جاتی بہار کے ہمارے وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کی مخالفت اندرونِ ملک تو زوروں پر ہے ،مگر ہمسایہ ملک بھارت میں بھی انہیں ’’ہاتھوں ہاتھ ‘‘ لیا گیا ہے۔راجہ وزیر اعظم ذاتی دورے پر اجمیر شریف حاضری کے لیے بھارت پہنچے تو بی جے پی، شیوسنہااوروشو ہندو پریشد نے وہی کیاجو جماعت اسلامی نے واجپائی کی لاہور آمد پر کیاتھا۔یہ فروری 1999ء تھا ،19فروری کو واجپائی دوستی بس کے ذریعے دہلی سے لاہور آئے تھے اوراگلے روز لاہور میںجماعت اسلامی نے ان کے خلاف مظاہر ہ کیاتھا۔تب کہاگیا تھا کہ بھارتی وزیراعظم واجپائی کے چلے جانے پر ہم لاہور کو پاک کرنے کے لیے غسل دیں گے۔’ ہندوستان ٹائمز‘ کے مطابق اجمیر شریف کے تاجروں، انتہا پسند تنظیموں اوروکلا ء نے بھی کہاہے کہ جہاںجہاں سے پاکستانی وزیر اعظم اور ان کے ساتھی گذرے ہیں،وہ ان رستوں کو پانی سے دھو کر پوِتّرکریںگے۔ پاکستان اوربھارت کے درمیان ’’پاک اورپوِتّر‘‘ کا یہ جھگڑا ایک مدت سے چلاآرہاہے۔ اگر یوں کہاجائے کہ اس کی بنیاد اس وقت رکھ دی گئی تھی جب برصغیر میںپہلاہندو، مسلمان ہوا تھا تو غلط نہ ہوگا ۔دل تو چاہ رہا ہے کہ آج کا کالم راجہ وزیر اعظم کے دورۂ اجمیر شریف اورانتہا پسند ہندوئوں کے ’’پوِتّراحتجاج‘‘ پر لکھوں لیکن لاہور میںنمودار ہونے وا لے ’’پاک احتجاج ‘‘کا دائرۂ کار پھیل گیا ہے۔ لہٰذا اسے نظر انداز نہیںکیاجاسکتا ۔سانحہ بادامی باغ میں لاہور شہر میں بسنے والے مسلمانوں نے اپنے ہی شہر میں برسہابرس سے آباد عیسائیوں کے 170گھر اورایک چرچ جلادیا۔اس سانحہ کے نمودار ہونے کے بعدصوبے کے وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف جن کا ’سیاسی برانڈنیم‘ خادمِ اعلیٰ ہے ،وہ وقوعہ کے مقام پر بذاتِ خود پہنچے اور انہوں نے اعلان فرمایا کہ مسیحی متاثرین جن کے گھر جلادیے گئے ہیں،انہیںفی کس 5لاکھ روپے ادا کیے جائیںگے۔ہمارے متحرک خادمِ اعلیٰ نے جس برق رفتاری سے صرف 8کروڑ اور50لاکھ روپے کی معمولی رقم سے پاکستان کے ماتھے پر لگے اس کلنک کے ٹیکے کو پونچھ ڈالا ہے ، ان کے اس ریکارڈ کو بھی سراہاجاناچاہیے۔سانحہ بادامی باغ کے بعد متحرک خادمِ اعلیٰ کے اقدامات کے حوالے سے تحقیقی صحافت کرنے والے بھی متحرک ہوگئے ہیں۔ایسی بعض رپورٹوں میںپنجاب حکومت کی پنج سالہ کارکردگی کے بارے میںبیان کیاگیاہے کہ سانحہ بادامی باغ میں مسیحی کُش فسادات کے نتیجے میںانتہا پسند وں کی جانب سے 100سے زائد گھروں،دکانات، املاک کولوٹنے اورنذر آتش کرنے کے واقعے نے اقلیتوں کے حوالے سے مسلم لیگ (نون ) کے داغدار ریکارڈ کو مزید گہنا دیا ہے جوسنی دیوبند شدت پسندوں کے غیظ وغضب سے اقلیتوں کو محفوظ رکھنے میںبالکل ناکام ثابت ہوئی ہے۔ایک محتاط اندازے کے مطابق شہباز شریف کے پانچ سالہ دورِ حکومت میں200 کے قریب عیسائیوں ، احمدیوں اورشیعوںکو موت کے گھاٹ اتارا گیا۔لاہور میںفرقہ وارانہ ٹارگٹ کلنگ کے کئی خوفناک واقعات ہوئے ۔بادامی باغ سانحہ سے ملتے جُلتے ایک واقعہ میں31جولائی 2009ء کو سپاہ صحابہ پاکستان کے ہزاروں کارکنوں نے گوجرہ میںمسیحی بستی کو نذرآتش کردیا۔اس واقعہ میںایک ہی خاندان کے آٹھ افراد کو زندہ جلادیاگیااورسو سے زائد گھر خاکسرکردیے گئے۔ گویا یہاں بھی اقلیتوں کے گھرجلانے کی ’’سنچری ‘‘ ہی مکمل کی گئی تھی۔ پنجا ب حکومت کی طرف سے 70سے زائد افراد کے خلاف کوئی کارروائی نہ ہونے پرمتاثرہ خاندان کا سربراہ جان کے خوف سے ملک چھوڑ نے پر مجبور ہوگیا۔یہ فسادات قرآن شریف کی توہین کی خبر عام ہونے پر برپا ہوئے تھے۔خبر تو بعد میںجھوٹی ثابت ہوئی تاہم زندہ جل جانے والی عورتوں اوربچوں کی زندگیاں توواپس نہ لائی جاسکیں ۔ایک دوسری رپورٹ میںبیان کیاگیاہے کہ گوجرہ کے واقعہ میںملوث 72نامزد ملزمان کو ایک ،ایک کرکے ضمانت پر رہائی مل گئی ۔واحد مدعی الماس حمیدمسیح کو بھی وطن عزیز چھوڑنا پڑا۔ دراصل الماس حمید نے مسلم لیگ (نون) ٹوبہ ٹیک سنگھ کے صدر اورکالعدم سپاہِ صحابہ پاکستان (حالیہ اہل سنت والجماعت ) کے رہنمائوں کو اس واقعے میںملز م نامزد کیاتھا۔مسلم لیگ کے رہنماوں کے خلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ کے سیکشن 7کے تحت مقدمات درج کیے گئے تھے۔ سانحہ گوجرہ کے صرف دس ماہ بعد بعض پنجابی فدائین گروپوں نے ماڈل ٹائون اورگڑھی شاہو لاہور میںقادیانیوں کی عبادت گاہوں کو نشانہ بنا کر سو سے زائد افراد کوہلاک کیا تھا۔اس المناک واقعہ کا دلخراش پہلو یہ بھی تھاکہ اسکے رونما ہونے کے کئی دن بعد تک خادمِ اعلیٰ ’’ اقلیتی مدعیوں‘‘ سے تعزیت کرنے نہیںگئے تھے ۔حالانکہ یہ المناک واقعہ ماڈل ٹاون میں خادمِ اعلیٰ کی رہائش گاہ سے چند فرلانگ دور رونما ہواتھا ۔ بادامی باغ کاواقعہ اس وقت رونما ہوا ہے جب مسلم لیگ نون کی پنجاب حکومت کو آنے والے الیکشن میںانتہا پسند قوتوں کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرنے کے الزام کا بھی سامنا ہے۔پنجاب حکومت ایسے الزامات کی تردید کرتی ہے کہ اس کے کالعدم جماعتوں سے تعلقات ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ پنجاب حکومت اقلیتوں کے تحفظ کیلئے بھرپور اقدامات کررہی ہے۔یہ بات بھی ریکارڈ پر موجود ہے کہ جب لاہور گڑھی شاہو میںجامعہ نعیمیہ کے مولانا سرفراز نعیمی ایک خود کش حملہ میںجاں بحق ہوگئے تھے، وزیر اعلیٰ پنجاب نے آن ائیر خطاب کرتے ہوئے کہاتھاکہ طالبان کو پنجاب میںایسے آپریشن نہیںکرنے چاہئیںکیونکہ ان کامطالبہ ہے کہ امریکہ ڈرون حملے بند کرے اور خطّے میںسے اپنی افواج واپس لے جائے، ہم بھی تو یہی کہتے ہیںکہ اغیار ہمارے ملک میںاپنی مداخلت بند کریں۔خادمِ اعلیٰ کی طرف سے دہشت گردوں کوکی گئی اس درخواست کو جو معنی دیے گئے تھے ٗ ان سے یہ مراد تھی کہ خادمِ اعلیٰ کے دل میںدہشت گردو ں کے لیے نرم جذبات پائے جاتے ہیں، حالانکہ وہ ایک سخت گیر منتظم ہیں۔ وہ بڑے سے بڑے بیوروکریٹ کو پنجی منٹی کھڈے لائن لگانے کے ماہرجانے جاتے ہیں مگر نجانے کیوں انتہا پسندوں کے سامنے ان کے بھی پرَ جلتے ہیں۔ مسیحی بھائیوں کے جلائے گئے گھروں کے لیے تو خادمِ اعلیٰ نے قومی خزانے سے فی کس پانچ لاکھ روپے ادا کرنے کا اعلان فرمادیا ہے۔ان گھر وں کو تعمیر کرنے کی پیشکش ملک ریاض نے بھی کی ہے۔ ہمارے خیال میںپنجاب حکومت کو اس پیش کش کو قبول کرتے ہوئے یہ ’’رفاہی ٹینڈر‘‘بلامقابلہ ملک ریاض کے نام کردینا چاہیے۔اس مد میںخادمِ اعلیٰ نے آٹھ کروڑ پچاس لاکھ روپے کی جس رقم کا اعلان کیاتھا ،اس کے تصرف کے لیے انہیں کوئی اورنیک سکیم تیار کرنی چاہیے۔بادامی باغ کے جس واقعہ سے پاکستان کا قومی تشخص پوری دنیا میںمزید داغدار ہوا ہے ،اس کا پس منظر بہت ہی شرمناک ہے۔وقوعہ یہ ہے کہ ایک مسلمان اورعیسائی جو ہم نوالہ اوراکثر اوقات ’’ہم پیالہ‘‘ بھی ہوا کرتے تھے،شراب کے نشے میںجھگڑپڑے۔ مسلمان صبح اٹھاتو اس نے عیسائی سے بدلہ چکانے کے لیے بادامی باغ تھانہ میںاپنے ’’سابقہ ہم پیالہ ‘‘ کے خلاف سنگین الزامات عائد کردیے۔بادامی باغ تھانہ کے ’’ فرض شناس‘‘ عملہ کی عدمِ توجہی کے باعث یہ معاملہ توہینِ رسالت میں بدل گیا۔نبی کریم ﷺمسلمانوں سمیت دوسرے مذاہب کے لیے بھی رحمت کا پیغام لائے تھے لیکن ہمارے ہاں اپنی دشمنیاں نکالنے کے لئے توہینِ رسالت کے قانون کا غلط استعمال کیاجاتاہے جوبذات خود توہینِ رسالت کے زمرے میںآتا ہے ۔ہم سب کو ریاست اورسیاست سمیت اپنے اندرباہر،اردگر د اوردائیںبائیں سے پاک اورپوِتّر کا جھگڑا ختم کرنا ہوگا ورنہ بادامی باغ جیسے سانحات رونما ہوتے رہیںگے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved