تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     08-01-2018

نثر نخرے

طائوس فقط رنگ
نیلم احمد بشیر کا ناول ہے جسے سنگ میل پبلشرز نے چھاپا اور اس کی قیمت 295 روپے رکھی ہے۔ کتاب کا نام اقبال کے اس مصرع سے لیا گیا ہے۔
بلبل فقط آواز ہے‘ طائوس فقط رنگ
خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ انتساب بہترین دوست اور ساتھی سلمیٰ اعوان کے نام ہے اور ضخامت 300 صفحات‘ ٹائٹل صدف ناصر کے موقلم کا نتیجہ۔ پس سرورق اپنی تصویر کے نیچے مصنفہ رقمطراز ہیں:
زندگی کے ساتھ ہی کہانی کا بھی جنم ہو جاتا ہے۔ میرے اندر بھی ازل سے ہی کہانی اور زندگی ساتھ ساتھ دھڑکتی اور بھڑکتی رہتی ہیں۔ جو کچھ بیتا‘ دیکھا‘ برتا اور محسوس کیا‘ ناول میں کہہ دینے کی کوشش کی۔ ہم کہاں ہیں؟ کس جہان کے ہیں؟ کس نگر کے ؟ گھر اپنا ہے؟ معلوم نہیں۔ لگتا تو یہ ہے کہ سارا جگ ہی اپنا ہی۔
ہنستا کھیلتا عدنان
ٹائٹل پر درج تحریر کے مطابق معروف صحافی ضیا شاہد کے 36 سالہ نوجوان بیٹے عدنان شاہد مرحوم‘ جو لندن میں اچانک دل کا دورہ پڑنے سے جاں بحق ہو گئے تھے‘ کے بارے میں چوٹی کے صحافیوں‘ ادیبوں‘ کالم نگاروں اور عزیزوں‘ دوستوں اور اہل خانہ کے قلم سے لازوال تحریریں‘ ٹائٹل پر ہی مرحوم اور ضیا شاہد کی تصویر۔ اسے قلم فائونڈیشن انٹرنیشنل نے چھاپا اور قیمت 1000 روپے رکھی ہے۔ کوئی ساڑھے چار سو صفحات پر محیط یہ کتاب عمدہ گٹ اپ میں پیش کی گئی ہے۔ تعزیت نگاروں میں الطاف حسن قریشی‘ مجیب الرحمن شامی‘ حسن نثار‘ ہارون الرشید‘ جاوید چودھری‘ بشریٰ رحمن‘ ڈاکٹر اجمل نیازی‘ آفتاب اقبال‘ فاروق قیصر‘ راجہ انور‘ خالد مسعود خاں‘ اطہر مسعود‘ بشریٰ اعجاز‘ صولت مرزا‘ خواجہ پرویز‘ صوفیہ بیدار‘ ادیب جاودانی‘ سلمیٰ اعوان‘ نسیم شاہد‘ غلام اکبر‘ جمیل اطہر‘ نیاز حسین لکھویرا اور دیگران ہیں۔ اندرون سرورق ضیا شاہد کا تعارف اور کتابوں کی تفصیل۔
آئینہ گر
منزہ احتشام گوندل کے افسانوں کا مجموعہ ہے جسے بک کارنر جہلم نے چھاپا اور قیمت 400 روپے رکھی ہے۔ پس سرورق تحریر کے مطابق منزہ احتشام گوندل 20 اکتوبر 1984ء کو ضلع سرگودھا کے مضافات میں پیدا ہوئیں۔ ابتدائی تعلیم گائوں للیانی میں حاصل کرنے کے بعد غوثیہ گرلز کالج بھیرہ سے فاضل عربی اور گریجوایشن کیا۔ 2007ء میں سرگودھا یونیورسٹی سے ایم اے اردو کیا اور 2009ء میں پنجاب پبلک سروس کمیشن کے ذریعے لیکچرر ہو گئیں۔ 2012ء میں سرگودھا یونیورسٹی سے ایم فل کیا اور پی ایچ ڈی کا مقالہ ''ترقی پسند تنقید کے فروغ میں ڈاکٹر محمد علی صدیقی کا کردار‘‘ کے عنوان سے تحریر کیا۔ ان کی اس سے قبل نثری اور آزاد نظموں کی کتاب ''منزہ نظمیں‘‘ 2015ء میں طبع ہو کر شاعری کے سنجیدہ قارئین سے داد وصول کر چکی ہے۔ آج کل گورنمنٹ ڈگری کالج فار وومن کوٹ مومن میں پرنسپل کے فرائض سرانجام دے رہی ہیں۔ کتاب میں کل 21 افسانے اور انتساب امی کے نام ہے۔
آسٹریلیا کے رنگ
یہ سفرنامہ ع- غ -جانباز نے لکھا ہے جسے بک ہوم نے چھاپا اور قیمت 600 روپے رکھی ہے۔ یہ باقاعدہ تصویری یا باتصویر کتاب ہے جو کوئی سوا دو سو صفحات پر پھیلی ہوئی ہے۔ انتساب اسماء ناز اور اس کے میاں ریحان لطیف کے نام ہے جن کے بلاوے پر مصنف نے آسٹریلیا یاترا کی۔ یہ ایک دلچسپ سفرنامہ ہے جیسا کہ ایک سفر نامے کو ہونا چاہئے۔ پس سرورق مصنف کی تصویر ہے جس کے نیچے مصنف کی دیگر کتابوں کی تعداد اس طرح سے ہے۔ سفر نامہ انگلینڈ (حصہ اول تصویری) سفرنامہ کینیڈا (حصہ دوم تصویری) اندھیرے سے اجالے تک (سفر نامہ آسٹریلیا تصویری)چاہتوں کا طلسم (سفر نامہ آسٹریلیا تصویری) پریتی ناول اور اس کا انگریزی درشن۔
اندرون سرورق مصنف ع۔غ جانباز کے ناول ''پریتی‘‘ کی آسٹریلیا میں تقریب رونمائی کے دعوت نامے کا عکس چھاپا گیا ہے۔
تاریخِ کنجاہ
اسے اشرف نازک کنجاہی نے تحریر کیا۔ المیر ٹرسٹ لائبریری و مرکز تحقیق و تالیف بھمبر روڈ گجرات نے چھاپا اور جس کی قیمت دعائے خیرو برکت رکھی گئی ہے۔ انتساب پرالسید نصیرالدین نصیر آف گولڑہ شریف اور والد محترم میاں پیراندت کپور صراف اور تمام اساتذہ کے نام ہے۔ پس سرورق مصنف کی تصویر جس کے نیچے یہ دو شعر درج ہیں۔
قاتل ہوں تو ہر دور میں محبوب رہوں گا
حق گو ہوں تو ہر ظلم کو مطلوب رہوں گا
جب تک کہ نئی نسل کی تقدیر نہ بدلے
میں وقت کی سولی پہ ہی مصلوب رہوں گا
اندرون سرورق (اول) پر نصیرالدین نصیر کی تصویر اور نظم جبکہ اندرون سرورق دوم پر جنرل (ر) راحیل شریف کی تصویر اور مصنف کے قلم سے ایک تعریفی نظم۔
سخاوت کی طاقت
یہ کتاب عظیم جمال اور ہاروے میکنن نے انگریزی میں لکھی جس کا ترجمہ ملک اشفاق نے کیا ہے اور بک ہوم نے چھاپ کر اس کی قیمت 300 روپے رکھی ہے اور یہ انٹرنیشنل بیسٹ سیلرز میں شمار ہوتی ہے۔ شروع میں قدیم عربی شاعر طرفہ بن العبد البکری کے ایک قصیدے سے ماخوذ یہ تحریر ہے۔
سخاوت ایک نازک اندام محبوبہ ہے جو اپنے حسن و دلکشی میں بے مثال ہے۔ مسکراہٹ کے زیور‘ جھانجھ‘ کنگن اور بازوبند اس کی خوبصورتی کو مزید نکھارتے ہیں۔ میں اس لالچی بخیل کی قبر کو دیکھتا ہوں جس نے مال جمع کیا اور خرچ کرنے میں بخل کیا۔ اس کی قبر ایک گمراہ شخص کی قبر کی طرح نظر آتی ہے۔
سخی کی قبر اونچے ٹیلے پر بنتی ہے اور موت تک عزت حاصل کرتی ہے۔ سخاوت دلیری اور شجاعت کا جزو لاینفک ہے۔
آج کا مقطع
گلے ہی پڑ گئی وہ مستقل ہمارے‘ ظفرؔ
جو دل کی بات کبھی ہم نے سرسری کی تھی

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved