2009ء میں انڈین وزارت خارجہ سے ایک فائل جس کے کور پر RIVALRY IN THE INDIAN OCEAN تحریر تھا‘ پردھان منتری کے دفترلے جائی گئی ۔۔۔۔اس فائل میں رابرٹ ڈی کپلان نے بحر ہند میں عالمی قوتوں کی مداخلت اور دلچسپیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے مغرب اور امریکہ کو خبردارکیا تھا کہ آپ دنیا کے ایک ایسے سمندر کو نظر انداز کر رہے ہیں جو بہت جلد توانائی، عسکری اور تجارتی مقاصد کے استعمال کیلئے انتہائی اہمیت اختیار کر نے والا ہے۔ کپلان نے لکھا تھا بحر ہند جیسے اہم جیو گرافک اوشین کو عرصہ دراز سے سنٹرل ایشیا اور افریقہ میں وجود آنے والے نت نئے ممالک اور وہاں چین کے بڑھتے ہوئے قدموں کو نہ جانے کیوں نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ اپنے اس تجزیئے میں رابرٹ ڈی کپلان نے 8 برس قبل جس انداز میں امریکہ کو خبردار کیا تھا وہ آج حقیقت بن کر سامنے آ چکا ہے اور قبل از وقت یہی اندازہ کرتے ہوئے اس نے مغربی دنیا کو بتایا تھا کہ طاقت کے کھیل کا آئندہ مرکز اور آپس میں رسہ کشی کا معرکہ بحر ہند میں برپا ہونے جا رہا ہے کیونکہ امریکہ نے کسی بھی ممکنہ جنگ کو یورپ سے نکال کر ایشیا اور خلیج میں پھینک دیا ہے۔ تجزیہ کاروں نے شائد ایسی ہی صورت حال کو دیکھتے ہوئے بحر ہند کے نام سے تیسرے بڑے سمندر کو جو ایشیا، افریقہ اور آسٹریلیا سے ملحق ہے The Bed Of Future Conflictsکا نام دے دیا ہے۔ بحر ہند کی اہمیت کا اندازہ کرنے کیلئے کیا یہ کم ہے کہ اس وقت تیل کی 80 فیصد تجارت اسی کے ذریعے کی جا رہی ہے ۔ بحر ہند میں ڈیگو گارشیا جیسا مشہور معروف جزیرہ بھی شامل ہے۔ امریکہ اس وقت ڈیگو گارشیا اور بحرین میں اپنے مضبوط بحری اڈوں کے ساتھ موجود ہے۔ جنوبی ایشیا کے حالات بتا رہے ہیں کہ جلد ہی بھارت کو اس بحری رستے میں چین کا متحارب فریق بنا دیا جائے کیونکہ ان دونوں ممالک کی مستقبل کی توانائی کی تمام ضروریات کا یہی روٹ ہے جو دنیا کے تمام سمندروں کے پانچویں حصے پر مشتمل ہے ۔ امریکی ڈپارٹمنٹ آف ڈیفنس رپورٹ کے مطا بق 2012 میں توانائی کی صورت میں چین کی 84 فیصد تجارت بحر ہند کی سٹریٹ آف ملاکہ کے ذریعے کی گئی ۔امریکہ اس سے کبھی بھی نظریں ہٹانے کی غلطی نہیں کرے گا۔
بحر ہند ریجن 45ملین مربع کلو میٹر پر مشتمل ہے۔ رابرٹ ڈی کپلان نے اپنے اس مضمون میں بحرہند کی سٹریٹیجک صورت حال کی جانب اشارہ کرتے ہوئے امریکہ سمیت اس کی حلیف مغربی طاقتوں کو ''بحر ہند میں مسابقانہ کشمکش‘‘ کے عنوان کے ساتھ بتا دیا کہ کل کا جنگی میدان جرمنی یا آسٹریا نہیں اور نہ ہی روس اور امریکہ کی فضائوں اور سمندروں میں ہو گا بلکہ Centre Stage For The 21st Centuary بحر ہند ہو گا ۔ اس جانب بھارت اور اس کے اتحادیوں کی ممکن ہے کہ جلد توجہ نہ ہوتی لیکن گوادر کے جھٹکے نے انہیں نیند سے ایسا جگایا کہ امریکہ اور بھارت نے گوادر کو اپنا درد سر بنا تے ہوئے اس سے چھٹکارا حاصل کرنے کیلئے پاکستان اور چین کے گھیرائو کا فیصلہ کر لیا اور انہوں نے افغانستان اور اس کی سر زمین استعمال کرتے ہوئے بلوچستان سمیت پاکستان کے دوسرے حصوں میں دہشت گردوں کی لاجسٹک سپورٹ کرتے ہوئے پاکستان کو بھر پور نقصان پہنچانا شروع کر دیا ہے ۔ کوئی دو ماہ ہوئے نومبر میں نریندر مودی نے انڈو پیسیفک ریجن کی سکیورٹی صورت حال کے نام سے آسٹریلیا اور تائیوان کے وزرائے اعظم کو فلپائن میں ایشین سمٹ کے دوران اور پھر بھارت، امریکہ، آسٹریلیا اور جاپان کے ساتھ چین کی بحر ہند میں دن بدن Aggressiveفوجی طاقت اور صلاحیتوں کے تنا ظر میں اس کا بھر پور مقابلہ اور اس کی بڑھتی ہوئی سمندری فوجی طاقت
کا مقابلہ کرنے کیلئے اس کے سائوتھ کی سمندری حدود میں سمندری جنگی مشقیں اور اڈے بنانے شروع کر دیئے۔
امریکہ گوادر بندرگاہ اور سی پیک کے ابتدائی مراحل کی تکمیل کے عمل کو روکنے کیلئے اپنے اتحادیوں کے ساتھ بحر ہند میں اڈے بنا رہا ہے تو کہیں بھارت اور تائیوان کی سمندری لہروں کو آپس میں جوڑنے کی کوششوں میں مصروف ہے جس سے رابرٹ کپلان کا آٹھ برس قبل بحر ہند میں بڑھنے والی کشمکش کا اشارہ چین کے خلاف امریکی سازشوں کی صورت میں سچ ثابت ہو تا جا رہا ہے ۔ کپلان کے اس مضمون کو لکھے آٹھ برس گزر چکے ہیں یقینا یہ مضمون پاکستانی اداروں کی نظروں سے بھی گزرا ہو گا ۔۔۔کیا پاکستان کی سلامتی کے اداروں اور حکومت نے2009 میں اس آرٹیکل اور اس میں لکھی گئی حقیقتوں کو اپنے اندر سمیٹنے اور اس سے نمٹنے کی کوئی صلاحیت یا کوئی پلاننگ کی ہے؟۔
روس کے ٹوٹنے اور 9/11 کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال سے انڈین اوشین یک دم اہمیت اختیار کر گیا ہے اس کی وجوہات میں دہشت گردوں کی نقل و حرکت، منشیات کی سمگلنگ اور قزاقی شامل ہیں۔ امریکہ، برطانیہ آسٹریلیا اور ان کے بہت سے دوست اور اتحادی 21 ویں صدی میں چین کے مقابلے میں لانے کیلئے بھارت کو نہلا دھلا کر مختلف ہتھیاروں سے سجارہے ہیں۔ بھارت کووائٹ ہائوس اور اس کے اتحادیوں کے دربار میں اونچی کرسی پر بٹھایا جا رہا ہے تا کہ اس کی گردن اس قدر اکڑ جائے کہ وہ اپنے سامنے کسی اور کو خاطر میں ہی نہ لا سکے۔ اسے یقین دلایا جا رہا ہے کہ ایشیا اور اس کے ارد گرد کے تمام سمندری راستوں اور پانیوں پر تمہارا ہی اختیار ہے اور ان کی قسمت کے فیصلے اب ان کے اندرنہیں بلکہ بھارت میں ہوا کریں گے اور سنٹرل ایشیا، سائوتھ ایشیا، پیسیفک ایشیا اور بحر ہند پر اس کا مکمل کنٹرول ہوتے ہی مہان بھارت کے نام کی منزل اس کے قدموں میں آ جائے گی اور اس کا سہرا ہندوستان کی تاریخ میں ہمیشہ کیلئے نریندر مودی کے نام لکھ دیا جائے گا ۔ امریکی تھپکیاں اپنی جگہ لیکن نریندر مودی کو یہ پہلو بھی سامنے رکھنا ہو گا کہ اس کے کسی غلط فیصلے سے ایک ارب سے زائد ہندو صفحہ ہستی سے مٹ سکتے ہیں اور پھر دنیا میں ہندو قوم ڈھونڈنے سے بھی نہیں لے گی جس کی کالک مودی کے چہرے پر ملی جائے گی اور تاریخ اسے ہندو قوم کے اجتماعی قتل کی ذمہ دار سمجھتے ہوئے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ذلت کے گڑھے میں پھینکتی رہے گی ۔ بھارت اگر سمجھتا ہے کہ امریکہ اس کا سچا اور جگری یار بنتا جا رہا ہے تو یہ اس کی بھول ہو گی۔ امریکیوں کا مقصد صرف اتنا ہے کہ بھارتیوں کی گردن میں اس قدر سریا بھر دیا جائے کہ وہ کسی کو خاطر میں ہی نہ لائیں اور جس طرح پنڈت نہرو نے1962 میں امریکی شہ پر چین پر چڑھائی کرتے ہوئے اپنے گھٹنے تڑوا لئے تھے اسی طرح ایک مرتبہ پھر اس کے مقاصد صرف یہ ہیں کہ بھارت کو چین سے ٹکرادیا جائے۔ ایسی صورت میں بھارت کا سارا وجود کرچی کرچی تو ہوگاہی ہے لیکن اس سے چین بھی سمٹ کر رہ جائے گا۔۔۔گوادر بندر گاہ بھی رک جائے گی اور سی پیک کا رستہ بھی کھو جائے گا اور دیوہیکل معاشی چین کی جگہ صرف وہ چین رہ جائے گا جسے قدم قدم پر امریکی مدد کی ضرورت پڑے گی ۔۔ بحر ہند کے پانیوں پرامریکی جال میں آنے کی بجائے اگر سشما سوراج اپنے سے پہلے یشونت سنہا کے ان ریمارکس کو پڑھ لیں تو انہیں بہت کچھ سمجھ آ جائے گا:
China and India try to ensure that each has sufficient strategic space۔۔۔۔اور پھر1999 میں وزیر خارجہ جسونت سنگھ کے وہ تاریخی الفاظ جو انہوں نے بحر ہند میں ممکنہ چین بھارت تصادم پر کہے تھے How do you alter geography? We are neighbours ۔۔۔۔!!