تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     07-01-2018

بقا کا مسئلہ

اگر آپ دنیا کے مشکل ترین کاموں کا شمار کریں تو وزن کم کرنا ان میں سرِ فہرست ہو گا۔ شروع شروع میں جب انسان قبائل کی شکل میں اس زمین پر آباد ہوا تو خوراک کی بروقت دستیابی ممکن نہ تھی۔ کبھی شکار ہاتھ آتا اور کبھی خالی ہاتھ لوٹنا پڑتا۔ ا س وقت تک انسان کے پاس ایسے ہتھیار نہیں تھے ، جن سے جانوروں کو وہ با آسانی زیر کر سکتا۔ جنگلات میں رہنے والے حیوانوں کی حسیات انسانوں سے کہیں تیز ہوتی ہیں ۔ سونگھنے کی حس میں ویسے ہی ہم کمزور تھے۔ ہمارے پاس خوراک کا ذخیرہ نہیں تھا۔ دکانوں پر مسلسل رسد نہیں تھی ۔ اس طرح کی کرنسی نہیں تھی ، جس سے اشیا کا لین دین اس قدر آسان ہو سکتا ۔ ان حالات میں جب شکار مشکل سے ہاتھ آتا تو انسان خوب پیٹ بھر کے کھانا کھاتے۔ جب خالی ہاتھ لوٹتے تو بھوکے پیاسے صبر کرتے۔ انہیں بہت سا جسمانی کام بھی کرنا پڑتا تھا۔ ان حالات میں موٹاپا نہ ہونے کے برابر تھا۔ 
جیسے جیسے زمین پر انسان کا قیام طویل ہوتا چلا گیا ، اس نے بہت ساری ایجادات کیں۔ کرنسی، بندوق اوروہ دوسری چیزیں ، جن سے خوراک کی رسد اور لین دین بہت آسان ہو گیا۔ انسان نے باقاعدہ فصلیں اگائیں ۔ اناج کے گودام بنائے۔ جب فریج ایجاد ہوا تو پھر خوراک ذخیرہ کرنا اور بھی آسان ہو گیا۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ ہم کئی کئی سال کی خوراک ذخیرہ کرنے لگے ۔ آہستہ آہستہ پھلوں کی جگہ گندم اور چاول نے لے لی، جن میں بے پناہ توانائی موجود ہوتی ہے ۔ ہم تین وقت گندم کی روٹی یا چاول کھانے لگے۔پڑھے لکھے لوگوں کی زندگی میں جسمانی کام ویسے ہی ختم ہو چکے تھے ۔ گھر میں گیس موجود ہے ، لکڑیاں لانے کی ضرورت نہیں ۔ گاڑی موجود ہے ، پیدل چلنے کی ضرورت نہیں ۔ گھریلو کام کاج ، کپڑے دھونے اور صفائی کے لیے ملازم موجود ہیں ۔ کھانے میں گھی کا استعمال بڑھتا جا رہا تھا۔ پراٹھا ناشتے کے لیے لازم و ملزوم ہوگیا۔ گھی میں پکانے سے لذت میں اضافہ ہو جاتا ہے ۔ آہستہ آہستہ ایسی فاسٹ فوڈ چینز بننے لگیں، جہاں تلے ہوئے آلو اور گوشت کے ٹکڑے انتہائی لذیذ خوراک کے طور پر موجود تھے ۔ گنے اور شکر کی جگہ چینی رائج ہو چکی تھی ، جو کیمیکلز سے بھرپور تھی ۔ کولڈ ڈرنکس کے ایک ایک گلاس میں بیس بیس چمچ چینی اورکاربن ڈائی آکسائیڈ گیس بھر دی جاتی ہے۔ انسان کھاتے گئے، موٹے ہوتے چلے گئے۔ ایک دفعہ فربہ اندام ہو جانے کے بعد دوبارہ وزن کم کرنا دنیا کا وہ مشکل ترین کام تھا، جہاں لحیم شحیم مرد بھی ہار ماننے لگے۔ موٹاپے سے انہوں نے سمجھوتہ کر لیا۔ 
یہ وہ برس تھے، جب شادی کے بعد میرا اپنا وزن بھی بڑھتا جا رہا تھا۔ اسے 65 سے 70 کے درمیان ہونا چاہیے تھا لیکن اب 80کو چھو رہا تھا۔ انہی دنوں ٹی وی میں ، میں نے ایک حیرت انگیز مشاہدہ کیا۔ مارننگ شوز کی میزبانوں سمیت شوبز کی خواتین ضرورت پڑنے پر وزن اس طرح کم کر رہی تھیں، جیسے کہ یہ کوئی مشکل کام ہی نہیں ۔ جبکہ عام معاشرے میں موٹے مردوں کی اکثریت بھی ہار مان چکی تھی۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ دنیا کا یہ مشکل ترین کام نازک اندام خواتین اتنی آسانی سے کیسے کر رہی تھیں اور مرد کیوں ناکام تھے ؟ اس کی وجہ یہ تھی کہ شوبز کی خواتین کے لیے وزن کم کرنا ان کی بقا کا مسئلہ تھا۔ یہ سروائیول کی جنگ تھی۔ ہر جاندار اپنی بقا کی جنگ اس خوبصورتی سے لڑتا ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ ان کے مقابلے میں معاشرے کے عام مردوں کے لیے وزن کم کرنا ان کی بقا کا مسئلہ نہیں تھا‘ اس لیے وہ ہار مان چکے تھے ۔ 
انہی دنوں میں اپنے ایک ڈاکٹر دوست کے پاس گیا۔ اس نے مجھ سے کہا کہ اگر تم بڑھے ہوئے وزن کے ساتھ سمجھوتہ کر چکے ہو تو پھر بلند فشارِ خون، دل کے امراض اور بالخصوص شوگر کے لیے بھی تیار ہو جائو۔ مجھے ایک جھٹکا سا لگا۔ یہ وہ وقت تھا، جب مجھے احساس ہوا کہ وزن کم کرنا میری بقا کا مسئلہ ہے۔ اس بات کو پانچ چھ ماہ گزر چکے ہیں۔ ان چھ مہینوں میں، میں آٹھ کلو گرام کم کر چکا ہوں۔ کھانا دن میں تین دفعہ کی بجائے دو بار ۔ دو چپاتیوں کی جگہ ایک۔ چینی کی جگہ شہد ، بے وقت بھوک لگنے پر بیکری آئٹمزاور کولڈ ڈرنکس کی جگہ دن میں تین چار پھل۔ آرام دہ جاگرز پہن کر ایک گھنٹا تیز چہل قدمی۔ وجہ صرف اتنی تھی کہ میں موٹاپے کے ساتھ سمجھوتہ کر سکتا تھا لیکن ذیابیطس، بلند فشارِ خون اوربیمار دل کے ساتھ نہیں ۔ اب یہ میری بقا کا مسئلہ بن چکا تھا۔ 
امیر زادوں کے لیے ایک بہت بڑا مسئلہ یہ ہے کہ زندگی میں جدوجہد کرنا ان کے لیے بقا کا مسئلہ نہیں ہوتا۔ ماں باپ کی طرف سے بہت ساری جائیداد انہیں ویسے ہی مل جاتی ہے ۔ اس لیے ان میں سے زیادہ تر سنجیدگی سے کوئی کام نہیں کرتے ۔ اس کے برعکس اگر آپ ان لوگوں کی زندگیوں پر نظر ڈالیں، اپنے اپنے شعبے میں جنہوں نے تاریخ ساز کامیابیاں حاصل کیں تو انکشاف ہوتا ہے کہ بچپن ہی سے انہیں نامساعد حالات کا سامنا تھا۔ شیر شاہ سوری بھی ان میں سے ایک تھا اور ابرہام لنکن بھی۔ آج بھی آپ غریبوں کے بچے دیکھیں ، ان میں جدوجہد کرنے کی صلاحیت زیادہ ہے ۔ انہیں قدرتی طور پر ایسے حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، جن میں اگر وہ زیادہ smartاور sharpنہ ہوں تو مارے جائیں۔ ان کے برعکس ہمارے بچّے شروع ہی سے اپنی ہر خواہش کو پورا ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ زندگی کوئی ایسی چیز نہیں، جو انسان کی ہر خواہش کو پورا کرتی رہے ۔ یہی وجہ ہے کہ جب ماں باپ کا سایہ اٹھ جاتا ہے تو پھر ایسے بچّوں کو حالات کے ساتھ سمجھوتہ کرنے میں بہت وقت لگتا ہے۔ بہرحال انسانی دماغ میںسیکھنے کی صلاحیت اس قدر حیرت انگیز ہے کہ جب اسے کوئی کام مجبوراً بھی کرنا پڑے تو بھی وہ بہت کچھ سیکھ لیتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال ہمارے سامنے ہے کہ جن لوگوں کو پہلا گیئر لگانا نہیں آتا،مجبوراً گاڑی چلانی پڑے تو تین مہینے بعد وہ خوب تیز رفتاری سے اسے بھگا رہے ہوتے ہیں ۔ 
جو چیز انسان کی بقا کا مسئلہ بن جائے، اس میں وہ حیرت انگیز کارکردگی کا مظاہرہ کرتا ہے۔ اقتدار کی جنگ میں دوسرے سیاستدانوں کا گلا کاٹنا بقا کا مسئلہ ہوتا ہے ۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ کس طرح وہ ایک دوسرے کی گردن پر چھری پھیرتے ہیں۔ کل کے دوست آج کے جانی دشمن نظر آتے ہیں۔عمران خان اور جاوید ہاشمی کی مثال آپ کے سامنے ہے ۔ جتنی دیر انسان کسی سرگرمی میں مصروف رہتا ہے ، اتنی دیر اس سے منسلک کیفیات دماغ پر غلبہ پا لیتی ہیں ۔ اگر انسان دیر تک کاروباری منصوبے بناتا رہے تو پھر پیسے کمانے کی خواہش اس پر غالب رہتی ہے ؛حتیٰ کہ کاروبار ہی انسان کی زندگی بن جاتا ہے۔ اسی طرح جب انسان انتقام کو خود پر سوار کر لیتاہے تو پھر بعض اوقات اس کی باقی ساری زندگی اسی انتقام کی نذر ہو جاتی ہے ۔ ان حالات میں ایسا لگتا ہے انسان کو کوشش کر کے اور اپنے آپ کو pushکر کے اپنے دماغ کو مثبت کیفیات کے سپرد کرنا ہوگا۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved