تحریر : رؤف طاہر تاریخ اشاعت     05-01-2018

’’خوش آئند‘‘

صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے نئے سال کے پیغام پر پاکستان کا جواب ایک خوددار‘پُراعتماد اور باوقار قوم کا جواب تھا۔ وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف نے ٹرمپ کے الزامات اور دھمکیوں کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اس بیان کا مؤثر جواب دیا جائے گا۔ اگلے روز کور کمانڈرز میٹنگ ہوئی‘ پھروزیراعظم کی زیرصدارت قومی سلامتی کمیٹی کا خصوصی اجلاس اور اس کے بعد وفاقی کابینہ کی میٹنگ ۔ جمعرات کی دوپہر‘ پارلیمنٹ کی قومی سلامتی کمیٹی نے ایک اور اجلاس منعقد کرنے کا فیصلہ کیا جس میں عسکری قیادت پاکستان کی سکیورٹی کے حوالے سے‘ جبکہ وفاقی وزارت خزانہ ملک کی اقتصادی صورتحال اور قومی معیشت پر امریکی پابندیوں کے اثرات پر بریف کرے گی۔
معزول وزیراعظم 2 جنوری کی شب سعودی عرب سے واپس پہنچے اور اگلے روز پریس کانفرنس میں امریکی صدر کو ان کا جواب تین بار وزارت عظمیٰ کا اعزاز رکھنے والے لیڈر کے شایان شان تھا۔ پاکستان کی برسرِاقتدار جماعت کے سربراہ نے امریکی صدر کو احساس دلایا کہ ایک آزاد و خودمختار ریاست کو مخاطب کرتے ہوئے انہیں بین الاقوامی سفارتی آداب و اخلاقیات کا خیال کرنا چاہیے تھا۔ انہوں نے یہ یاد دلانا بھی ضروری سمجھا کہ نائن الیون کے بعد ''دہشت گردی کی جنگ‘‘ میں پاکستان نے سب سے بھاری قیمت ادا کی‘ ایک ایسی جنگ جو ہماری اپنی نہیں تھی۔ انہوں نے مزید کہا‘ 2001ء میں پاکستان میں جمہوری حکومت ہوتی تو وہ اپنی روح اس طرح بیچتی‘ نہ اپنی خودداری کا اس طرح سودا کرتی (جس طرح ڈکٹیٹر مشرف نے واشنگٹن سے آنے والی ایک ٹیلی فون کال پر کیا) انہوں نے کہا‘ امریکہ کی طرف سے پاکستان کو ملنے والی کولیشن سپورٹ فنڈ کی رقم کوئی خیرات نہیں‘ صدر ٹرمپ جس کا طعنہ دے رہے ہیں۔
پاک‘ امریکہ تعلقات ہماری تاریخ کا نہایت اہم اور دلچسپ باب ہیں۔ ترقی پسند دانشوروں کے اس پروپیگنڈے کے برعکس کہ پاکستان اپنے قیام کے ساتھ ہی امریکہ کی گود میں جابیٹھا اور اس کی کلائنٹ سٹیٹ کا کردار ادا کرتا رہا‘ الحمدللہ ہم ان تعلقات کے حوالے سے کبھی کسی احساسِ گناہ کے شکار نہیں ہوئے۔ اللہ بھلا کرے‘ جناب خورشید محمود قصوری کا‘ جنہوں نے گزشتہ روز نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کی فکری نشست میں ہمارے اس احساس کو مزید تقویت دی۔ پاکستان کو اپنے قیام کے ساتھ ہندوستان کی طرف سے جو سنگین مسائل درپیش ہوئے‘ ان میں نوزائیدہ مملکت کے دفاع اور بقاء کا مسئلہ بھی تھا۔ تب خارجہ پالیسی میں امریکی آپشن ہی ہمارے لیے بہترین تھا۔ سابق وزیر خارجہ نے طنزاً کہا‘ اس پالیسی کے ناقدین کیا بانیانِ پاکستان سے زیادہ سمجھدار اور ذہین ہیں کہ امریکہ کے ساتھ تعلقات کی پالیسی خود بانیٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح اور ان کے دستِ راست‘ پاکستان کے اولین وزیراعظم خان لیاقت علی خاں نے طے کی تھی۔ ملکوں کے تعلقات باہم مشترکہ مفادات پر مبنی ہوتے ہیں‘ یہی معاملہ پاک‘ امریکہ تعلقات کاتھا۔ بارہا ایسا ہوا کہ ہم نے اپنے قومی مفاد کے منافی کسی امریکی مطالبے پر "NO" کہنے میں لمحہ بھر تاخیر نہ کی۔
اسلام آباد‘ واشنگٹن تعلقات میں نوازشریف کا رویہ بھی مطالعے کا دلچسپ موضوع ہے۔ 1988ء کے عام انتخابات میں بے نظیر بھٹو کی پیپلز پارٹی 92 نشستوں کے ساتھ قومی اسمبلی میں ''سنگل لارجسٹ پارٹی‘‘ تو تھی لیکن اسے ایوان میں ''سادہ اکثریت‘‘ حاصل نہ تھی۔ اسلامی جمہوری اتحاد کے 54‘ ایم کیو ایم کے 13‘ باقی سات جماعتوں کے 17 ارکان کے علاوہ 27 آزاد ارکان بھی ایوان کا حصہ تھے۔ آئین کے آرٹیکل (2)91 کے تحت 20 مارچ 1990ء تک صدر مملکت کو صوابدیدی اختیار حاصل تھا کہ وہ قومی اسمبلی کے کسی بھی رکن کو وزیراعظم نامزد کر دے جو اس کے خیال میں ارکان کی اکثریت کا اعتماد حاصل کر سکتا ہو۔ وائس آف امریکہ نے 24 نومبر کو خبردی‘ بے نظیر بھٹو نے صدر غلام اسحاق خاں اور آرمی چیف جنرل اسلم بیگ کو افغان پالیسی سمیت خارجہ امور اور 8 ویں ترمیم والے 1973ء کے دستور میں کوئی تبدیلی نہ کرنے اور ''اسٹیبلشمنٹ کے گاڈ فادر‘‘ کو آئندہ پانچ سال کے لیے صدر منتخب کرانے کی یقین دہانی کرا دی تھی۔ امریکی سفیر رابرٹ اوکلے بھی 22 نومبر کو صدر غلام اسحاق خاں سے ملاقات کر چکے تھے‘ وہ سرکاری گاڑی کی بجائے عام کار میں آئے۔ 25 نومبر کو امریکی سفیر نے نیازی ہائوس میں بے نظیر بھٹو سے ایک اور ملاقات کی‘ یہ ملاقات سوا گھنٹے جاری رہی تھی۔ اسی روز امریکہ کے دو انڈر سیکرٹریز آف سٹیٹ بھی اسلام آباد پہنچے۔ 30 نومبر کو نائب امریکی وزیر خارجہ رچرڈ مرفی اور نائب وزیر دفاع آرما کوسٹ نے نیازی ہائوس میں بے نظیر صاحبہ سے ملاقات کی۔ 28 نومبر کو محترمہ روسی سفارت خانے تشریف لے گئیں اور روسی سفیر سے ملاقات کی۔ یہ سفارتی سرگرمیاں رنگ لائیں اور صدر نے یکم دسمبر کو بے نظیر بھٹو کو پاکستان کی وزیراعظم نامزد کر دیا (اسلامی جمہوریہ پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم)۔ محترمہ کی وزارت عظمیٰ کے بیس ماہ میں امریکی اثرورسوخ کا یہ عالم تھا کہ رابرٹ اوکلے کو اسلام آباد میں امریکی وائسرائے کہا جانے لگا۔ 
دراز قد امریکی سفیر کو نوازشریف ''لمبو‘‘ کہہ کر پکارتے۔وزیراعظم نوازشریف کے دور میں پاک‘ امریکی تعلقات میں پہلے سا جوش و خروش نہیں تھا۔ نوجوان وزیراعظم امریکہ کو قدرے فاصلے پر رکھتا۔ 18 اپریل 1993ء کی وزارت عظمیٰ سے برطرفی کا کیس سپریم کورٹ میں زیر سماعت تھا کہ صدر مملکت کے وکیل نے بند کمرے میں (In Camera) سماعت کی درخواست کی‘ جہاں اس کا موقف تھا کہ امریکہ اور بھارت وزیراعظم کی پالیسیوں سے خوش نہیں تھے اور یہ چیز پاکستان کے قومی مفادات کے منافی تھی۔ جنرل اسلم بیگ کے بقول‘ نوازشریف سے امریکیوں کے تعلقات ابتدا ہی میں سردمہری کا شکار ہو گئے تھے‘ جب وزیراعظم نے امریکی سفیر کو پہلی ملاقات کے لیے تین چار ماہ کا انتظار کروایا۔ جنرل حمید گل (مرحوم) بتایا کرتے کہ امریکی‘ پاکستانی آئی ایس آئی کو کٹ سائز کرنے پر زور دیتے (جو ان کے خیال میں افغان وار کے دنوں میں Over Grow کر گئی تھی) جس پر وزیراعظم پاکستان کا جواب ہوتا‘ کیا ہم نے کبھی امریکی سی آئی اے یا ایف بی آئی کے متعلق اس طرح کا مطالبہ کیا؟ دوسرے دور میں ایٹمی دھماکے نوازشریف کی ایک اور ''سرکشی‘‘ تھی۔ وقت کے ساتھ امریکہ کے ساتھ تعلقات خوشگوار ہو گئے۔ صدر کلنٹن کے ساتھ تعلق تو ذاتی دوستی جیسا ہو گیا تھا۔اب تیسری وزارت عظمیٰ میں سی پیک کا عظیم منصوبہ اور خطے میں نئی سفارتی و سیاسی وابستگیوں میں پاکستان کی ترجیحات واشنگٹن کے اضطراب کو دوچند کئے دے رہی تھیں۔
نوازشریف معزول ہو چکے لیکن اب بھی حکومت تو ان ہی کی جماعت کی ہے۔ ٹرمپ (اور اس کے رفقائ) کی دھمکیوں پر پاکستان کا ریاستی موقف بلاشبہ ایک آزاد و خودمختار ریاست کے شایان شان ہے۔ معزول وزیراعظم نے بھی ریاض سے واپسی پر پاکستان کی خودمختاری کے حوالے سے حساس ترین مسئلے پر اپنا ردعمل دینے میں تاخیر نہ کی‘ مسلح افواج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے بھی کھلے دل سے جس کا خیرمقدم کیا۔ آئی ایس پی آر کے سربراہ کا کہنا تھا‘ نوازشریف صاحب کا یہ بیان خوش آئند ہے۔ آج ہمیں اسی قومی اتفاق رائے کی ضرورت ہے۔ میاں صاحب کے بیان کے دوسرے حصے پر انہوں نے تبصرے سے گریز اور اتنی سی بات کہنے پر اکتفا کیا کہ سازش کا کوئی ثبوت ہے تو پیش کریں اوریہ کہہ کر بات ختم کر دی کہ پُل آئے گا تو اسے عبور بھی کر لیں گے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved