تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     06-01-2018

حاضری

آج پورے ایک مہینے بعد قلم کو ہاتھ لگایا ہے اور کاغذ سامنے رکھا ہے۔ ابھی بھی نظر میں تھوڑا دھندلا پن ہے مگر مزدور مزدوری کئے بغیر کتنے دن رہ سکتا ہے؟ سو لکھنا شروع کر دیا ہے، اللہ رحیم و کریم مزید بہتری عطا کرے گا۔ صورتحال یوں ہے کہ دور کی نظر تو بہت ہی بہتر ہے۔ جس طرح میں عینک کے ساتھ گزارے لائق دیکھ سکتا تھا اب بغیر عینک لگائے اس سے بہتر دیکھ سکتا ہوں۔ ڈاکٹر کے کہنے کے مطابق ایک آدھ نمبر کی عینک لگے گی اور نظر ''سکس بائی سکس‘‘ ہو جائے گی۔ میں آنکھوں کا تقریباً آدھا ڈاکٹر بن چکا ہوں کہ عینک لگوائے‘ قریب پچاس سال ہو گئے ہیں اور اس دوران آنکھوں کی وہ کون سی بیماری ہے جو اس فقیر نے نہیں بھگتی۔ عینک اس سے پہلے بھی لگ سکتی تھی مگر اس زمانے میں ایسی باتوں کو ذرا کم ہی لفٹ کرائی جاتی تھی۔
میں غالباً پانچویں جماعت میں تھا جب مجھے بلیک بورڈ پر جسے اس زمانے میں ہم تختہ سیاہ بولتے تھے، لکھا ہوا ٹھیک نظر نہ آتا تھا۔ اللہ بخشے ماسٹر غلام حسین صاحب کو بتایا کہ تختہ سیاہ پر لکھا صاف دکھائی نہیں دیتا۔ انہوں نے اس کا امرت دھارا قسم حل یہ نکالا کہ میرا ٹاٹ کھینچ کر مزید قریب کر دیا۔ میں پہلے ہی ٹاٹ پر سب سے آگے بیٹھتا تھا اس لیے مجھے مزید آگے بٹھانا تو ممکن نہ تھا تاہم ٹاٹ ہی کھینچ کر مزید آگے کر دیا گیا اور میرا مسئلہ وقتی طور پر حل ہو گیا۔ میونسپل پرائمری سکول چوک شہیداں سے پانچویں پاس کرنے کے بعد گورنمنٹ ہائی سکول گلگشت کالونی میں چھٹی کلاس میں داخلہ ہو گیا۔ وہاں ٹاٹ آگے کھینچنے کا کوئی میکنزم موجود نہ تھا کہ وہاں پہلی بار ہمیں ڈیسک نصیب ہوئے۔ ماسٹر گلزار صاحب نے گو کہ پہلے دن ہی دوچار ہوشیار بچوں کو اگلے ڈیسکوں پر بٹھا دیا جن میں یہ عاجز بھی شامل تھا۔
کلاس کا بلیک بورڈ‘ درمیان میں استاد کی میز کرسی جس کا سائز پرائمری سکول کے ماسٹر غلام حسین صاحب کی میز سے چار گنا بڑا تھا۔ پھر درمیان میں استاد کے چلنے پھرنے کی جگہ۔ یہ سارا میدان جنگ متعین کرنے کے بعد پہلا ڈیسک بھی بلیک بورڈ سے اتنا دور تھا کہ ایک بار پھر اس پر لکھا نظر آنا مشکل ہو گیا۔ ٹاٹ کو گھسیٹ کر آگے لے جانا تو خاصا آسان تھا مگر اس ڈیسک کو اس قسم کی سہولت میسر نہ تھی۔ جب دوچار بار ماسٹر گلزار نے بلیک بورڈ پر سوال لکھ کر جواب مانگا تو ادھر معاملہ بالکل ''صفاچٹ‘‘ تھا۔ اٹھ کر قریب جا کر سوال دیکھا تو اتنا آسان تھا کہ ایک دو منٹ میں حل کر لیا۔ اب ماسٹر گلزار مرحوم کو احساس ہوا کہ معاملہ سوال سے بچنے کا نہیں واقعی نظر کی خرابی ہے۔ ماسٹر گلزار نے‘ جو ابّا جی مرحوم کے شاگرد تھے، ابا جی کو بتایا کہ بچے کی نظر خراب ہے‘ اسے چیک کروائیں۔
اب گھر آ کر وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ خوب ڈانٹ پڑی کہ مجھے کیوں نہیں بتایا؟ ماسٹر کو بتایا اور اس نے مجھے بلا کر شکایت لگائی۔ مطلب یہ ہے کہ ہمیں تمہاری کوئی فکر نہیں کہ ایسی بات کا بذریعہ ماسٹر گلزار پتہ چلتا۔ دل میں سوچا اسی ڈانٹ کے ڈر سے ہی بتایا نہیں تھا اور وہی ڈانٹ پڑ بھی گئی۔ یہ وہ زمانہ تھا جس میں ڈانٹ پہلے پڑتی تھی اور معاملہ بعد میں دیکھا جاتا تھا۔ اسی ڈر سے کوئی اچھی یا بری بات کم از کم اباجی کو بتانے کی ہمت تو ہرگز نہ ہوتی تھی۔ اگر گھر جا کر اباجی کو یہ بتایا جاتا کہ میں کلاس میں سیکنڈ آیا ہوں تو شاباش ملنی تو ایک طرف پہلے اس بات پر ڈانٹ پڑتی کہ پہلی پوزیشن کیوں نہیں آئی۔ بالکل ایسا ہی معاملہ تھا جیسا کہ ایک لطیفہ ہے کہ ایک جنگل میں بادشاہ یعنی ببر شیر نے اپنے صوابدیدی شاہی اختیارات کے تحت ایک حکمنامہ جاری کیا کہ جن خرگوشوں کے پنجوں میں انگلیوں کی تعداد چار کی بجائے پانچ ہے، ان کو گولی مار دی جائے (اب یہ معاملہ بہرحال قابل غور نہیں کہ ببر شیر کے حکم کی تعمیل میں کون جانور خرگوشوں کو گولیاں مارے گا اور بندوق کیسے چلائے گا کہ ایسے لطیفوں میں ان باتوں پر زیادہ غور نہیں کیا جاتا بس لطف لیا جاتا ہے) اُس حکمنامہ کے تحت پانچ انگلیوں والے خرگوشوں کی شامت آ گئی اور ان کا قتل عام شروع ہو گیا۔ اسی اثناء میں ایک خرگوش بگٹٹ بھاگا جا رہا تھا۔ کسی نے پوچھا کیا معاملہ ہے اس نے کہا تمہیں تو پتا ہے کہ پانچ انگلیوں والے خرگوشوں کو جان سے مارنے کا حکمنامہ جاری ہو چکا ہے۔ پوچھا تمہاری کتنی انگلیاں ہیں؟ خرگوش نے جواب دیا چار!۔ پوچھا پھر تم کیوں بھاگے جا رہے ہو؟ جواب دیا: بھائی جان بچانے کے لیے کہیں اور کا رُخ کر رہا ہوں۔ مارنے والے پہلے گولی مار رہے ہیں اور انگلیاں بعد میں گن رہے ہیں۔
یہی حال اپنا تھا۔ اباجی مرحوم اللہ انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے‘ پہلے ڈانٹتے تھے اور بعد میں معاملہ سنتے تھے۔ صرف میرے اباجی مرحوم پر ہی کیا موقوف؟ اس زمانے میں پچانوے فیصد ''اباجی‘‘ یہی کیا کرتے تھے۔ بہرحال چھٹی کلاس میں ماسٹر گلزار صاحب کی اطلاع پر اباجی ہمیں بوہڑ گیٹ کے پاس ''صدیقی آپٹیکل‘‘ پر لے گئے۔ تب عینک لگانے والا ہی نظر کا ڈاکٹر ہوا کرتا تھا۔ صدیقی صاحب نے نظر چیک کی اور اپنی مرضی کے فریم میں شیشے لگا کر ہماری ناک پر ٹکا دیا۔ اب ایک اور مسئلے کا آغاز ہوا۔ اب عینک ٹوٹنے کا لامتناہی سلسلہ شروع ہو گیا۔ فٹبال کھیلتے ہوئے، بھاگتے ہوئے ،گر جانے کے باعث، سائیکل سے ٹکر کے طفیل اور سب سے زیادہ مارکٹائی کے سبب۔ ساتویں کلاس میں پہنچنے تک صدیقی صاحب سے ذاتی مراسم پیدا ہو گئے۔ خود ہی جا کر عینک بنوا لیتا اور بل اباجی کو دے جاتا‘ یہ بل اباجی کو ڈائریکٹ دینے کی کبھی ہمت نہ ہوئی ہمیشہ یہ بل ماں جی کو پکڑا دیا جاتا اور اباجی راستے میں جاتے ہوئے صدیقی صاحب کو ادائیگی کر دیتے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ جو آخری عینک اب آنکھوں کی سرجری کے طفیل بیکار ہوئی ہے، گزشتہ سات سال سے چل رہی تھی۔ حال خراب ہو چکا تھا مگر ہر بار یہ سوچ کر کہ سرجری کروا کر نئی عینک لگوائوں گا ‘اسے بدلنے کا خیال چھوڑ دیا۔ ہماری جنریشن اسے کفایت شعاری کا نام دیتی ہے البتہ ہمارے بچے اسے کنجوسی کا نام دیتے ہیں۔
دور کی نظر تو اب نوے فیصد سے زیادہ درست ہے اور رہی سہی کسر دو چار ماہ بعد معمولی نمبر کی عینک نکال دے گی اور قریب پندرہ بیس سال بعد میں صاف دیکھنے کے قابل ہو جائوں گا لیکن شکر ہے میرے مالک کا کہ اس نے ان پندرہ بیس سال کے دوران بھی کسی کا محتاج نہیں کیا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ دو فٹ دور تک تو صاف دکھائی دیتا ہے لیکن اس سے نزدیک کی چیزیں دھندلی نظر آتی ہیں۔ ڈاکٹر نوید صادق کو دکھایا تو وہ کہنے لگا کہ سرجری بڑی شاندار ہوئی ہے اور سب چیزیں توقع سے بڑھ کر ٹھیک ہیں۔ نزدیک کی عینک لگے گی اور سب کچھ ایسا صاف ہو جائے گا کہ آپ کو مزہ آ جائے گا مگر یہ سب کچھ تین چار ماہ بعد ہو گا۔ ابھی آپ کی نظر کو ایک جگہ ٹکنے میں تھوڑا وقت درکار ہے۔ سو تب تک کسی طرح گزارہ کریں۔ اب میں نے میز پر منشیوں جیسا شیشے کا ڈھلوان دار لکھائی والا ڈیسک سا بنوایا ہے اور دور سے لکھنے کی پریکٹس کر رہا ہوں۔ گو کہ تھوڑی مشکل ہے مگر اتنی نہیں کہ لکھ ہی نہ سکوں۔
پہلا کالم سابق وزیراعظم میاں محمد نوازشریف کے رازوں بھرے سینے پر بھی لکھا جا سکتا تھا اور ٹرمپ کے ٹویٹ پر بھی۔ لیکن سوچا آج کا کالم اقتدار سے علیحدگی کے صدمے کے شکار یا اقتدار کے نشے میں مخبوط الحواس شخص پر ضائع نہ کیا جائے کہ اس کے لیے ابھی بڑا وقت پڑا ہے۔ اس کالم کو بس حاضری سمجھیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved