تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     07-01-2018

عائلی عیاشیاں

٭...ایک خاتون کسی غرض سے ایک ماہ کے لیے ملک سے باہر گئیں تو اپنے شوہر کو تاکید کر گئیں کہ اُن کی لاڈلی بلی اور والدہ کا خیال رکھے۔ کوئی دس روز بعد اس نے فون کر کے خیروعافیت دریافت کی تو شوہر بولا‘ تمہاری بلی مر گئی ہے‘ جس پر بیوی بولی ''موت کی اطلاع کوئی اس طرح دیتے ہیں؟‘‘ تمہیں کہنا چاہیے تھا کہ بلی چھت پر کھیل رہی تھی کہ چھت سے گر کر زخمی ہو گئی تھی‘ اس کا علاج کرایا لیکن وہ بچ نہ سکی۔ خیر‘ چھوڑو‘ یہ بتائو میری ماں کا کیا حال ہے؟
''وہ چھت پر کھیل رہی ہیں!‘‘ شوہر نے جواب دیا۔
٭...ایک صاحب نے اپنے ایک دوست سے بیویوں کو رام کرنے کا طریقہ پوچھا تو وہ بولا :
صرف ایک طریقہ ہے‘ اور وہ یہ کہ بیوی کے حسن کی تعریف کرنا۔
اور‘ اگر وہ حسین نہ ہو تو؟ ان صاحب سے پوچھا
اس صورت میں تو یہ اور بھی ضروری ہے
وہ صاحب گھر گئے تو بیوی آٹا گوندھ رہی تھی وہ بولے۔
بہت خوبصورت لگ رہی ہو۔
''کیا کہا؟ بیوی نے سر اٹھا کر کہا‘ تو وہ بولے
''خدا کی قسم بالکل حُور لگ رہی ہو‘ جس پر بیوی نے رونا شروع کر دیا‘ تو وہ صاحب بولے۔
''یہ کیا بات ہوئی؟ میں نے تمہاری تعریف کی ہے اور تم نے رونا شروع کر دیا؟ تو بیوی بولی روئوں نہ تو اور کیا کروں‘ چھوٹی بیٹی نے سلائی مشین میں دے کر اپنی انگلی زخمی کر لی ہے اور بڑی نے ڈنر سیٹ توڑ دیا ہے اور اُوپر سے آپ نشہ کر کے آ گئے ہیں‘‘
٭...ایک صاحب کو پچھلی رات بھوک نے ستایا تو انہوں نے فریج کھول کر دیکھا لیکن کچھ نہ ملا البتہ الماری میں سے انہیں کتے کے بسکٹ پڑے ملے جو انہوں نے شوق سے کھا لیے اور صبح اُٹھ کر بیوی سے کہا کہ ڈاگ بسکٹ ذرا زیادہ لایا کرو کیونکہ مجھے بہت لذیذ لگے ہیں۔ بیوی نے بیکری پر جا کر ذرا زیادہ ڈاگ بسکٹ مانگے تو بیکری والے نے پوچھا کہ کیا کوئی اور کتا رکھ لیا ہے؟ جس پر اس نے بتایا کہ یہ میرے خاوند کو بہت پسند آئے ہیں‘ جس پر بیکری والے نے کہا کہ یہ بسکٹ انسانی جان کے لیے خطرناک ہوتے ہیں لیکن بیوی نے کہا‘ انہیں پسند ہیں تو وہ کیا کرے۔ چنانچہ وہ زیادہ ڈاگ بسکٹ لے جانے لگی کچھ عرصے بعد اس نے زیادہ بسکٹ خریدنے چھوڑ دیئے تو بیکری والے نے وجہ پوچھی تو وہ بولی کہ میرے خاوند شوق سے کھایا کرتے تھے لیکن ان کا اگلے روز انتقال ہو گیا۔ جس پر بیکر نے کہا کہ میں نے کہا تھا کہ یہ انسانی جان کے لیے نقصان دہ ہوتے ہیں جس پر وہ بولی: وہ ڈاگ بسکٹ کھانے سے نہیں مرے‘ بلکہ وہ تو گاڑیوں کے پیچھے بھاگ بھاگ کر فوت ہوئے ہیں۔
٭...ایک خاتون کسی کام کے لیے چند دنوں کے لیے شہر سے باہر گئیں تو شوہر سے کہا کہ تمہاری سرگرمیاں پہلے ہی بہت مشکوک ہیں اس لیے خبردار جو تم نے رات کو گھر سے باہر قدم رکھا‘ سو اس کے لیے میں یہ احتیاط کر رہی ہوں کہ میں فون کروں تو تم سٹیل والا دیگچہ کھڑکا دیا کرنا‘ اس کی آواز میں سن لیتی ہوں۔ اس سے مجھے یقین ہو جائے گا کہ تم گھر پر ہی ہو‘ چنانچہ وہ رات کو کئی کئی بار فون کر کے شوہر کی گھر پر موجودگی کا ثبوت حاصل کرتی رہیں۔ جب وہ واپس آئیں تو نوکر سے پوچھا‘ صاحب رات کو گھر سے باہر تو نہیں نکلتے تھے؟ جس پر نوکر بولا: وہ تو رات رات بھر گھر سے باہر رہا کرتے تھے البتہ ہر بار سٹیل کا دیگچہ ساتھ لے جایا کرتے تھے!
٭...ایک نوے سالہ بزرگ نے سولہ سالہ لڑکی سے شادی کر لی، اس کے پوتے کو پتا چلا تو وہ بھاگا بھاگا آیا اور بولا:
دادا جان یہ آپ نے کیا کیا‘ آخر موت‘ فوت آدمی کے ساتھ ہے۔
موت‘ فوت کا کیا ہے؟ دادا جان بولے‘ یہ مر گئی تو میں کوئی اور کر لوں گا!
٭...ایک صاحب اپنی پچانویں سالگرہ منا رہے تو مدعوین میں سے ایک صحافی نے اس عمر میں ان کی صحت کا راز پوچھا تو وہ بولے:
''جب میری شادی ہوئی تو ہم میاںبیوی نے یہ معاہدہ کر لیا تھا کہ اگر کبھی لڑائی ہو جائے تو ہم میں سے ایک گھر سے باہر چلا جایا کرے‘ چنانچہ میں اکثر کھلی فضائوں میں رہا ہوں جس نے میری صحت پر نہایت اچھا اثر ڈالا ہے‘‘۔
٭...ایک صاحب کتابوں کی دکان پر گئے اور بیویوں کو رام کرنے کا ہنر معلوم کرنے کے لیے کسی کتاب کا مطالبہ کیا جس پر کتاب فروش بولا:
اس موضوع پر ہمارے پاس ایک ہی کتاب بچی تھی جو کچھ دیر پہلے آپ کی اہلیہ خرید کر لے گئی ہیں۔
وہ کس موضوع پر تھی؟ وہ بولے
اس کا عنوان تھا‘ شوہروں کو بیوقوف بنانے کے سو طریقے۔
٭...میاں بیوی سو رہے تھے کہ زلزلہ آیا اور موٹی بیوی بیڈ سے نیچے گر گئی تو میاں بولے:
بیگم تم زلزلے کی وجہ سے گری ہو یا زلزلہ تمہارے گرنے کی وجہ سے آیا ہے؟
٭...ڈاکوئوں نے ایک سیٹھ کے گھر پر واردات کی لیکن وہاں سے کچھ بھی ہاتھ نہ آیا‘ جس پر وہ اس کی بیوی کو گاڑی پر لاد کر لے گئے اور سیٹھ سے کہہ گئے کہ اگر تم نے کل تک دو لاکھ ادا نہ کئے تو ہم اسے چھوڑ دیں گے!
اور‘ اب خانہ پری کے طور پر یہ تازہ غزل :
غیر جانبدار ہے‘ حامی نہیں
نارسائی تھی یہ ناکامی نہیں
جو بنائی تھی سہارے کے لیے
ہم نے وہ دیوار بھی تھامی نہیں
بات پہلے سے بتا دیتا ہوں میں
پھر بھی کہتے ہو کہ الہامی نہیں
غلطی کرتا ہوں میں جو بار بار
پختگی ہے یہ کوئی خامی نہیں
اُس کی اُمید اور اُس کا انتظار
مُستقل ہے‘ کوئی ہنگامی نہیں
اک بغلگیری سو‘ ہلکی سی بھی وہ
ہے کمائی ہم نے انعامی نہیں
سادہ سادہ سا ہے کچھ اس مرتبہ
وصل کا حلوہ یہ بادامی نہیں
پکڑے جانا اک عبادت گو کے ساتھ
نیک نامی ہے یہ بدنامی نہیں
عامیانہ پن ہی اتنا ہے‘ ظفرؔ
پھر بھی کہتے ہو کہ میں عامی نہیں
آج کا مقطع
پُوری بھی تو بتائیں ظفرؔ
آدھی بات بتاتے ہیں

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved