مستقبل کے وزیراعظم نے امریکہ اور پاکستانی شہریوں کو بیک وقت دھمکی اور سہارا دیا ہے۔دھمکی امریکہ کو اور سہارا پاکستان کے محنت کشوں اور مزدوروں کو۔کاش یہ دونوں کام ان کے اختیار میں ہوتے۔ امریکہ جو33ارب ڈالر کا حساب مانگ رہا ہے‘ مستقبل کے وزیراعظم نے اپنی تقریر میں ایسی کوئی بات نہیں کی‘ جس سے امریکیوں کے ذہن میں یہ امید پیدا ہوتی ہو کہ ان کی ڈوبی ہوئی رقم مستقبل کے وزیراعظم آتے ہی ادا کر دیں گے۔ ہماری وفاقی اور صوبائی حکومت دونوں کی مشترکہ عادت ہے کہ وہ کسی کو بھی مایوس نہیں لوٹاتے۔چند روز پہلے امریکی صدر‘ ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک ٹویٹر پیغام میں دھمکی دی کہ ہم نے پاکستان کو دہشت گردوں سے لڑنے کی جو ذمہ داری سونپی تھی‘ اس کے عوض بھاری رقم بھی دی۔ لیکن پاکستان نے دہشت گردوں سے نمٹنے کا جو وعدہ کیا تھا‘ وہ پورا نہیں ہوا۔ معاوضے کے طور پر زرمبادلہ کی صورت میں ہمارے 33ارب ڈالر پاکستان کی طرف واجب ہو گئے۔موجودہ حکومت پاکستان نے تو جس کے وزیرخارجہ‘ خواجہ آصف ہیں‘ نے امریکیوں کو یہ تو نہیں بتایا کہ وہ کب اور کتنے عرصے میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنی کارکردگی دکھا سکتے ہیں لیکن گھڑا گھڑایا جواب دے کر اتنا ضرور کہہ دیا کہ ''پیسوں کا ہمارے ساتھ حساب کر لیں‘‘۔یہ تھا جواب‘ ہماری حکومت کے موجودہ وزیر خارجہ کا۔
مستقبل کے وزیراعظم‘ سعودی عرب کے شاہی خاندان کی میزبانی سے لطف اٹھانے اور عمرہ کا ثواب حاصل کر نے کے بعد میدان عمل میں اترے۔ اورفرطِ غیرت سے سرخ آنکھوں کے ساتھ لاہور میں تقریر کرتے ہوئے شدید غصے کی حالت میںفرمایا ''70سال گزر گئے‘ آج ہم پر طعنے اور زہر آلود تیر برسائے جا رہے ہیں‘ جو جرنیلوں اور سیاست دانوں سمیت‘ ہر ایک کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ اس سے بہتر تو عزت کی موت ہے۔ امریکی صدر کا بیان ‘قومی وقار کے منافی اور عزت نفس مجروح کرنے کے مترادف ہے‘‘۔( خدا کا شکر ہے مستقبل کے وزیراعظم نے غیر ت مندی‘ قومی وقار اور عزت نفس مجروح ہونے جیسی باتیں کیں۔میں یہ پڑھ کر بہت خوش ہوا کہ مستقبل کے وزیراعظم‘ 70برسوں سے کسی بھی ملک سے لئے گئے قرضے کو نہیں بھولے) انہوں نے مائیک پر ہلکا سا تھپڑ رسید کرتے ہوئے اپنی خودداری پر لگی چوٹ کا اظہار یوں کیا '' اس سے بڑا اور کوئی لمحہ نہیں آیا جب اتنی دیدہ دلیری سے آپ کے وقار کا تیا پانچا کیا گیا۔ قصور ہمارا اپنا ہے۔33ارب ڈالر کی بھیک کے پیچھے رہے۔ اس کے اوپر اپنی عزت کا سودا کرتے رہے لیکن آج بھی ہوش کے ناخن لیں‘‘۔(اور موبائل فون کی ویڈیو سکرین پر لمبے ناخن دکھاتے ہوئے فرمایا اب ہم ہوش کے ناخن لے چکے ہیں۔ امریکی صدر کا چہرہ ایک تو ویسے ہی ناخنوں سے کھرچا ہوا لگتا ہے۔ہمیں امریکہ یا کسی اور ملک سے کوئی لڑائی نہیں لڑنی۔ میں آج ہی ناخن کٹوا رہا ہوں) مستقبل کے وزیراعظم نے مزید کہا''امریکہ بہت بڑی طاقت ہے۔ ہمیں عزت وو قار اور مشاورت کے ساتھ فیصلہ کرنا ہے‘‘۔(انہوں نے حاضرین کو تسلی دیتے اور آنکھ سے آنکھ ملاتے ہوئے دھمکی آمیز لہجے میں امریکی صدر سے کہا کہ ہم آپ کے ساتھ معاملات‘ عزت کے ساتھ طے کریں گے۔ آپ سے پیسے‘ امداد اور مزید قرض‘ عزت و آبرو کے ساتھ مانگیں گے)۔
مجھے اعتماد ہے کہ 70سال کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہمارے مستقبل کے وزیراعظم نئے قرضے اور نئی امداد مانگتے ہوئے‘ سینہ تان کر کھڑے ہوں گے اور امریکی صدر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں گے۔ مستقبل کے وزیراعظم کو آنکھیں لڑانے کا وسیع تجربہ ہے۔ وہ صرف اس ملک کے دورے پر جاتے ہیں‘جہاں آنکھیں اور چہرے خوب صورت ہوں۔ میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ وہ کسی افریقی ملک کے دورے پر جانا پسند نہیں کرتے۔ ہو سکتا ہے کبھی سائوتھ افریقہ چلے جائیں۔ اس کا جواز یہ ہے کہ وہاں انہیں آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے والے‘ بہت سے چہرے دکھائی دے جائیں گے۔
مستقبل کے وزیراعظم نے غیرت اور خودداری کا نمونہ پیش کرتے ہوئے اپنے حاضرین کو مخاطب کیا''روکھی سوکھی کھا لیں گے۔ کشکول اور مانگے تانگے کی زندگی میں عزت نہیں ملتی۔ سٹیک ہولڈرز سے مل کر مشاورت کے ذریعے فیصلہ کریں گے کہ ایسی امداد سے توبہ کر لیں۔ اس سے چھٹکارا حاصل کر یں جس سے صبح و شام طعنہ زنی ہو۔ اس چیز کا سامنا کرنا آسان نہیں ‘‘۔ (پوری قوم مستقبل کے وزیراعظم کی غیرت اور اکڑ فوں دیکھنے کا انتظار کرے۔انہیں کسی نے تنگ کیا تو بڑے بھائی جان‘فوراً انہیں گود میں لے کر‘ روس کے ویزے پر‘ کوہ قاف کی سیر کو نکل جائیں گے)۔