کبھی عجب طریق سے آدمی کی تقدیر بروئے کار آتی ہے۔ جانتے بوجھتے رسوائی اور ناکامی خریدتا ہے۔ سامنے کی سچائی بھی اسے نظر نہیں آتی۔ اللہ بڑا بے نیاز ہے۔
میاں محمد نواز شریف کی تگ و تاز انہیں کہاں لے جائے گی ؟ کہیں بھی نہیں۔ جسے وہ دریا سمجھ رہے ہیں ، وہ سراب ہے۔ ان کی سطحی آرزوئوں کے صحرا میں چمکتا ہوا۔
اپنی ناکامیوں کے لیے افواجِ پاکستان اور عدلیہ کو انہوں نے ذمہ دار ٹھہرایا۔ ایسے الزامات ان پر عائد کیے جن پر کوئی ثبوت وہ نہیں دے سکتے۔ عمران خاں کو اسٹیبلشمنٹ کا لاڈلا قرار دیا اور کوئی شواہد پیش نہ کیے۔ بھٹو کی طرح راز فاش کرنے کی دھمکی دیتے ہیں۔ اس پر عمل وہ کبھی نہ کر سکیں گے۔ اس لیے کہ دوسروں پہ الزام تراشی کریں گے تو خود ان کے کارنامے بھی منظرِ عام پر آئیں گے اور اس کے وہ متحمل نہیں۔
ایرانی شاعر نے کہا تھا :
دور ایک صحرا ہے، جس میں کچھ بھی نہیں اگتا
جس میں کوئی چیز حرکت نہیں کرتی سوائے موت اور ہوا کے
اور اقبالؔ نے یہ کہا تھا :
اس موج کے ماتم میں روتی ہے بھنور کی آنکھ
دریا سے اٹھی لیکن ساحل سے نہ ٹکرائی
ایک انگریزی اخبار نے لکھا ہے : نواز شریف کے لہجے میں اعتماد جھلک رہا تھا۔ جی ہاں، اسی لیے اخبار نویسوں کو سوالات کا موقع نہ دیا۔ جی ہاں ، اسی لیے سعودی عرب کے دورے پر بات کرنے کے روادار نہ ہوئے۔ صحافیوں کا سامنا وہ کیسے کرتے۔ اگر کوئی پوچھتا کہ اب تک لندن میں خریدی گئی جائیدادوں کا جواز وہ کیوں پیش نہیں کر سکے تو کیا جواب دیتے ؟
میاں صاحب کی کوشش یہ دکھائی دیتی ہے کہ اپنے حامیوں کی توجہ دولت کے انباروں سے ہٹائے رکھیں۔ اسی طرزِ عمل کے لئے ان کی مافیا میں اخبارنویسوں کی ایک بڑی تعداد شامل ہے۔ اسی لیے مرکز اور پنجاب میں ان کی حکومتیں میڈیا پہ ہن برساتی ہیں۔ نااہل قرار دیئے گئے لیڈر کا دردِ سر یہ ہے کہ کسی طرح بھی اپنے ووٹروں کی حمایت برقرار رکھیں۔ لوگ باگ باریکیوں پہ غور کرنے کے عادی نہیں ہوتے۔ پھر یہ کہ ان میں اپنی پسندیدہ شخصیات کا مؤقف قبول کرنے کی ایک آمادگی ہوا کرتی ہے۔ عربوں کا محاورہ یہ ہے ''العوام کالانعام‘‘ عام لوگ ریوڑوں کی مانند ہوتے ہیں۔ اپنی آرزوئوں ، امنگوں ، تعصبات اور افتادِ طبع کے اسیر۔
قابلِ اعتماد ذرائع جنجوعہ نواز شریف ملاقات کی تصدیق کرتے ہیں۔ اگرچہ آئی ایس پی آر اور شریف خاندان تردید پہ قائم ہیں۔ جنجوعہ صاحب محافظوں سے لدی تین گاڑیوں کے ساتھ جاتی امرا گئے۔ یہ ایسا مقام نہیں، ملاقات جہاں خفیہ رہ سکے۔ سینکڑوں ملازم ہیں اور سینکڑوں محافظ۔ ان سب سے زباں بندی کا وعدہ کیسے لیا جا سکتاہے۔ ناصر جنجوعہ کا مزاج یہ ہے کہ اگر ان کے دو چپڑاسیوں میں تلخی ہو جائے تو مصالحت کے لیے منت سماجت کر لیں گے۔ بظاہر یہ انہی کا آئیڈیا دکھائی دیتا ہے۔ اگر یہ فیصلہ فوجی قیادت نے کیا تو سادہ لوحی کی حد ہے۔
پاپوش میں لگا دی کرن آفتاب کی
جو بات کی خدا کی قسم لاجواب کی
لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانا کرتے۔ عدلیہ پر دبائو بڑھانے میں نواز شریف کامیاب رہے۔ ایک عدد وضاحت پیش کی گئی۔ ہرگز، ہرگز اس کی ضرورت نہ تھی۔ کوئی انصاف پسند عدالتوں پر شبہ نہیں کرتا۔ نواز شریف کو نااہل قرار دیا تو جہانگیر ترین کو بھی؛ حالانکہ پی ٹی آئی کے لیڈر نے لندن میں ٹرسٹ بنانے کے لیے سٹیٹ بینک سے اجازت لی تھی۔ اسی طرح حدیبیہ کیس میں ایسی نرمی کا شریف خاندان کے ساتھ برتائو ہوا کہ دیکھنے سننے والے دنگ رہ گئے۔ رعایت محض اس بات پر دے دی گئی کہ مقدمہ تاخیر سے دائر ہوا۔ تاخیر کی ذمہ داری حکومتوں پر تھی۔ اوّل جنرل پرویز مشرف کے ساتھ شریف خاندان کا سمجھوتہ، ثانیاً زرداری حکومت اور پھر شریف خاندان کا اپنا اقتدار۔ مقدمہ کون چلاتا ، تفتیش کون کرتا ؟
نواز شریف کے مطالبات مانے جا ہی نہیں سکتے۔ عسکری قیادت سے ان کا تقاضا یہ دکھائی دیتا ہے کہ کسی نہ کسی طرح سپریم کورٹ کا فیصلہ منسوخ کرایا جائے۔ یہ کیونکر ممکن ہے۔ قانون میں گنجائش ہو تو عدالتِ عظمیٰ خود ہی ایسا کر سکتی ہے۔ سات یا نو ججوں کا ایک بڑا بینچ بناکر۔ فوج اس معاملے میں کیوں دخل دے گی؟ کتنے نفلوں کا ثواب ہو گا؟ خود اس کا اور ملک کا اس سے کیا بھلا ہوگا؟ بالفرضِ محال عسکری قیادت چاہے بھی تو یہ معرکہ وہ سر نہیں کر سکتی۔ معاملہ فوج نہیں ، عدالت کے ہاتھ میں ہے۔ کوئی انتظامی مجسٹریٹ نہیں، یہ ملک کی سب سے بڑی عدالت ہے، جس کے ججوں کا شعار اب آزاد روی ہے۔ احمقوں، سطحی لوگوں اور بدگمانی کے ماروں کی بات دوسری ہے، عسکری قیادت اور عدالتوں کے تعلقات ایسے ہرگز نہیں کہ جی ایچ کیو فرمائش کی جسارت کرے۔ یوں بھی اپنے حق میں ایک ادنیٰ ثبوت بھی میاں صاحب رکھتے نہیں۔ کاش موصوف کے لیے ممکن ہوتا کہ خود چیف جسٹس بن جاتے، طلال چوہدری، دانیال عزیز، مشاہد اللہ خان، نہال ہاشمی اور رانا ثناء اللہ کو سپریم کورٹ کا جج بناتے اور باعزت بری ہو جاتے۔ اب تو بچّوں کی طرح فرمائش کیے جاتے ہیں۔ روتے اور چیختے چلاتے ہیں ''مجھے کیوں نکالا، مجھے کیوں نکالا‘‘۔ ان کی قسمت میں اب صحرا نوردی لکھی ہے۔
کون دیتا ہے دادِ ناکامی
خونِ فرہاد برسرِ فرہاد
پاکستان‘ بھارت کا ہمسایہ ہے۔ ہمیشہ سے اس کی سلامتی کے درپے رہا۔ آج حالات کچھ اور بھی خطرناک ہیں۔ ایک کے بعد واشنگٹن سے دوسری دھمکی۔ اپنا رونا رونے کی بجائے ،بدھ کی پریس کانفرنس میں نواز شریف اگر امریکی الزامات کا جواب دینے پر اکتفا کرتے۔ مضبوط لب و لہجہ اختیار کرتے تو ایک قوم پرست لیڈر بن کے ابھرتے۔ ان کی عزت بہت کچھ بحال ہو جاتی اور حمایت بھی۔ نرگسیت کے مریض کو یہ توفیق مگر کہاں؟
ٹی وی مباحثوں میں نون لیگ کے لیڈروں کو نواز شریف کی وکالت میں مشکلات کا سامنا ہے۔ بدھ کی رات کامران شاہد کے پروگرام میں زعیم قادری افواج پہ طعنہ زنی کرنے والوں کی مذمت کرتے رہے۔ اس پر ان سے عرض کیا کہ اب آپ نون لیگ میں کیا کر رہے ہیں ؟ یہی سوال چوہدری نثار علی خان سے بھی کیا جا سکتا ہے کہ اس وقت جب دشمنوں کی سازش عروج پر ہے، اس وقت جب قومی سلامتی کو خوفناک خطرات لاحق ہیں، آپ خاموش کیوں ہیں؟ آج نہیں تو کب بولیں گے؟ حبِ وطن کا تقاضا کیا ہے چوہدری صاحب؟ ایک خودغرض لیڈر یا مادرِ وطن؟
جس روز بڑے بھائی نے افواجِ پاکستان اور عدلیہ کے خلاف توہین آمیز لہجہ اختیار کیا، اسی دن کے اخبارات میں چھوٹے بھائی کا بیان موجود تھا: پوری قوم کو افواجِ پاکستان کی پشت پہ کھڑا ہونا چاہیے۔ نون لیگ کا مزاج ہی نہیں کہ ملک کی محافظ فوج سے متصادم ہو۔ وہ بھی ایسے وقت پر ، جب سرحدوں کے اندر دہشت گردی کے عفریت پھنکارتے ہیں۔ سرحدوں کے سامنے گدھ پَر پھیلائے کھڑے ہیں۔ تاریخ نواز شریف کو ایک ایسے لیڈر کے طور پر یاد رکھے گی، بدترین حالات میں جو وعدہ معاف گواہ بن گیا۔ نون لیگ میں اگر کچھ جرأت مند لوگ موجود ہیں تو انہیں نواز شریف سے بات کرنا ہو گی۔ انہیں سمجھانا ہوگا کہ اس روش سے وہ باز آئیں۔ دولت کی محبت میں خود کو تباہ کر ہی چکے، اپنی پارٹی کو بھی پست و پامال کریں گے۔
کبھی عجب طریق سے آدمی کی تقدیر بروئے کار آتی ہے۔ جانتے بوجھتے رسوائی اور ناکامی خریدتا ہے۔ سامنے کی سچائی بھی اسے نظر نہیں آتی۔ اللہ بڑا بے نیاز ہے۔