لکھنے اور بولنے والے کو عوامی امنگوں کو ملحوظ رکھنا ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ میڈیا ایک مچھلی ہے ، جو عوامی امنگوں کے سمندر میں جیتی ہے ۔ عوامی امنگوں کو ملحوظ رکھنے ہی سے مقبولیت (Rating)ملتی ہے ۔ عملاً جو ہو رہا ہے ، وہ یہ کہ ریٹنگ کے علاوہ باقی سب عوامل نظر انداز کر دئیے گئے ہیں ۔جس شخص کو بولنے اور نشر کرنے کا موقع دیا جاتاہے ،اسے ذمّے دار ہونا چاہیے ۔ عقل کی بات کرنی چاہیے ۔
و ہ پروگرام سب سے عمدہ مثال ہیں ، جن میں مختلف اشیا بنانے والے کارخانوں اور دکانوں سمیت خرید و فروخت کے مراکز پر اچانک چھاپا مارا جاتا ہے ۔ جن لوگوں نے کبھی کوئی کاروبار شروع کرنے کی کوشش کی ، وہ جانتے ہیں کہ کاروبار کا آغاز دردِ زہ سے گزرنے کے مترادف ہے ۔ اوّل تو جو 90فیصد افراد کوئی کام شروع کرنے کا سوچتے ہیں، ان کے پاس سرمایہ ہی نہیں ہوتا ۔ کسی نہ کسی طرح اگر سرمائے کا بندوبست کر لیا جائے تو پھر انہیں اپنے منصوبے اور زمینی حقائق کے درمیان موجود بہت بڑی خلیج کو پاٹنا ہوتا ہے ۔ جن لوگوں کو اپنے ہاں ملازمت دی جاتی ہے ، ان کی تنخواہوں کا بندوبست کرنا ہوتا ہے ۔اس کے بعد بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ سے نمٹنا ہوتا ہے ۔ کسی نہ کسی طرح ، سب مصیبتوں سے گزر کر آپ کاروبار کا آغاز کرتے ہیں۔ ساتھ ہی کیمرے سر پہ اٹھائے ایک مخلوق آ ٹپکتی ہے ۔ '' یہ دیکھیے ناظرین ، اس شخص کا منہ دیکھیے ، یہ کیلے درجن کی بجائے کلو کے حساب سے بیچ رہا ہے‘‘۔ فرض کیجیے کہ میں نے ایک کارخانہ لگایا ہے۔ اس میں صفائی کا انتظام ناقص ہے ۔ اس پر مجھے جرمانہ ہو سکتاہے لیکن اس کا یہ مطلب کیسے ہو گیا کہ میرا چہرہ بھی ٹی وی پر دکھایا جائے گا ۔ ساری زندگی کے لیے مجھے بدنام کر دیا جائے گا ۔ کیا ہم سب کے گھرویسے ہی صاف ستھرے ہیں ، جیسا کہ ہونے چاہئیں ۔
حیرتوں کی حیرت یہ کہ اس معاشرے میں ایک دم یورپین سٹینڈرڈ کی صفائی طلب کی جارہی ہے ، جہاں بچّے کھلے مین ہول میں گر کے مر جاتے ہیں۔2012ء میں پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں ناقص دوا کی بدولت 100افراد جان کی بازی ہار گئے۔سرکاری ہسپتالوں میں مریض خود ہی ایک ہاتھ سے اپنی ڈرپ پکڑ کر لیٹے ہوتے ہیں ۔ ایک دن راولپنڈی میں ، میں نے سرکاری گاڑیاں دیکھیں۔ ان پر جلی حروف سے لکھا ہوا تھا : ملاوٹ کی اطلاع دیجیے اور ایک لاکھ روپے انعام پائیے ۔ ہم پنگے باز قسم کے لوگ ہیں۔ روزانہ ہزاروں فون گیارہ بائیس والوں کو شوقیہ طور پر کر دیتے ہیں۔ ہر شخص پر تین مقدمے قائم ہیں اور تین اس نے دوسروں پر قائم کر رکھے ہیں ۔لوگ خود اپنی زمین بیچ کر پھر اپنے رشتے داروں کو مقدمہ کرنے کا مشورہ دیتے ہیں کہ وراثتی زمین میں ان کا بھی حصہ تھا۔ لوگوں میں ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کا شدیدرجحان پایا جاتا ہے ، خصوصاً دیہات میں ۔ یہ تو لوگوں کو اکسانے والی بات ہے کہ کسی بھی کارخانے میں گھس کر خود ہی ملاوٹ والی چیز رکھ دو اور پھر فوڈ اتھارٹی والوں کو فون کر دو ۔
ملاوٹ کی نشاندہی کرنے والی ایک خاتون اور ایک مرد افسر کی سوشل میڈیا پر جاری ہونے والی وڈیو یاد آئی۔ دونوں ایک دوسرے پر حلق پھاڑ کر چیخ رہے تھے۔ وہ کہہ رہی تھی'' یہ میرا علاقہ ہے ‘‘ افسر کہہ رہا تھا '' نہیں ، یہ میرا علاقہ ہے ‘‘ ۔ سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ جس کا بھی علاقہ ہے ، آپ میڈیا کو کس خوشی میں ساتھ لیے پھر رہے ہیں ؟ آپ کو جرمانہ کرنے کا اختیار ہے ، لوگوں کو بدنام کرنے کا نہیں۔ایک نجی ریستوران کی انتظامیہ نے سوشل میڈیا پر وڈیو جاری کی۔ انہوں نے کہا کہ دیکھیے کس قدر زیادتی ہے کہ وہ گھنٹہ بھر ہمارے کچن کی تلاشی لیتے رہے۔ایک ایک دراز انہوں نے کھول کر دیکھی۔ جب کہیں سے کچھ قابلِ اعتراض نہ ملا تو کوڑے دان میں سے ایک گلا ہوا ٹماٹر نکال کر ہمارا چالان کر دیا ۔کیا ہمارے گھروں میں کبھی کوئی گلا ہوا ٹماٹر کوڑے دان میں نہیں پھینکا جاتا ؟ جو ملاوٹ دکھانے والے پروگرام ہیں ، ان کی روزی روٹی کا دارومدار اس بات پر ہے کہ وہ سب کو دھوکے باز ثابت کریں ۔ اس پر نہیں کہ وہ کسی کو شاباش بھی دیں کہ اس شخص نے صفائی کا بہت اہتمام کیا ہے ۔
نویں جماعت کا ایک طالبِ علم یاد آیا۔ اس اس نے اپنے اغوا ہونے کا ڈرامہ کیا تھا ۔ پولیس نے با آسانی اسے ڈھونڈ نکالا، غالباً موبائل فون کے سگنل کی مدد سے ۔ اس کا چہرہ ٹی وی پر دکھایاگیا اور خوب اچھی طرح ۔ سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ نویں جماعت کے طالبِ علم میں کتنی عقل ہوتی ہے ؟ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اسے اور اس کے والدین کو سمجھایا جاتا کہ جو مسائل ہیں ، وہ سلجھائے جائیں ۔ یہ بہت بڑی غلطی تھی لیکن اتنی بڑی نہیں کہ ساری زندگی کے لیے اسے بدنام کر دیا جائے ۔ ہم میں سے بہت سے لوگ ٹین ایج میں غلطیاں کر تے رہے ہیں ۔ اگر ہمارے اعمال ٹی وی پر ہمارے چہروں کے ساتھ دکھائے جائیں تو کیسا ہو ؟
جرم و سزا والے پروگرام جس طریقے سے مزے لے لے کر ایک ایک داستان سناتے ہیں ، وہ اپنی جگہ ایک تماشا ہے ۔ کس کا کس سے تعلق قائم ہوا ۔ پھر کیسے قتل کی منصوبہ بندی کی گئی ۔ کیمرے اٹھا کر یہ حضرات تھانے پر دھاوا بول دیتے ہیں ۔ خدا ئی فوجدار بن کے ملزم پہ چڑھائی کر دیتے ہیں ۔'' کیوں کیا تم نے یہ جرم ؟‘‘ ۔ ''شرم نہیں آئی تمہیں ؟ ‘‘ بھائی آپ کس حیثیت میں ملزم پہ چڑھائی کر رہے ہیں ؟ اس کا معاملہ توعدالت اور قانون کے سپرد ہو چکا ۔ ہو سکتاہے کہ بعد میں وہ بے گناہ ہی ثابت ہو جائے۔ کیا پھر آپ اس چڑھائی پر اس سے معافی مانگیں گے ؟ بالکل نہیں ۔
ایک صاحب جج بن کر بیٹھ جاتے ۔ پھر آپس میں متحارب ساس بہو، بھائی بہنوئی اور اسی قسم کے رشتے دار ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالتے ۔پروگرام ختم ہونے لگتا تو وہ باقاعدہ ایک فیصلہ جاری کرتے ۔ کیا یہ قانون اور انصاف کا مذاق نہیں کہ ایک ہی پیشی میں اس قدر فوری ''انصاف ‘‘کر دیا جائے ۔
پھر ایک صاحب نمودار ہوتے ہیں ۔ باریش، ماتھے پر محراب کا نشان ۔ وہ فرماتے ہیں '' ناظرین میں ہوں طبِ یونانی کا ماہر ڈاکٹر تحقیق بن تخلیق ۔ میں نے ہائی بلڈ پریشر کی ایک ایسی دوا ایجاد کی ہے ، جس سے کینسر بھی ٹھیک ہو جاتا ہے اور اضافی چربی بھی گھل جاتی ہے ۔ ‘‘ ان کا لہجہ صاف چغلی کھا رہا ہوتا ہے کہ وہ میٹرک بھی نہیں ۔
ہاں ایک شخص واقعی اس قابل ہے کہ اس کا چہرہ کیمرے پر دکھایا جائے ۔ وہ ، جو جعلی عامل بن کر لوگوں کے مسائل حل کرتا پھرتا ہے ۔ ان کے مال اور ان کی عزت سے کھیلتا ہے ۔ یا وہ شخص ، جس نے کہیں سے ڈگری حاصل نہیں کی اور وہ لوگوں کا علاج کر رہا ہے ۔