تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     04-01-2018

یہ سب کیوں ہورہا ہے ؟

انسانی دماغ میں تجسس کچھ اس طرح سے رکھا گیا ہے کہ ہر نئی چیز کی طرف یہ لپکتا ہے ۔ وہ چیز جسے یہ پہلی بار دیکھتا ہے ۔ آپ ایک سال کے بچے کو ایک پلاسٹک کی گیند دیں ، جس کے اندر چمکدار روشنیاں جل بجھ رہی ہوں ۔ وہ بے تابی سے اسے پکڑ کر اس کا جائزہ لیتا رہے گا۔ آپ اس سے واپس لیں تو دے گا نہیں اور اگر زبردستی لیں تو روئے گا ۔ یہی گیند چند روز اس کے پاس رہنے دیں۔ بالآخر وہ اسے ایک طرف پھینک دے گا۔ یہ تجسس ہی ہے ، جو کہ ہر خوبصورت نظر آنے والی چیز کی طرف لپکتا ہے ۔ کھوج لگانے پر آمادہ کرتا ہے ۔ جب ہم بڑے ہو جاتے ہیں تو روشنیوں والی گیند کی جگہ دولت، عورت اور دوسری چیزیں لے لیتی ہیں ۔ یہی تجسس ہے جو کہ انسان کو کائنات کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جاننے پر مجبور کرتا ہے ۔ یہ کائنات کب بنی؟ کیسے بنی ؟ آغاز کب اور کیسے ہوا؟ انجام کیا ہے ؟ پھر الہامی کتاب میں ایک ہستی ، جو کہ نظر نہیں آتی ، وہ یہ فرماتی ہے کہ میں نے ہی یہ سب کچھ بنایا۔جہاں اور جب اس کا دل چاہتا ہے ، خدا اس کائنات پہ تبصرہ کرتا ہے ؛حتیٰ کہ وہ یہ فرماتا ہے : ابتدا میں زمین وآسمان ملے ہوئے تھے ۔ پھر ہم نے پھاڑ کر انہیں جدا کر دیا۔ پھر وہ خدا تحقیق کرنے والوں سے ، سوچنے اور غور و فکر کرنے والوں سے ڈرتا نہیں بلکہ ان کی حوصلہ افزائی کرتاہے ۔ مظاہرِ فطرت کا ذکر کرتے ہوئے،بار بار وہ فرماتا ہے :اس میں عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں ۔ اپنے پسندیدہ بندوں کے بارے میں وہ فرماتا ہے کہ وہ زمین و آسمان کی تخلیق پہ غور کرتے رہتے ہیں ۔ پھر وہ کہتا ہے کہ زمین وآسمان کی تخلیق میں نشانیاں ہیں ۔ وہ کہتا ہے کہ بارش میں نشانی ہے ۔ وہ کہتا ہے کہ جانوروں میں نشانی ہے ، جن سے تم فائدہ اٹھاتے ہو ۔ 
جیسا کہ پہلے عرض کیا، تجسس ہر نئی چیز کی طرف متوجہ ہوتا ہے ۔ وہ مظاہر جو روزانہ کی بنیاد پر وقوع پذیر ہو رہے ہوتے ہیں ، ان سے اس کا دل بھر جاتا ہے ۔ اس نیلے سیارے پر کچھ چیزیں ایسی وقوع پذیر ہو رہی ہیں جنہیں کائنات کا سب سے خوبصورت اور سب سے بڑا معجزہ کہا جا سکتاہے ۔ ہمیں ان میں کوئی خاص دلچسپی محسوس نہیں ہوتی ۔ وجہ یہ ہے کہ لاکھوں سالوں سے ہم انہیں دیکھ رہے ہیں ۔ ان کے عادی ہو گئے ہیں ۔ روز روز وقوع پذیر ہونے کی وجہ سے ہمارے دماغوں میں ان کے لیے کوئی خاص کشش باقی نہیں رہی ۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ ہم ان چیزوں کے بارے میں کوئی خاص علم نہیں رکھتے ۔ ہم روز سورج کو مشرق سے ابھرتا دیکھتے ہیں ۔ ہمارا خیال یہ ہے کہ وہاں آگ جل رہی ہے اور اس سے ہمیں حرارت حاصل ہو رہی ہے ۔ ایک کم پڑھا لکھا یا نا خواندہ ذہن یہ نہیں جانتا کہ وہاں ہائیڈروجن کے ایٹم فیوژن کے عمل سے گزر کر ہیلیم میں تبدیل ہو رہے ہیں۔ہر سورج ایک ایسی کائناتی بھٹی ہے ، جس میں عناصر تخلیق ہوتے ہیں۔ہم نہیں جانتے کہ سورج میں ہیلیم کے ایٹم مزید بھاری عناصر میں تبدیل ہو رہے ہیں ۔ ہم یہ نہیں جانتے کہ ایک دن سورج کی ساری ہائیڈروجن ختم ہو جائے گی ۔ پھر اس کی موت کا آغاز ہوگا۔ یہ موت بھی کروڑوں سالوں میں بتدریج آئے گی ؛حتیٰ کہ وہ بجھ جائے گا ۔ 
یہی معاملہ ماں کے پیٹ میں بچے کی پیدائش کا ہے ۔ کرّہ ء ارض پر کھرب ہا کھرب کی تعداد میں مائوں کے پیٹ میں بچہ دانیاں نصب ہیں ۔اندازہ اس سے لگائیے کہ صرف انسانوں کی تعداد آج سات ارب ہے ۔ اس میں پچاس فیصد خواتین ہوں تو آپ کہہ سکتے ہیں کہ ساڑھے تین ارب بچّے دانیاں صرف انسانوں میں پائی جاتی ہیں ۔یہ صرف ایک جاندار کی تعداد ہے ۔ 87لاکھ مخلوقات (species)ہمارے علاوہ ہیں ۔یعنی 87لاکھ مخلوقات میں سے 1مخلوق کے ارکان کی تعداد 7ارب ہے ۔ اگر آپ خرگوشوں کو گننے کی کوشش کریں تو شاید یہ ممکن ہی نہ ہوگا۔ ان بچّہ دانیوں میں بچوں کے اعضا اس طرح سے بنتے ہیں ، جیسے کہ یہ کوئی بڑی بات نہ ہو ؛حالانکہ انسان اپنی تمام تر ترقی کے بعد آج بھی اس قابل نہیں ہو سکا کہ کسی شخص کا خراب ہو جانے والا گردہ ، جگر یا دوسرے اعضا لیبارٹری میں تیار کیے جاسکیں ۔ گوکہ سٹیم سیلز سے اعضا بنانے کی طرف پیش رفت ہو چکی ہے لیکن کرّۂ ارض پہ موجود مادائوں کے پیٹوں میں موجود کھربوں بچہ دانیاں تو اس طرح بچوں کے اعضا تخلیق کرتی ہیں ، جیسے کہ یہ کوئی کام ہی نہیں ۔ اس کثرت سے بچوں اور ان کے اعضا (Organs)کی تخلیق نے اس عمل میں کشش ختم کر دی ہے ۔آج سب جانتے ہیں کہ ماں کے پیٹ میں 9ماہ میں بچّہ بنتا اور پلتا ہے اور پھر وہ اسے جنم دے دیتی ہے ۔ جو لوگ اس عمل کو زیادہ قریب سے دیکھتے ہیں ، یعنی سائنسدان وہ نہ تو سورج کے اندر ہونے والے تعامل کو معمولی چیز سمجھ سکتا ہے اور نہ ہی ماں کے پیٹ میں بچّہ بننے کے عمل کو۔ وہ تو جب بھی انہیں دیکھے گا، حیرت سے دیکھتا رہ جائے گا۔ وہ جب بھی آسمان کی طرف نظر اٹھائے گا، ستاروں کو دیکھتا رہے گا۔ لوگ اسے دیکھ کر مسکرائیں گے ۔ وہ کہیں گے کہ یہ تو سٹھیا گیا ہے ۔لوگ اپنی جگہ سچے ہیں اور سائنسدان بیچارہ اپنی جگہ درست ہے۔ 
اس بارے میں ذرا غور کریں تو یہ کتنا دلچسپ ہے ۔ ایک نر خلیے کا ایک مادہ خلیے کو بارآور کرنا۔ پھر اس نئے خلیے کا دو میں تقسیم ہونا ۔ دو سے چار، چار سے آٹھ ؛ حتیٰ کہ مرکزی اعصابی نظام یعنی دماغ جمع ریڑھ کی ہڈی بن جانا اور اس کے بعد مختلف اعضا کی تشکیل شروع ہو جانا۔ ہر خلیے کو معلوم ہے کہ اسے ٹانگ کا حصہ بننا ہے یا ناک کا ۔جلد بھی اسی عمل کے دوران بنتی ہے ، جس سب سے اعضا میں سے سب سے بڑا عضو کہا جاتا ہے ۔ اسی عمل کو سمجھ کر انسان لیبارٹری میں اعضا بنانے کی طرف پیش رفت کر رہا ہے ۔ انسانی جسم میں سٹیم سیل ایسے خلیے ہوتے ہیں ، جوایک جیسے ہوتے ہیں لیکن وہ خلیے ہر عضو بناسکتے ہیں ۔ ٹانگ بھی انہی سے بنتی ہے اور بازو بھی ۔ سائنسدان یہ کوشش کر رہے ہیں کہ ہم بھی کسی انسان کے جسم سے سٹیم سیلز لیں ۔ پھر اس سے اگر چاہیں تو اس کی ضائع ہو جانے والی ٹانگ بنا لیں یا چاہیں تو اس کا ناکارہ ہو جانے والا گردہ ۔ اس کے بعد یہ عضو ، جو کہ مریض ہی کے جسم سے خام مال لے کر بنایا گیا ہے، اس کے جسم میں نصب کر دیا جائے۔ یوں جسم کا قدرتی مدافعاتی نظام بھی مطمئن رہے گا اور اسے اپنا حصہ سمجھ کر قبول کر لے گا۔ جب کسی اور شخص کے جسم سے عضو لے کر مریض کو لگایا جائے تو اس کا قدرتی مدافعاتی نظام اسے دشمن سمجھ کر پوری قوت سے اس کے خلاف لڑنا شروع کر دیتا ہے ۔ اب جس شخص کا اپنا جسم اپنے خلاف ہی لڑ رہا ہو ،اس بیچارے نے بھلا کیا زندگی گزارنی ہے ۔ 
کبھی ہمیں ان چیزوں کو بھی پڑھنا چاہیے اور یہ سوچنا چاہیے کہ یہ سب جو اس زمین پر ہو رہا ہے ، یہ کیوں ہو رہا ہے !

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved