اردو کے معروف ادیب اے حمید مرحوم کا خیال مجھے اس وجہ سے آیا کہ یہ موسم جب کہ بہار آنے والی ہو‘ ان کو بہت پسند تھا۔ نوّے کی دہائی کے آغاز میں جب میں لاہور ریڈیوسٹیشن پر پروگرام منیجر ہوتا تھا تو خواجہ صاحب (اے حمید صاحب کو ان کے جان پہچان رکھنے والے اکثر احباب خواجہ صاحب ہی کہتے تھے ) کی ریڈیوسٹیشن آمد اسی موسم میں زیادہ ہوتی تھی۔ جون جولائی میں اگر بہت زور لگائیں تو کسی پروگرام کے لیے گھر سے نکلتے تھے وگرنہ ڈرائیور کے ہاتھ مسودہ بھجوادیا کرتے تھے۔ ریڈیو لاہور کے وہ پرانے ملازم تھے۔ بیشتر لوگوں سے واقف تھے اس لیے جس کمرے میں آکر جم جائیں وہاں محفل بھی جم جاتی تھی۔ واقعہ سنانے میں ان کو اس قدر مہارت حاصل تھی کہ جب تک چاہتے لوگ ان کو انہماک سے سنتے رہتے اور جب چاہتے کہ اب محفل برخاست ہوجائے تو اپنے بیان میں اور انداز میں ایسی تبدیلی کرتے کہ سامعین ایک ایک کرکے چند منٹوں میں رخصت ہو جاتے۔ ریڈیو میں ہرقسم کے افسر ہو گزرے ہیں۔ 1972ء میں ریڈیو پاکستان کے کارپوریشن میں تبدیل ہونے کے بعد اے حمید صاحب کو جب سکرپٹ رائٹر سے ترقی دے کر پروڈیوسر بنادیاگیا تو ان کا واسطہ ان ہر قسم کے افسروں سے پڑنا شروع ہوگیا۔ سکرپٹ رائٹر کے طورپر وہ سٹاف آرٹسٹ کہلاتے تھے اور باقاعدہ ملازم شمار نہیں ہوتے تھے بلکہ ایک عارضی یا نیم مستقل قسم کے کنٹریکٹ کے تحت کام کرتے تھے۔ دفتر آئیں نہ آئیں کسی کوپروا نہیں ہوتی تھی‘ بس ان کے ذمے جو مسودے تحریر کرنا ہوتا تھا وہ ریڈیو سٹیشن پہنچ جائیں تو کافی سمجھا جاتا تھا۔ اسی قسم کے کنٹریکٹ پر ریڈیو لاہور میں ناصر کاظمی، مرزا ادیب سمیت کئی اہم شخصیات ملازم تھیں جن میں سے بیشتر کارپوریشن بننے سے پہلے ہی ریٹائر ہوچکی تھیں۔ ناصر کاظمی تو اس دنیا ہی میں نہ رہے تھے‘ اے حمید کو البتہ یہ کہہ کر کہ آپ کی ترقی کردی گئی ہے پروڈیوسر بنا دیا گیا۔ خواجہ صاحب کو اندازہ نہیں تھا کہ ان کی یہ ترقی کیا رنگ لائے گی۔ ہوا یہ کہ ریڈیو کے ایک انتہائی سخت مزاج افسر کی ماتحتی میں اے حمید کو کردیا گیا۔ اب اے حمید جو اپنی مرضی کا مالک ہوا کرتا تھا اس کی ڈیوٹی لگادی گئی صبح کی ٹرانسمیشن پر۔ علی الصبح ساڑھے چار بجے ریڈیو کی گاڑی خواجہ صاحب کو گھر سے دفتر لے آتی تھی ۔ پھر وقت کاٹنا محال ہوتا تھا۔ ایک روز میں صبح کے وقت دفتر پہنچا تو دیکھا کہ ریڈیو کی گرائونڈ میں دس پندرہ لوگوں کا ہجوم ہے۔ میں قریب گیا تو خواجہ صاحب ڈرائیوروں اور انائونسروں سمیت صبح کی ڈیوٹی کے سٹاف کو رات ٹی وی پر جو انگریزی فلم چلی تھی‘ اس کی کہانی سنا رہے تھے۔ وہی ان کا دلچسپ انداز اور سٹاف ممبر چھوٹے موٹے اپنے کام چھوڑ کر کہانی سن رہے تھے۔ یکدم خواجہ صاحب نے اپنی گھڑی دیکھی جیسے کوئی کام یاد آگیا ہو اور پھر وہی روکھا سا انداز فوراً اختیار کیا جس سے کہانی میں سب کی دلچسپی ختم ہو گئی اور دو منٹ میں لوگ ادھر ادھر ہوگئے۔ خواجہ صاحب ڈیوٹی روم میں اپنی ڈیوٹی پر جا بیٹھے ‘ جس کے دوران ان کا معمول تھا کہ دفتر کے کام کے ساتھ ساتھ اس افسر کو بھی کوستے رہتے جس نے ان کی یہ ڈیوٹی لگائی تھی۔ صبح کے وقت گرائونڈ میں رونق لگانے والے واقعے کا دن میں‘ میں نے ذکر اپنے ایک ساتھی عتیق اللہ شیخ سے کیا۔ وہ اکثر صبح کی ڈیوٹی میں خواجہ صاحب کے ساتھ ہوتے تھے۔ شیخ صاحب زور سے ہنسے ۔ کہنے لگے خواجہ صاحب کمال کے آدمی ہیں۔ اپنا ٹائم پاس کرنے کے لیے جو کہانی سناتے ہیں اس کے بارے میں ایک مرتبہ کہہ رہے تھے کہ شیخ جی ان کو جو میں کہانی سناتا ہوں وہ ٹی وی پر جو فلم چلی ہوتی ہے اس سے بعض اوقات مختلف ہوتی ہے۔ جہاں جہاں ٹی وی کی کہانی بور ہوتی ہے اس میں میں اپنی طرف سے اضافے کرکے ان لوگوں کے لیے دلچسپ بنائے رکھتا ہوں اور ویسے بھی جتنی تیز انگریزی بولی جاتی ہے ان فلموں میں اس کو پوری طرح سمجھنا بھی تو مشکل ہوتا ہے۔ تو شیخ جی جو کہانی میں سناتا ہوں وہ میری اپنی ہوتی ہے اور میرے قابو میں نہیں ہوتی۔ ریڈیو ہی میں ہمارے ایک دوست ہوتے تھے نواز۔ جی ہاں وہ اپنا نام یہی بتاتے تھے‘ یہی لکھتے تھے اور اسی نام کے تحت انہوں نے سینکڑوں ریڈیو اور ٹی وی کے ڈرامے تحریر کیے اور دو چار فلموں کے بھی مصنف تھے۔ استاد امانت علی خاں کا گایا ہوا گیت ’’ایہہ دھرتی میرا سونا یارو میں ایدھا سنیارا‘‘ بھی نواز کا تحریر کردہ تھا۔ نواز کی خواجہ صاحب سے بہت پرانی اور گہری دوستی تھی۔ غالباً امرتسر سے ایک دوسرے کو جانتے تھے۔ پتہ نہیں کس سبب سے نواز، خواجہ صاحب کو زپاٹا (Zapata)کہا کرتے تھے۔ نواز سے ایک مرتبہ میں نے خواجہ صاحب کے اس ہنر کا ذکر کیا کہ کمال آدمی ہیں جب موڈ ہوتا ہے اپنے گرد لوگ جمع کرکے ان کو کہانی سننے میں مشغول رکھتے ہیں جب کوئی کام یاد آجائے تو اس کہانی کو ایسا موڑ دے دیتے ہیں کہ سب ادھر ادھر ہوجاتے ہیں۔ نواز ہلکا سا مسکرائے اور بولے اس کام کا تو زپاٹا بادشاہ ہے۔ انہوں نے اس حوالے سے ایک پرانا قصہ سنایا۔ کہنے لگے میکلوڈ روڈ سے میں اور زپاٹا دونوں رات کو واپس گھروں کو جاتے تھے۔ میرا گھر گوالمنڈی میں تھا جو پہلے آتا تھا اور زپاٹا آگے مصری شاہ میں رہتے تھے ان دنوں۔ واپس جاتے ہوئے جب میرا گھر قریب ہوتا تو اے حمید ایسا کوئی دلچسپ واقعہ چھیڑ دیتے کہ میں سننے کے لالچ میں اپنے گھر جانے کے بجائے موصوف کو چھوڑنے مصری شاہ چلا جاتا تھا اور جونہی ان کا گھر قریب آتا تھا تو کمال مہارت سے قصے میں میری دلچسپی کو ختم کردیتے تھے اور ایسا تقریباً روز ہی ہوتا تھا۔ روز میں تہیہ کرتا تھا آج کچھ ہوجائے میں گوالمنڈی پہنچ کر اجازت لے لوں گا مگر کبھی کامیاب نہ ہوسکا۔ یہ تھے ہمارے اے حمید۔ ان کی ادبی خدمات پر ہزاروں مضامین لکھے جاچکے ہیں اور لکھے جاتے رہیں گے۔ ویسے بھی ادب پر تبصرہ کرنا میرا منصب نہیں ہے لیکن بہار کے موسم میں اے حمید سے ہونے والی ملاقاتیں‘ خاص طورپر اپنے دفتر میں‘ ہمیشہ یاد رہیں گی۔ ویسے میں ان کے گھر بھی کبھی کبھی جاتا تھا۔ میں نے جتنی محبت اے حمید اور ان کی بیگم میں دیکھی آج تک کسی جوڑے میں نہیں دیکھی۔ اور اے حمید کو میں نے کم ہی کسی کے خلاف بولتے سنا۔ صرف ایک استثناء ہے کہ ریڈیو کا جو افسر ان کے مرتبے کا بالکل لحاظ نہیں کرتا تھا اور جان بوجھ کر ایسی ڈیوٹی دیتا تھا کہ خواجہ صاحب پر گراں گزرے اس کے بہت خلاف تھے۔ جب وائس آف امریکہ کی اردو سروس میں ان کو نوکری مل گئی اور وہ امریکہ جانے کی تیاری کررہے تھے تو نواز کے بقول ان کو بہت سے لوگوں نے مشورہ دیا کہ ریڈیو کی ملازمت سے استعفیٰ نہ دیں بلکہ چھٹی وغیرہ کی درخواست دے کر چلے جائیں۔ دوتین سال بعد جب واپس آئیں گے تو زیادہ سے زیادہ ریڈیو کے اس وقفے کو بغیر تنخواہ کے چھٹی شمار کرلیا جائے گا۔ مگر اے حمید نے کسی کی نہ سنی اور مستعفی ہوکر ہی گئے۔ برسوں بعد جب اس بہار کے موسم میں وہ میرے کمرے میں تشریف فرما تھے اور اس وقت قدرتاً اور کوئی نہیں تھا تو میں نے خواجہ صاحب سے پوچھا آخر آپ نے استعفیٰ دینے پر اصرار کیوں کیا۔ عجیب سے انداز سے مسکرا کر کہنے لگے جو افسر مجھے تنگ کرتا تھا میری بڑی خواہش تھی کہ میں اپنا استعفیٰ اس کے منہ پر ماروں اور جب پھر میں نے ایسا کیا تو سمجھو آج تک استعفیٰ اس کے منہ پر مارنے کا نشہ مرے وجود کے ہرحصے میں موجود ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved