تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     06-01-2018

کیسے کیسے لوگ؟

قومی تاریخ میں قائداعظم محمد علی جناحؒ‘ شہید ملت لیاقت علی خان‘ ذوالفقار علی بھٹو اور ان کے بعد جو چوتھا لیڈر پاکستان نے پیدا کیا‘ وہ ایئر مارشل‘ اصغر خان مرحوم تھے۔ قائداعظمؒ اور بھٹو صاحب اپنی صلاحیتوں کے اعتبار سے عالمی سطح کے لیڈر تھے۔ بدنصیبی سے سیاست انہوں نے پاکستان میں شروع کی۔ قیام پاکستان کے تھوڑے ہی دنوں بعد‘ قائداعظمؒ‘ دولت اور اقتدار کے حریص جاگیرداروں‘ نوکر شاہی اور بیرونی ایجنٹوں کی سازشوں کا شکار ہو کرہمیں یتیم کر گئے۔ میں نے قیام پاکستان کے بعد کے ابتدائی مناظر دیکھے اور سنے ہیں۔ قائداعظمؒ زندگی کے آخری دنوں میں تپ دق کے شدید مرض میں مبتلا ہو گئے۔ ایک طرف وہ بھارتی سازشیوں کے نرغے میں تھے۔ دوسری طرف انگریز حکمران‘ ہندو لیڈروں کی خوشنودی حاصل کرنے میں مصروف تھے۔ سب سے زیادہ تبا ہ کن میٹریل‘ مغربی پاکستان کے وہ لوگ تھے‘ جو اقتدار اور طاقت کے بھوکے تھے۔ ایک طرف قائداعظمؒ اپنی بیماری کے آخری دنوں میں موت سے لڑ رہے تھے۔ دوسر ی طرف نوزائیدہ پاکستان میں اقتدار کے حریص بابائے قومؒ کو گھیرے میں رکھنے پر باہمی سازشیں کر رہے تھے۔ جو زیادہ چالاک تھے‘ انہوں نے یہ مشہور کر کے کہ وہ انہیں اقتدار کے بھوکے ہجوم سے بچا کر کسی صحت مند مقام پر لے جانا چاہتے ہیں، قائد کو وفاق سے دور کر دیا۔ علاج تو وہاں کیا ہونا تھا۔ وہ مناسب دوائوں اور خدمات سے بھی محروم ہو گئے۔ جس انسان کی زندگی بڑے بڑے دانشوروں اور لیڈروں میں گزری‘ وہ چند بابوئوں اور خوشامدیوں کے گھیرے میں سمٹ کر رہ گیا۔ ان خوشامدیوں نے جو گورنر جنرل ہائوس پر چھائے ہوئے تھے‘ ایک سکیم کے تحت انہیں واپس دارالحکومت کراچی لے جانے کا منصوبہ بنایا اور حیلے بہانے سے قائداعظمؒ کو ڈیکوٹا جہاز کے ذریعے کراچی جانے پر آمادہ کر لیا۔
کراچی پہنچے تو اس شہر میں تیز دھوپ پھیلی ہوئی تھی۔ گرمی کا موسم تھا اور جس کار میں قائداعظمؒ کو گورنر ہائوس لے جانے کی کوشش کی گئی‘ اس کا اے سی بھی ناکارہ نکلا۔ تیز دھوپ‘ انجن کی گرمی اور مناسب نگہداشت سے محروم‘ نحیف بابائے قومؒ آخری سانسیں لے رہے تھے۔ کھٹارہ ٹائپ گاڑی کو شدید گرمی میں روک لیا گیا۔ غالباً وہی چند لمحے تھے‘ جن میں بابائے قومؒ نے اس دنیا فانی کو خدا حافظ کہا۔ اب بھی اقتدار کے بھوکوں اور سازشیوں کے پوت کپوت اقتدار کے منظر پر چھائے ہوئے ہیں۔ قائداعظمؒ کے جاتے ہی نوابزادہ لیاقت علی خان کو سازشیوں نے نشانہ بنایا اور انہیں راولپنڈی کے موجودہ لیاقت باغ کے جلسے میں انتہائی مہارت سے گولی کا نشانہ بنا دیا گیا۔ وہ تقریر کر رہے تھے کہ گولی ان کے سینے میں لگی اور وہ گرتے ہوئے صرف یہی کہہ پائے ''یااللہ! پاکستان کی حفاظت کرنا‘‘۔ یہی دعا قائداعظمؒ نے بھی مانگی ہو گی۔ کاش! ان کے پاس کوئی ہوتا۔
دونوں بانی لیڈروں کی رخصتی کے بعد‘ وہ دھما چوکڑی مچی کہ ہندو اور انگریز کے دروازوں میں پلنے والے‘ اقتدار کے لئے پاکستان پر جھپٹ پڑے۔ مشرقی بنگال‘ پاکستان کا اکثریتی صوبہ تھا۔ وہاں کے لیڈر نہ جاگیردار تھے‘ نہ بڑے بیوروکریٹ اور نہ ہی صنعت کار۔ ادھر کے بڑے لیڈر‘ سیاسی کارکن اور عوامی جدوجہد میں حصہ لینے والے ممتاز افراد تھے۔ حسین شہید سہروردی جو متحدہ بنگال کے وزیراعظم تھے‘ (آزادی سے پہلے صوبوں میں گورنر اور وزیراعظم ہوا کرتے تھے) انہوں نے بہت کوشش کی تھی کہ کسی طرح مسلمانوں کی زیادہ تعداد کی بنا پر‘ آزاد بنگال کے تصور پر ہندوئوں کو آمادہ کر لیں مگر اس میں ناکام رہے۔ آخرکار انہیں پاکستان آنا پڑا۔ پاکستان میں انگریز اور ہندو کے جو ٹوڈی چھائے ہوئے تھے‘ انہوں نے پاکستان کو ملنے والے مشرقی بنگال پر قبضہ کر لیا۔ آج بھی مسلم اکثریت کے ملک میں ہندو ہی چھایا ہوا ہے۔ بنگالی بھائیوں نے صرف اپنے تین مسلمان لیڈروں کی قبریں ایک ہی قطار میں بنا رکھی ہیں اور آج بھی وہاں کے وطن پرست شہری‘ ان کے مزاروں پر فاتحہ پڑھنے آتے ہیں۔ جس کہنہ مشق سیاست دان نے لاہور میں قرارداد پاکستان پیش کی تھی‘ جس سہروردی نے پورے بنگال کی آزادی کے لئے جدوجہد کی اور شیخ مجیب الرحمن‘ جس نے بھارت کے ساتھ پرامن ہمسائیگی کا تصور پیش کیا‘ آج وہ زیر خاک آسودہ ہیں ۔ ان سب کی کوششیں بے کار گئیں۔ آج بنگلہ دیش پر ہندو سامراج کا قبضہ ہے۔ قائداعظمؒ، شہید ملت اور ذوالفقارعلی بھٹو کی قربانیاں بھی رائیگاں گئیں۔ سچ لکھوں تو آج پاکستان کا نہ کوئی خیر خواہ ہے اور نہ محبت کرنے والا۔ انگریز اور ہندو کے پالتو ٹوڈیوں کی اولادیں پہلے پاکستان کو کھا گئیں۔ اب ایک عرصے سے کسانوں اور مزدوروں کا خون چوسا جا رہا ہے۔ ان کا نام تو کثرت سے لیا جاتا ہے لیکن ان کا خون چوسنے میں ہر کوئی ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش میں ہے۔ جو لیڈر اقتدار پر قبضہ کر چکے ہیں‘ وہ کسانوں اور مزدوروں کا خون بیچ کر خزانے جمع کرتا اور بیرونی بینکوں میں محفوظ کر لیتا ہے۔
یہ سب لوگ مجھے اس لئے یاد آئے کہ ایئر مارشل‘ اصغر خان وطن کی بھلائی‘ تعمیر و ترقی اور عوام کی بہتری کے لئے سرگرم تھے۔ انہوں نے ایک سیاسی پارٹی بھی بنائی تھی‘ جس میں اچھے اور وطن پرست لوگ‘ جن میں خورشید محمود قصوری‘ چودھری اعتزاز احسن‘ اور اپنے دور کے مخلص سیاسی کارکن شامل ہوئے۔ ایئر مارشل اصغر خان مرحوم سے میری آخری ملاقات میاں محمود علی قصوری کے گھر پر ہوئی۔ اب تو مجھے یہ بھی یاد نہیں کہ یہ انٹرویو کہاں شائع ہوا تھا؟ ایئر مارشل نے پاکستان ایئر لائنز کو کھٹارہ کمپنی سے نکال کر‘دنیا کی ممتاز ایئر لائنز میں کھڑا کر دیا تھا۔ اب اس کا گوشت تو کھایا پیا گیا۔ ہڈیاں چبائی جا رہی ہیں۔ پاکستانی فضائیہ نے پہلی کھلی جنگ میں بھارت کی پانچ گنا بڑی ایئر فورس کو ناکوں چنے چبوائے‘ آج صرف اس کی طرف سے خیر کی خبر آ رہی ہے۔ اب ریلوے سے بنے ہوئے لوہے کے چنے چبائے جا رہے ہیں اور اس پر فخر کا اظہار بھی کیا جا رہا ہے۔ تحریک استقلال کی ایک اور نشانی‘ اقتدار پر فائز ہوئی لیکن اس کا ذکر کر کے میں ایئر مارشل اصغر خان کو قبر میں بے چین نہیں کرنا چاہتا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved