پاکستانی عوام ان دنوں ایک ایسے الجھائو میں پڑے ہوئے ہیں جو نہ کھلتا نظر آتا ہے اور نہ ہی آگے بڑھتا ہوا۔ یہ وہیں کا وہیں ہے۔ عوام بھی وہیں کے وہیں کھڑے ہیں۔ یہ نہ کوئی معما ہے۔ نہ کوئی بجھارت ہے۔نہ کوئی پہیلی ہے۔ لیکن قوم کے دو بڑے لیڈر‘اپنے خیر خواہوں یا بد خواہوں کو‘مسلسل ایک ہی لفظ کا ہتھوڑا چلا کر چکر دینے میں لگے ہیں۔ جس کو موقع ملتا ہے وہ فوراً اپنے مداحوں کو جمع کر کے کہتا ہے'' وہ رہالاڈلا‘‘۔میڈیا سے تعلق رکھنے والے صحافی ایک دوسرے کی طرف دیکھتے ہوئے اشاروں سے پوچھتے ہیں'' وہ لاڈلا کس کا ہے‘‘؟ اچھے بھلے اور کہنہ مشق صحافیوں کو پتہ نہیں چلتا کہ ''وہ لاڈلا کون ہے‘‘؟ پھر سرگوشیوں میں ایک دوسرے سے کہتے ہیں '' میاں صاحب کے دو بیٹے ہیں۔دونوں ہی لاڈلے ہیں۔ سیاست میں ان کی سب سے پیاری بیٹی ‘ مریم نواز حد سے زیادہ لاڈلی ہیں لیکن اب وہ ایک معزز خاتون بن چکی ہیں۔اس عمر میں والد صاحب کے سوا ‘کوئی انہیں لاڈلی نہیں کہہ سکتا۔ گھر کے بزرگوں کا معاملہ اور ہے لیکن کوئی ایرا غیرا انہیں ایسا نہیں کہہ سکتا ۔اگر خاندان کا کوئی بزرگ اچانک قریب آجائے تو مریم بی بی کے سر پہ ہاتھ پھیرتے ہوئے دعا دیتا ہے ‘بیٹی تم سدا سکھی رہو‘‘۔
ایک بزرگ محبت سے '' بیس کروڑووٹروں کے وزیراعظم‘‘سے عاجزانہ اندازمیں کہتا ہے ''اے قوم کے نجات دہندہ!اگر آپ اپنے بیٹوں کو ہی لاڈلا کہہ رہے ہیں تو یہ نا انصافی ہے۔ آپ کی بیٹیاں بھی ہیں۔ وہ بھی ووٹر بن چکی ہیں۔ اگر آپ اپنی انتخابی مہم میں صرف بیٹوں کو لاڈلا کہہ رہے ہیں تو یہ ہرگز مناسب نہیں۔ووٹ کے حساب سے بیٹیاں بھی بھائیوں کے برابر ہیں ۔ اگر آپ بالغ بچوں کو‘ بطور ووٹر مخاطب کرنا چاہتے ہیں تو پھر آپ کو فرق بھی ملحوظ رکھنا چاہئے۔مناسب رہے گا کہ آپ ''وہ لاڈلا اور لاڈلی‘‘کہیں۔ یہ انصاف ہے‘‘۔
انصاف کا لفظ سنتے ہی میاں صاحب نے اپنے سر کے کھڑے ہوئے بالوں پر ہاتھ پھیرا۔ ان کا چہرہ سرخ ہو گیا۔انہوں نے گھورکر انگلی اٹھائی اور اس کا رخ‘ عدالت عظمیٰ کی طرف کرتے ہوئے کہا '' دیکھ رہے ہووہ کیا ہے؟‘‘
ادب و احترام سے بزرگ ووٹر نے سر جھکاتے ہوئے کہا'' اے بیس کروڑ پاکستانیوں کے عظیم لیڈر!جس طرف آپ نے اشارہ کیا ہے ‘ وہ تو عدالت عظمیٰ کی عمارت ہے‘‘۔
'' تمہیں خبر نہیں‘اس عدالت عظمیٰ میں ''بیس کروڑ ووٹروں کے وزیراعظم‘‘ کے ساتھ کیا سلوک کیا جا رہا ہے؟‘‘
یہ کہتے ہوئے '' بیس کروڑووٹروں کے وزیراعظم‘‘نے اپنے چاروں طرف مؤدب کھڑے پرستاروں کی جانب د یکھا اور ساتھ ساتھ کھڑے ‘طلال چوہدری اور دانیال عزیزایک دوسرے کا کوٹ کھینچتے ہوئے '' بیس کروڑووٹروں کے وزیراعظم‘‘ کی طرف بڑھنے لگے۔طلال چوہدری کے بوٹ کا فیتہ کھل گیا ۔ ان کا پچھلا پائوں فیتے کے اوپر آگیا۔ وہ لڑکھڑائے تو ان کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے ‘دانیال عزیز بھی لڑکھڑائے۔ ابھی یہ دونوں سنبھل ہی رہے تھے کہ ''بیس کروڑ ووٹروں کے وزیراعظم‘‘ کی طرف پہلے آگے بڑھنے کی کشمکش میں‘ ایک دوسرے کے لباس سے الجھ گئے۔ ہجوم کی نفسیات اور ہوتی ہیں۔ان دونوں کو ہجوم کا اندازہ نہ تھا۔ بڑاعجیب منظر تھا۔اپنے محبوب لیڈر کی طرف بڑھتے ہوئے دونوں کے قدم بے قابو ہو گئے۔ ایک کی ٹانگ '' بیس کروڑ ووٹرو ں کے وزیراعظم‘‘ کے مداحوں میں پھنس گئی اور دوسرے کی ٹانگ‘ قریبی ہجوم میں جا پھنسی۔ان دونوں کے عقب والے ہجوم میں ‘پرویز رشید پھنسے ہوئے آواز دے رہے تھے۔ ''دانیال تم کدھر ہو؟‘‘ طلال چوہدری جو پڑوس کے ہجوم میں پھنسے ہوئے تھے۔ وہ پکارے کہ '' پرویز رشید! تم کدھر ہو؟‘‘ دانیا ل عزیز نے آواز لگائی'' طلال تم کدھر ہو؟‘‘ ہر طرف سے آوازیں آرہی تھیں''تم کدھر ہو‘‘۔ہجوم بڑھتا گیا۔ ''بیس کروڑ ووٹروں کے وزیراعظم‘‘ اپنے پرستاروں کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے‘ ہجوم کے آخری کنارے پر جا نکلے۔کسی کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ ہجوم نے ان کے محبوب لیڈر کو کہاں چھپا لیا ہے؟
عقب میں ایک دوسرا ہجوم تھا‘ جس نے عمران خان کو اپنے کندھوں پر اٹھا رکھا تھااور وہ نعرے لگا رہے تھے ''ساڈا لاڈلا۔۔۔ عمران خان‘‘۔
'' بیس کروڑووٹروں کے وزیراعظم‘‘ کو ان کے پرستاروں نے گھیرا ہوا تھا ۔ وہ نعرے لگا رہے تھے''ساڈالاڈلا۔آوے ای آوے‘‘ ۔
جواب میں دوسرے ہجوم کی طرف سے نعرہ بلند ہوا'' ساڈا لاڈلا آوے ای آوے‘‘۔
سڑک پر ٹریفک میں پھنسے ہوئے عوام کی طرف سے نعرہ بلند ہوا''اپنا اپنا لاڈلالے کر نکل جائو تاکہ ہم اپنے گھروں کو جانے کے قابل ہوں‘‘۔