تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     04-01-2018

افغان طالبان کے خلاف نئی بلیک وا ٹر

ریمنڈ ڈیوس کا نام سامنے آتے ہی ذہن میں فوری طور پر سی آئی اے کی بلیک واٹر سامنے آجاتی ہے۔ امریکہ ہر جگہ چونکہ ایک نئے نام سے سامنے آتا ہے اس لئے افغانستان میں امریکی سی آئی اے افغان طالبان اور پشتونوں کے خلاف پراکسی ملیشیا استعمال کر رہی ہے۔ افغانستان نے صوبہ خوست میںKPF کے نام سے خوست پروٹیکشن فورس اور ASG یعنی افغان سکیورٹی گارڈز اورKSF کے نام سے قندھار سٹرائیک فورس قائم کر رکھی ہے۔ ان فورسز کو امریکی انسٹرکٹرز تربیت دے رہے ہیں اورخوست، قندھار اور کچھ دوسرے افغان صوبوں میں ایسی تمام پشتون آبادیوں اور چھوٹے موٹے کام کرنے والوں اور مزدوری کیلئے نکلنے والے پشتونوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے جن کا افغان طالبان یا کسی بھی عسکری گروپ سے دور دور تک کا تعلق بھی نہیں ہوتا ۔ایسے ہی قندھار سے ملحقہ ایک گائوںسے دو بچیاں اور میاں بیوی قریبی ہسپتال جانے کیلئے قندھار سے نکلے ہی تھے کہ بد قسمتی سے ماں ان بچیوں کو لے کر ایک اوٹ میں چلی گئی اور موسیٰ خان نام کا ان بچیوں کا باپ اکیلا ہی آگے کی جانب چلنے لگا، کچھ دور چلنے کے بعد وہ ایک جگہ رکا تاکہ اپنے بیوی بچوں کو ساتھ لے سکے کہ اتنے میں قندھار سٹرائیک فورس کے لوگوں کی گاڑی اچانک کسی طرف سے نکلی جنہوں نے اسے روکا اور پھر اس کے بیوی بچوں اور اسے اپنے ساتھ بٹھا کر لے گئے۔ آج تک نہ تو اس پشتون کا کچھ پتہ چلا اور نہ ہی اس کی بیوی اور دو بچیوں کی کوئی خبر مل سکی ۔ ان کے رشتہ دار ان رستوں پر انہیں نہ جانے کب سے ڈھونڈ ڈھونڈ کر تھک گئے ہیں۔ صرف اتنا پتہ چلا کہ سٹرائیک فورس والوں کی گاڑی ان کے پاس رکی تھی اور آج تک ان بے چاروں کا کوئی پتہ نہیں چل سکا کہ وہ کہاں ہیں۔ یہ کوئی ایک واقعہ نہیں ہے بلکہ اس قسم کے بے شمار واقعات امریکی سی آئی اے کی بلیک واٹر طرز پر قائم کی گئی خوست اور قندھار ملیشیا فورسز کے ہاتھوں انجام پا رہے ہیں اور یہ سب کچھ وہ بے خوف و خطر کئے جا رہے ہیں جبکہ ان کی دھاک بٹھانے کیلئے اگلے دن افغان میڈیا پر بتایا جا تاہے کہ فلاں مقام پر اتنے دہشت گرد وںاور ان کے حامیوں کو افغان فورسز نے زبر دست مقابلے کے بعد ہلاک کر دیا ہے۔ 
سی آئی اے کی قائم کی گئیں سٹرائیک فورسز کی کمان کہیں پر امریکی سی آئی اے سے متعلق بلیک واٹر ز پر مشتمل بدنام زمانہ ایجنٹوں کے پاس ہے تو کہیں اس علا قے کے نامی گرامی ڈاکوئوں اور سمگلروں کے سپرد کی گئی ہے۔سب سے خطرناک بات جو دیکھنے میں آ رہی ہے وہ ان فورسز میں شامل کئے گئے ایسے جرائم پیشہ افراد کی بھر مار ہے جن میں منشیات کی سمگلنگ ، عورتوں کی تجارت سے تعلق رکھنے والے اور اپنے اپنے علاقوں کے بدنام زمانہ، قتل و غارت اور تاوان کیلئے اغوا کرنے والے اور اسلحہ کی سمگلنگ میں ملوث لوگ شامل ہیں۔ اس وقت تک لوٹ مار اور ڈاکہ زنی کی بے شمار وارداتیں ان کے ہاتھوں سے کی جا چکی ہیں۔ پاکستان کی طرف جانے اور وہاں سے آنے والے مختلف پھلوں اور تجارتی سامان سے لدے ہوئے ٹرک تو قندھار سٹرائیک فورس کی من پسند خوراک بن چکے ہیں ۔سی آئی اے کی اس ملیشیا فورس میں چونکہ افغان وار لارڈز کے فراہم کئے گئے لوگ بھی شامل ہیں‘ اس لئے انہیں کھلی چھٹی ملی ہوئی ہے کیونکہ ان کا براہ راست تعلق امریکی سی آئی اے کے Case Officer کے ساتھ چلا آ رہا ہے جنہیں افغان حکومت اور اس سے وابستہ لوگ کسی صورت بھی ناراض کرنا نہیں چاہتے۔۔۔اور یہ تو کسی کو بھی بتانے کی ضرورت نہیں کہ افغانستان میں جس کسی کابھی تعلق امریکی سی آئی اے سے ہے وہ ہر قسم کے قانون سے با لاتر ہے ۔اس کی جانب کوئی دیکھ بھی نہیں سکے گا ۔
خوست پروٹیکشن فورس، افغان سکیورٹی گارڈز اور قندھار سٹرائیک فورسزکے نام سے قائم سی آئی اے کی پراکسی ملیشیا کو صرف سی آئی اے ہی نہیں بلکہ افغانستان میں موجود نیٹو فورسز بھی اپنے مقاصد کیلئے اس طرح استعمال کرنا شروع ہو گئی ہیں کہ جیسے ہی انہیں کہیں سے یہ اطلاع ملتی ہے کہ فلاں آبادی یا فلاں گھر میں افغان طالبان رہ رہے ہیں یا ان کا وہاں آنا جا نا ہے یا انہیں اپنے کسی مخبر سے اطلاع ملتی ہے کہ وہ فلاں گھر میں رہ کر چلے گئے ہیں تو پھر وہ اس گھر کی خواتین، ان کے بچوں اور بوڑھے یا بیمار مردوں کو خود اٹھانے کیلئے نہیں جاتے بلکہ یہ کام وہ اس ملیشیا فورسز سے لیتے ہیں تاکہ ان پر ہیومن رائٹس کی خلاف ورزی کے براہ راست ثبوت نہ لگا ئے جا سکیں۔
امریکہ کروڑوں ڈالر خرچ کرتے ہوئے قندھار سٹرائیک فورس کو قندھار میں ہی نہیں بلکہ زابل اور اردگان میں بھی پھیلا چکا ہے بلکہ اب تو یہ حالت ہو چکی ہے کہ افغان حکومت بھی اس کی مجرمانہ کارروائیوں سے تنگ آ چکی ہے اور پشتون عوام کا ان غنڈہ فورسز کے خلاف احتجاج بڑھتا جا رہا ہے اور اشرف غنی سمیت دوسرے افغان سیاستدان خوف کھائے جا رہے ہیں کہ کل کو ہمیں ان علا قوں سے ووٹ نہیں مل سکیں گے اور دوسرا خواتین اور نو عمر لڑکوں کے اغوا سے پشتونوں کی بڑی تعداد رضا کارانہ طور پر ان کا مقابلہ کرنے کیلئے افغان طالبان کے ساتھ ملتی جا رہی ہے۔
کچھ عرصہ پہلے کرسچیئن سائنس مانیٹر کے نمائندے نے قندھار سٹرائیک فورس کے سابق کمانڈر اٹل افغان زئی جس نے خود کو قندھار اور اردگان کا ڈان سمجھا ہوا تھا‘ ایک دن سب کے سامنے ایک سینئر پولیس افسر کو معمولی سی بات پر قتل کر دیا ۔۔ اس قتل نے پوری پولیس فورس میں آگ لگا دی جس پر سی آئی اے نے اپنے قدم پیچھے ہٹا لئے کیونکہ معاملہ ایک سینئر پولیس افسر کے قتل کا تھا جس پر کابل میں بیٹھے ہوئے صدر بھی بلبلا اٹھے اور اٹل افغان زئی کو گرفتار کر لیا گیا ۔۔۔ کرسچئین سائنس مانیٹر کی یہ گفتگو اس سے جیل میں ہی ہوئی جہاں اس نے بتایا کہ ان کی فورس کو سی آئی اے کا کیس آفیسر براہ راست ادائیگیاں کرتا تھا اور جن کو ہم اس فورس میں بھرتی کرنے کیلئے بلاتے تھے یہ افسر انہیں خود منتخب کرتا تھا ۔۔۔اور جب بھی ہم سے سی آئی اے کے لوگ کوئی کارروائی کراتے تو اس کیلئے ہمیں امریکی ہاک ہیلی کاپٹرز میں اس مقام تک یا اپنے کسی ٹارگٹ کے قریب اتار دیتے اور ہم نے سی آئی اے کی ہدایات پر بہت سے آپریشن افغانستان کی صوبائی حکومتوں کے خلاف بھی کئے ہیں اور وہ یہ جانتے ہوئے بھی خاموش رہے ۔۔۔اٹل افغان زئی نے کابل حکومت کی امریکہ کے سامنے بے بسی کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں قندھار کے قریب GECKO کے وسیع و عریض کیمپ میں رکھا گیا جسے اسامہ بن لادن نے 1996 میںا پنے اور القاعدہ کے سینئر لوگوں کیلئے تعمیر کیا تھا۔
کابل کو جب قندھار سٹرائیک فورس کے بارے میںماورائے عدالت قتل‘ تشدد اور آبروریزیوں کے نا قابل تردید ثبوت ملنا شروع ہو گئے تو ایک جانب لوگ ان کے خلاف سڑکوں پر نکل کھڑے ہوئے تو دوسری طرف طالبان کیلئے ہمدر دیاں یک لخت بڑھنا شروع ہو گئیں جس پر قندھار سٹرائیک فورس کے40 غنڈوں کو گرفتار کرتے ہوئے ان کیخلاف نا قابل تردید ثبوت سامنے لاتے ہوئے انہیں مختلف میعاد کی قید کی سزائیں دیتے ہوئے جیلوں میں بند کر دیا گیا۔۔۔لیکن وہ سی آئی اے ہی کیا جو باز آ جائے اور اس نے افغان سکیورٹی گارڈز کے نام سے کام شروع کر دیا ۔۔۔۔سب سے دلچسپ اور حیران کن بات یہ ہے کہ سی آئی اے کی خوست، قندھار اور افغان سکیورٹی گارڈز کے نام سے مار دھاڑ کرنے والی بلیک واٹر طرز پر بنائی گئی ملیشیا کے بارے میں کسی بھی مغربی یا امریکی میڈیا نے آج تک خبر نہیں دی سوائے برطانیہ کےIndependent اور امریکہ کے کرسچین سائنس مانیٹر کے ۔اور ان دونوں اخبارات میں سی آئی اے ملیشیا کے متعلق رپورٹJULIUS CAVENDISH نامی ایک ہی صحافی کی لکھی ہوئی ہے۔۔۔۔یہ خدشات بھی ظاہر کئے جا رہے ہیں کہ قندھار سے ملحقہ پاکستان کے سرحدی علا قوں میں سی آئی اے کی قندھار سٹرائیک فورس ہی مصروف عمل ہے۔ ۔۔ !!

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved