اللہ تبارک وتعالیٰ نے ہر انسان میں مخلص اور اچھی شریک زندگی کی خواہش کو رکھا ہے۔ اس خواہش کی تکمیل کے لیے نوجوان لڑکے لڑکیوں کے والدین اور خاندان کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ وہیں پر والدین اپنے بچے اور بچی کے گھر کو بستا دیکھ کر انتہائی خوشی محسوس کرتے ہیں۔ موسم سرما میں خصوصیت سے شادیوں کا انعقاد کیا جاتا ہے اور بڑی تعداد میں نوجوان شادی کے مقدس بندھن میں بندھ جاتے ہیں لیکن یہ بات بھی دیکھنے میں آئی ہے کہ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد تادیر ایک اچھے شریک زندگی کی رفاقت سے محروم رہتی ہے۔ جب ہم اپنے گردوپیش میں نظر ڈالتے ہیں تو اس کی بہت سی وجوہات نظر آتی ہیں جن میں سے چند اہم درج ذیل ہیں:
1۔ مثالی شریک زندگی کے بارے میں مبالغہ آمیز تصورات: ہمارے معاشرے میں مثالی شریک زندگی کے بارے میں غلو کیا جاتا ہے۔ مختلف میڈیائی پروگرام دیکھنے اور افسانوی لٹریچر پڑھنے کے بعد مثالی شریک زندگی کا ایک دیومالائی قسم کا تصور اپنے ذہن میں قائم کر لیا جاتا ہے۔ ابتدائی طور پر لڑکے، لڑکی اور ان کے والدین اوسط درجے کے رشتوں کو قبول کرنے پر آمادہ وتیار نہیں ہوتے۔ لڑکی کی عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ رشتوں میں بھی کمی واقع ہونا شروع ہو جاتی ہے اور جب والدین سمجھوتا کرنے پر آمادہ وتیار ہو جاتے ہیں تو دیکھنے میں آیا ہے کہ اس وقت مناسب اور معقول رشتے بھی میسر نہیں آتے۔ چنانچہ اس مسئلے میں حقیقت پسندی سے کام لیتے ہوئے اپنے ہم پلہ رشتوں کو قبول کرکے ایک اچھی زندگی کا آغاز کر لینا چاہیے۔
2۔ پیشہ ورانہ مصروفیت پر غیر ضروری زور: بہت سے لوگ شادی بیاہ کے لیے پیشہ ورانہ ذمہ داری یا کاروباری حیثیت کو بہت زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ چنانچہ بہت سے نوجوان تعلیم کے بعد جب تک اچھی ملازمت حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوتے اس وقت تک ان کا گھر آباد نہیں ہوپاتا۔ اسی طرح بہت سی لڑکیاں بھی اس مسئلے میں لڑکوں کے ساتھ مسابقت کے راستے پر چل نکلتی ہیں اور پیشہ ورانہ تعلیم میں مشغول ہو جاتی ہیں۔ اعلیٰ سطح کی تعلیم حاصل کرنے کے دوران عمر تیزی سے گزرنا شروع ہو جاتی ہے اور پیشہ ورانہ استحکام حاصل کرتے کرتے لڑکے اور لڑکی بالعموم نوجوانی کی سرحد کو عبور کر جاتے ہیں جس کی وجہ سے ان کے رشتے تاخیر اور التواء کاشکار ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔معاشی طور پر مستحکم ہونا گو کامیاب زندگی کے لیے اہم ہے لیکن اس کا اہتمام شادی کے بعد بھی کیا جا سکتا ہے اور شادی کاروباری اور پیشہ ورانہ مصروفیات کے درمیان حائل ہونے کی بجائے اس کے استحکام کے لیے بھی معاون بنتی ہے۔
3۔ جہیز: ہمارے معاشرے میں ہندوانہ رسوم ورواج میں سے ایک انتہائی بری قباحت جہیز کی بھی پائی جاتی ہے۔ والدین اپنی بیٹی کو اپنی مرضی سے گھر سے رخصت کرتے وقت تحفے تحائف اور ضروریات کی کچھ چیزیں ہدیہ کر سکتے ہیں‘ لیکن داماد اور اس کے گھر والوں کے لیے جہیز کی ایک لمبی فہرست لڑکی کے گھر والوں کے حوالے کرنے کی قرآن و سنت میں اور اخلاقی لحاظ سے کوئی گنجائش نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے سورہ نساء کی آیت نمبر 29 میں ارشاد فرمایا ہے:''اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کا مال باطل طریقے سے نہ کھاؤ مگر یہ کہ تمہاری آپس میں رضامندی سے تجارت ہو‘‘۔ قرآن مجید کی آیت مبارکہ مسلمانوں کو دعوت فکر دے رہی ہے کہ تجارت کے علاوہ دیگر ذرائع سے کسی کا مال بٹورنا درست نہیں ہے۔بیٹے اور بیٹیاں اللہ تعالیٰ کی عطا ہیں۔ بیٹیوں کی پیدائش پر غم زدہ ہونا جاہلیت کی نشانی ہے‘ لیکن جب ہم معاشرے کے رسوم و رواج پر غور کرتے ہیں تو اس حقیقت کو سمجھنا کچھ مشکل نہیں رہتا کہ سفید پوش اور غریب لوگ بیٹیوں کی پیدائش پر کیوں غم زدہ ہو جاتے ہیں۔ بیٹیوں کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کرنے کے باوجود جب معاشرہ شادی کے وقت ان کے گھر والوں سے جہیز کے نام پر''تاوان‘‘ کا مطالبہ کرتا ہے تو متوسط اور غریب گھرانے کے لوگ قرضہ اُٹھانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔لڑکے والے اپنے بیٹے کی تعلیم اور آمدن کو بھرپور طریقے سے فروخت کرتے ہیں۔ لڑکا جتنا زیادہ تعلیم یافتہ ہو جہیز بھی اتنا ہی زیادہ مانگا جاتا ہے۔ اگرچہ اچھی ملازمت اور مناسب کاروبار کے حامل لڑکے کو اپنے گھر بار کے انتظام و انصرام کے لیے لڑکی والوں کے تعاون کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی‘ پھر بھی گھریلو ساز و سامان کے علاوہ لڑکی والوں سے تعیشات کے زمرے میں آنے والے سامان کا بھی بھرپور طریقے سے مطالبہ کیا جاتا ہے۔ یہ مطالبہ شادی کے بعد ختم نہیں ہو جاتا بلکہ خوشی کے ہر موقع پر مختلف قسم کے حیلے بہانوں کے ذریعے سے یہ مطالبات جاری رہتے ہیں۔ دینی تعلیمات سے دوری کی وجہ سے اس قسم کے مطالبات کو کسی بھی طریقے سے غلط نہیں سمجھا جاتا اور کوئی اصلاح کرنے والا اچھی نصیحت کرے تو اس کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔
اگر دیانت داری سے جہیز کی رسم کا تجزیہ کیا جائے‘ تو یہ گداگری کی ایک جدید شکل ہے‘ جس میں لڑکی والوں سے موقع بے موقع بلا ضرورت کچھ نہ کچھ مانگا جاتا ہے۔ خیرات حاصل ہونے کی صورت میں وقتی طور پر خاموشی اختیار کر لی جاتی ہے‘ اور نہ ملنے کی صورت میں مختلف طریقوں سے لڑکی کو ذہنی اذیت دی جاتی ہے۔ لڑکی کی کفالت کرنا مرد کی ذمہ داری ہے۔ سورہ نساء کی آیت نمبر19 میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: ''ان کے ساتھ اچھے طریقے سے زندگی گزارو‘‘۔ جو شخص معروف طریقے سے اپنی ذمہ داریوں کو پورا نہیں کر سکتا‘ اسے نکاح کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں۔ نبی کریمﷺ نے بلا جواز مانگنے کی شدید مذمت کی ہے۔ آپﷺ کی متعدد احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسا عمل درحقیقت شرف انسانیت کے خلاف ہے‘ اور ہر غیرت مند مسلمان کو اس قسم کے رویے سے اجتناب کرنا چاہیے۔
بخاری و مسلم شریف میں حدیث ہے‘ جس کے راوی عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ہیں کہ رسول کریمﷺ نے فرمایا: ''آدمی سوال کرتا رہے گا یہاں تک کہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کے چہرے پر گوشت کا کوئی ٹکڑا نہ ہوگا‘‘۔ سنن ابو داؤد‘ سنن ترمذی، سنن نسائی، ابن حبان، مسند احمد اور طبرانی میں الفاظ کے اختلاف سے روایت نقل کی گئی ہے کہ رسول اللہﷺ فرماتے ہیں: سوال ایک قسم کی خراش ہے کہ آدمی سوال کرتے ہوئے اپنے منہ کو نوچتا ہے جو چاہے اپنے منہ پر خراش کو باقی رکھے جو چاہے چھوڑ دے‘‘۔ امام بیہقی نے اس روایت کو نقل کیا ہے کہ رسول اللہﷺ فرماتے ہیں: ''جس پر فاقہ نہ گزرے اور نہ اتنے بال بچے ہوں جن کی طاقت نہیں اور وہ سوال کا دروازہ کھولے تو اللہ تعالیٰ اس پر فاقے کا دروازہ کھولے گا‘ ایسی جگہ سے جو اس کے خیال میں بھی نہیں ہو گی‘‘۔ صحیح بخاری‘ صحیح مسلم، موطا امام مالک، سنن نسائی، سنن ابو داؤد میں روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہمابیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ منبر پر تشریف فرما تھے اور صدقہ اور سوال سے بچنے کا ذکر فرما رہے تھے۔ آپﷺ نے فرمایا: ''اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔ اوپر والا ہاتھ خرچ کرنے والا ہے اور نیچے والا ہاتھ مانگنے والا ہے‘‘۔سنن ابن ماجہ میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:''جو مال بڑھانے کے لیے سوال کرتا ہے وہ انگارے کا سوال کرتا ہے، چاہے زیادہ مانگے یا کم‘‘۔
4۔ شادی بیاہ کی رسومات : بہت سے لوگ اپنی روزمرہ کی جائز ضروریات کو پورا کرنے پر تو قادر ہوتے ہیں لیکن شادی بیاہ کی تسلسل سے کی جانے والی رسومات کو ان کے لیے نبھانا بہت ہی مشکل ہو جاتا ہے۔ بہت سے ایسی خاندانوں میں ان رسومات کا باقاعدہ اہتمام کیا جاتا ہے جو درحقیقت اسلامی تہذیب سے کہیں زیادہ ہندوانہ معاشرت سے متعلق ہیں۔ چنانچہ تیل، مایوں، مہندی اور اس قسم کے دیگر تہواروں پر لاکھوں روپے کی رقم اڑا دی جاتی ہے۔ اس رقم کا اہتمام نہ ہونے کی وجہ سے بھی بہت سے لوگ شادی کی نعمت سے محروم ہو جاتے ہیں۔
5 ۔اضافی تکلفات: شادی بیاہ کے موقع پر بہت سے اضافی تکلفات بھی ہمارے معاشرے کا حصہ بن چکے ہیں۔ جن میں دلہا دلہن کے تحائف کے علاوہ دونوں خاندانوں کو دیے جانے والے قیمتی تحائف شامل ہیں جن کا التزام کرنا عام انسان کے بس کی بات نہیں ہے۔ چنانچہ ہم ا س بات کا مشاہدہ کر سکتے ہیں کہ معاشرے بہت سے خوش شکل اور ذہین لڑکے اور لڑکیاں بغیر شادی کے نظر آتے ہیں۔
ہمیں اپنے معاشرے میں نکاح کو آسان اور بدکرداری کو مشکل بنانا چاہیے۔ تاکہ اسلامی سماج اعلیٰ اخلاقی اقدار کی بنیاد پر آگے بڑھ سکے۔ اگر ان باتوں کا اہتمام نہ کیا گیا تو آنے والے سالوں میں شادی بیاہ اور نکاح کے موقع پر ہونے والی تقریبات میں پایا جانے والا اسراف اور اضافی بوجھ نکاح اور شادی بیاہ کی تقریبات کو مزید مشکل سے مشکل بناتا چلا جائے گا۔ اس کے لیے ہمیں ہندوانہ تہذیب وتمدن سے نجات حاصل کرکے اسلامی تہذیب وتمدن کی طرف واپس پلٹنے کی ضرورت ہے۔ احایث مبارکہ میں اس حوالے سے جس سادگی اور آسانی کی تلقین کی گئی ہے انہیں اپنانے کی ضرورت ہے۔ اگر قرآن وسنت کی ان تعلیمات پر عمل کر لیا جائے تو نوجوان لڑکے اور لڑکیاں باآسانی اپنے گھر کو آباد بھی کر سکتے ہیں اور اپنے والدین ، اعزء واقارب کی نیک تمناؤں اور خواہشات کو بھی احسن طریقے سے پورا کر سکتے ہیں۔