز مریدکے میں چوہدری اشعر ورک کے ہمراہ پریس کلب میں گفتگو کر رہے تھے۔
دورہ سیاسی یا ذاتی نہیں‘ سعودی عرب
عمرہ ادا کرنے آیا ہوں: شہبازشریف
خادم اعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف نے کہا ہے کہ دورہ سیاسی یا ذاتی نہیں‘ سعودی عرب عمرہ ادا کرنے آیا ہوں اور سعودی جہاز مجھے اسی لیے لینے کے لیے آیا تھا کہ آپ چونکہ وزیراعظم بننے والے ہیں اس لیے آپ کو عمرہ کی سعادت حاصل کر لینی چاہیے‘ اگرچہ وہاں جا کر کافی حساب کتاب بھی دینا پڑا اور حساب بے باک کرنے کا کہا گیا جس کی میعاد لے کر واپس آ رہا ہوں کہ ہمارا تو پہلے ہی برا حال ہے اتنی بڑی رقم فوری طور پر کیسے ادا کر سکتے ہیں‘ اور کوئی اثاثے وغیرہ بیچ کر ادا کر دوں گا اور یہ بھی بُرا ہوا کہ بھائی صاحب کی وہاں کسی سے ملاقات ہی نہیں ہوئی اور سارا بوجھ مجھ غریب پر ڈال دیا گیا جن کی وصولی بھی نظر نہیں آ رہی کیونکہ وہ کہیں گے کہ تمہیں وزیراعظم جو نامزد کر دیا گیا ہے‘ زیادہ لالچ کی ضرورت نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''مزید بات وطن جا کر کروں گا‘‘ اگرچہ اس کا بھی اہل وطن کو کافی حد تک علم ہو ہی چکا ہے اور وہ باتیں قابل بیان ہیں بھی نہیں۔ آپ اگلے روز مدینہ منورہ میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
جمہوریت ترقی کا واحد راستہ‘ آئین
کی حکمرانی تسلیم کی جائے : محمود اچکزئی
پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے چیئرمین محمود اچکزئی نے کہا ہے کہ ''جمہوریت ترقی کا واحد راستہ ہے‘‘ آئین کی حکمرانی تسلیم کی جائے۔‘‘ جیسا کہ پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ صوبہ خیبرپختونخوا افغانستان کا علاقہ ہے اس لیے آئینی تقاضا ہے کہ اُسے واپس دے دیا جائے‘ نیز گلگت بلتستان بھی آزاد علاقہ تھا‘ اسے بھی آزاد رہنے دیا جائے تاکہ آئین کی حکمرانی پر عملدرآمد ہو سکے۔ انہوں نے کہا کہ ''فاٹا کا فیصلہ عوام کی مرضی کے مطابق کیا جائے‘‘ اور اگر وہ الگ ہونا چاہیں تو انہیں بھی زبردستی ساتھ رکھنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے کیونکہ اگر اُسے پختونخوا میں ضم کر دیا گیا تو سیاسی طور پر مجھے اور مولانا فضل الرحمن کو سخت نقصان پہنچے گا اور میری طرح مولانا صاحب بھی گھاٹے کا سودا نہیں کرتے۔ انہوں نے کہا کہ ''پختونخوا میپ ہر غیر آئینی راستہ روکنے کے لیے اقدام کرے گی‘‘ جبکہ نوازشریف کی طرح ہمیں بھی آئین کی تشریح کا پورا پورا حق حاصل ہے۔ آپ اگلے روز کوئٹہ میں مجید اچکزئی کی رہائش گاہ پر کارکنوں سے خطاب کر رہے تھے اور اب عامر سہیل کے مجموعۂ' کلام اک نخرہ باغ سے چنتا ہوں‘ میں سے ایک غزل :
علاوہ تیری آنکھوں کے علاوہ
مرے سینے پہ ہے راتوں کا دھاوا
تری باتوں کے پھولوں سے غزل گوں
مری گارے کی سانسوں کا کجاوہ
مجھے نیکی کے زخموں سے گلہ ہے
کوئی توہین ہے یا اِک دکھاوا
چہار اطراف سے باندھے گا مُشکیں
تری آواز کا جھُوٹا بلاوا
پری ہو‘ قاف کے گجرے پہن کر
کرو آ کر گلی کوچوں کو ساوا
مری پسلی میں تیراسا نولاپن
مرے جُوتوں میں دھوکے کا پتاوا
کبھی سُولی کے تختے پر پرکھنا
پری زاد و مرا عشقے کا دعویٰ
ابھی ڈوبی نہیں آنکھوں کی نعمت
ابھی چہرے تلک پہنچا ہے لاوا
میں گھر میں قید ہوں سالوں سے عامرؔ
ترے نخرے کریں گے کب مداوا
آج کا مطلع
اپنا کبھی ہُوا نہ تمہارا ہُوا ہُوں میں
یہ کیسے راستوں سے گزارا ہُوا ہُوں میں