تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     05-01-2018

بابری مسجد کی سلور جوبلی

بھارت کے مشہور انگریزی میگزین ''آئوٹ لک‘‘ نے بابری مسجد کی شہا دت کے 25 سال مکمل ہونے پر اپنے گیارہ دسمبر کے شمارے میں بھارت بھر کے لوگوں سے سوال کیاہے کہ بابری مسجد کا مقدمہ ابھی سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے لیکن نریندر مودی کی اپنی ذیلی جماعت راشٹریہ سیوک سنگھ کے چیف موہن بھگوت کس طرح اعلانات کرتے پھرتے ہیں کہ چاہے کچھ ہو جائے ہم ایو دھیا میں رام مندر تعمیر کر کے رہیں گے ۔اس کی تقریر کے الفاظ ہیں '' تمام لوگ جان لیں کہ ایودھیا میں صرف رام مندر ہی تعمیر ہو گا اس کیلئے کسی بھی قسم کی کوئی عبادت گاہ یا سوشل سینٹر تعمیر کرنے کی قطعی اجا زت نہیں دی جائے گی اور یہ بات میں اس لئے کہہ رہا ہوں کہ سب با خبر ہو جائیں‘‘۔ آئوٹ لک پوچھتا ہے راشٹریہ سیوک سنگھ کے لوگ کیا سپریم کورٹ کو براہ راست دھمکی دے رہے ہیں یا ہدایات؟۔ بابری مسجد کو شہید ہوئے پچیس برس گزر چکے ہیں اور1992 میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایل کے ایڈوانی اور راشٹریہ سیوک سنگھ کے نریندر مودی جیسے انتہا پسند ہندوئوں کی نگرانی میں گرائی گئی اور ہر سال انتہا پسند ہندو اس دن کو '' وجے دیواس‘‘ یعنی یوم فتح کے نام سے جشن کے طور پر مناتے چلے آ رہے ہیں اور اب پچیس برس مکمل ہونے پر اسے سلور جوبلی کے نام سے منا یا گیا۔ بابری مسجد کی جگہ ایو دھیا کا کھیل 1992 سے شروع نہیں ہوا بلکہ اس کیلئے قیام پاکستان کے صرف دو برس بعد دسمبر1949 کی ایک انتہائی سرد رات یہ مشہور کر دیا گیا کہ ایو دھیا کی بابری مسجد میں ' ' رام لیلا‘‘ کے درشن ہوئے ہیں ۔۔۔یہ اس لئے مشہور کیا گیا تاکہ بھارت کے ہندو رام لیلا کے درشن کے جنون اور عقیدت میں ہندوئوں میں مذہبی جذبات کو بھڑکایا جا سکے ۔
بابری مسجد کیوں گرائی گئی ؟۔ اس کا پس منظر کیا تھا ؟۔ ہندوئوں میں مسلمانوں کے خلاف انتہاپسندی کی چنگاری کو آگ کی شکل میں کیوں اور کیسے بھڑکایا گیا؟۔ اس کیلئے 1982 میں جانا ہو گا کیونکہ بابری مسجد کو گرانے کی بنیادی کہانی وہیں سے شروع ہوتی ہے جب کانگریس سے علیحدہ ہونے کے بعد واجپائی سمیت بڑے بڑے لیڈروں نے بھارتیہ جنتا پارٹی کے نا م سے اپنا علیحدہ سیا سی پلیٹ فارم تشکیل دیا۔1984 کے انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی کانگریس کے مقابلے میں اپنے پورے جتن اور بھاری سرمایہ خرچ کرنے کے با وجود صرف اور صرف2 قومی نشستیں حاصل کرنے میں بڑی مشکل سے کامیاب ہو سکی۔۔۔اس پر جنتا پارٹی کے اکابرین پہلے تو اپنی بد ترین شکست پر ندامت کے آنسو بہاتے رہے اور پھر فیصلہ کیا کہ کانگریس کو شکست دینے اور ہندو ووٹروں کو اپنے ساتھ ملانے کیلئے ایودھیا میں بابری مسجد اور رام مندر کے نام سے انہیں ایکسپلائٹ کرنے کے سوا اب ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں اور اس کیلئے1949 میں رام لیلا کے درشن کو پھر سے سامنے لایا جائے اور فیصلہ کیا کہ جنتا پارٹی پس منظر میں رہ کر سب سے پہلے اپنی ذیلی تنظیم '' راشٹریہ سیوک سنگھ‘‘ کو آگے کرتے ہوئے اس مسئلہ کو بڑھاوا دے گی۔
راشٹریہ سیوک سنگھ نے ایو دھیا میں پوجا پاٹ شروع کر دی لیکن اس میں انہیں کوئی خاص پذیرائی نہ مل سکی لیکن جلد ہی انہیں ایک ایسا موقع ملا جس نے ان کی منزلیں آسان کر دیں اور ساتھ ہی بھارت کا ہر ہندو انتہا پسند بن کر سامنے آنا شروع ہو گیاجب شاہ بانو Meenakshipuran مذہب کی تبدیلی کا معاملہ سامنے آیا اور ہندو مسلمانوں کے خلاف انتہا پسندی میں بپھرنا شروع ہو گئے۔۔۔راشٹریہ سیوک سنگھ نے شاہ بانو جھگڑے کے نام پر بھارت اور دنیا بھر میں پھیلے ہوئے عام ہندو کو بھی ایکسپلائٹ کر نا شروع کر دیا۔ اب جنتا پارٹی اور راشٹریہ سیوک سنگھ نے رام مندر کا مسئلہ اجا گر کرنا شروع کر دیا جس سے بابری مسجد پر بھارت بھر میں ہندو مسلم بیانات شروع ہوگئے جب یہ معاملہ گمبھیر صورت اختیار کر گیا تو بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے تاریخ دانوں نے ہندوئوں سے سوال کیا کہ وہ ہمیں بتائیں کہ ایودھیا کس طرح رام کی جنم بھومی ہے؟ ۔اور آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ آج کا اجو دھیا ہی رامیان کا اجو دھیا تھا؟۔ ان کے مطا بق AYODHYA WAS BEYOND TIME AND HISTORYـــ۔۔۔لیکن معاملہ چونکہ شہا دتوں اور ثبوتوں سے آگے جذبات کی شکل میں بہہ چکا تھا اس لئے کسی نے بھی ثبوت اکٹھے کرنے یا دیکھنے کی طرف توجہ دینے کی کوشش ہی نہیں کی اور سب ہندو راشٹریہ سیوک سنگھ کے نعروں میں اس طرح گم ہو گئے کہ انہیں انسانیت اور دھرم کے اسباق کا احترام ہی نہ رہا۔
ابھی حال ہی میںگجرات کا ریاستی الیکشن جیتنے کیلئے نریندر مودی کے پاس اپنی کارکردگی کم اور بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی سلور جوبلی کے نعرہ کا سب سے زیا دہ چرچا تھا۔۔۔۔راشٹریہ سیوک سنگھ اور وشوا ہندو پریشد کے انتہا پسند اپنی ریلیوں اور جلسوں میں ''رام مندر وہیں بنے گا‘‘ کے نعرے بلند کرتے رہے اور اس نعرے کی ہندوئوں میں پذیرائی دیکھتے ہوئے جنتا پارٹی نے اگلے الیکشن کیلئے اسی کو اپنا منشور بنا نے کا تہیہ کر لیا ہے۔اس دیوالی پر دریاکے کناروں پردو لاکھ سے ساتھ دیئے جلا کر جو منظر پیدا کیا اس سے رام مندر اور ایودھیا کو بھارت کے ہر ہندو خاندان میں سمونے کی بھر پور کوشش کی اور یہ سب مودی سرکار کی مدد سے کیا گیا۔۔۔راشٹریہ سیوک سنگھ کو دیکھتے ہوئے اب دوسری انتہا پسند ہندو تنظیم سنگھ پریوار نے بھی اعلان کر دیا ہے کہ سپریم کورٹ نہ جانے کب فیصلہ کرے‘ ہم سے اب زیا دہ انتظار نہیں کیا جاتا اس لئے وہ رام مندر کی تعمیر شروع کرنے لگے ہیںاور یہ بات سب پر واضح کر دیں کہ ایو دھیا میں رام مند رکی جنم بھومی پر صرف مندر ہی تعمیر ہو گا اور اگر کسی اور عبادت گاہ یا مسجد کی تعمیر یا کسی قسم کی عمارت کی تعمیر کی اجا زت دی گئی تو ہم اسے کسی بھی صورت میں تسلیم نہیں کریں گے۔۔۔کیونکہ وہاں صرف اور صرف مندر کی تعمیر ہو گی۔۔۔ان انتہا پسند جماعتوں کی جانب سے ہندو ووٹروں کو اپنے ساتھ ملانے کی کوششوں پر راشٹریہ سیوک سنگھ کو لینے کے دینے پڑ نے لگے اور وہ یہ سوچتے ہوئے کہ کہیں وہ پیچھے نہ رہ جائے اس نے رام مندر کی تعمیر کے نام سے ایک نئی تحریک شروع کرنے کا اشارہ دیتے ہوئے بھارت بھر میں اپنے ورکروں کو متحرک کرنا شروع کر دیا۔
راشٹریہ سیوک سنگھ کو سنگھ پریوار اور وشوا ہندو پریشد کے مقابلے میں یہ سبقت حاصل ہے کہ اس وقت وہ مرکزی حکومت میں نریندر مودی اور بھارت کی زیا دہ ترریاستوں میں برسر اقتدار ہونے کی وجہ سے با اختیار ہے اور بابری مسجد کو گرانے میں چونکہ سب سے زیادہ مضبوط کردار راشٹریہ سیوک سنگھ کا رہا ہے اس لئے سلور جوبلی مناتے ہوئے رام مندر کے نام کی جے جے کار میں بھی وہ سب سے پیش پیش ہے۔۔۔اور یہ ہندو ازم کی وہ شکل ہے جو بھارت میں اس بار متشددانہ انداز میں پہلی دفعہ دیکھنے کو مل رہی ہے۔۔۔۔گوکہ بابری مسجد کی شہا دت کوئی اچانک واقعہ نہیں تھا بلکہ ا س کے پیچھے دو دہائیوں کی پراپیگنڈا مہم اور بی جے پی، راشٹریہ سیوک سنگھ اور وشوا ہندو پریشد کا مشترکہ یدھ شامل رہا ہے۔ اس میں ایل کے ایڈوانی سب سے پیش پیش رہا کیونکہ وہ سمجھ رہا تھا کہ رام مندر کے نعرے اور با بری مسجد کو گرانے کیلئے جتنا بڑا جلوس لے کر وہ ایو دھیا پہنچے گا اس کی لیڈر شپ اتنی ہی مضبوط ہو جائے گی اور اس طرح بھارت کے تمام انتہا پسند ہندوئوں کا واحد لیڈر مانے جانے پر وہ واجپائی کے بعد بھارت کے وزیر اعظم کی کر سی پر بآسانی بیٹھ سکے گا لیکن جنتا پارٹی کے اندر اس کے مخالفین نے گجرات کے فسادات کے نام پر تمام ہندوئوں کو مسلم دشمنی( پاکستان دشمنی) کے نام پر نریندر مودی جیسے انتہا پسند دہشت گرد کے سامنے ڈھیر کر دیا۔۔!!

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved