تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     08-01-2018

خلوص کی قیمت

مجھے یہ واقعہ مسز طارق کے بڑے بیٹے نے خود سنایا ۔ میںنے اس سے پوچھا کہ بھری جوانی میں وہ تصوف کے خارزار میں کیونکر اترا۔ اس نے کہا : اپنی ماں کی وجہ سے ۔ پھر اس نے مجھے اپنی پوری کہانی سنائی ۔ اس نے کہا: ہم چار بھائی ہیں۔ والد کا وسیع وعریض کاروبار تھا ۔ ابھی ہم لڑکپن میں تھے کہ ایک حادثے میں ان کا انتقال ہو گیا۔ ماں غیر معمولی خاتون تھی ۔ شکل و صورت کے لحاظ سے اور سمجھ بوجھ کے اعتبار سے بھی۔ وہ غیر معمولی رکھ رکھائو کی عورت تھی ۔اولاد کی خاطر اپنی زندگی تج دینے کا اس نے فیصلہ کیا۔ کاروبار کی دنیا سے مکمل انجان ہونے کے باوجود اس نے فیصلے صادر کرنے شروع کیے ۔ جائیداد کافی تھی ۔ کئی جگہ نقصان بھی ہوا لیکن بہرحال ہم چار بھائیوں میں سے تین کسی نہ کسی طرح پڑھ لکھ گئے ۔ عملی زندگی کا آغاز کیا تو تینوں غیر معمولی ثابت ہوئے ۔ میں نے کاروبار سنبھالا تو دیکھتے ہی دیکھتے اسے چار چاند لگ گئے ۔ کئی ممالک تک میں نے اسے پھیلا دیا ۔ مجھ سے چھوٹا بھائی ایک بے مثال شاعر بنا ۔ اس سے چھوٹا بہت بڑا سائنسدان ۔ سب سے چھوٹا بھائی ذہنی طور پر معذور تھا۔ بات تو وہ سمجھ لیتا تھا لیکن اسے چلنے میں دقت ہوتی ۔ اسے صرف بہت قریب کی چیزیں ہی نظر آتی تھیں ۔ اسی طرح وہ اپنے قریب کی آواز ہی سن سکتا تھا ۔ قصہ مختصر یہ کہ اس کی حسیات (senses)سست تھیں ۔ ہم سب اپنے اپنے کاموں میں مصروف رہتے ۔ وہ گھر کے سامنے یا چھت پر بیٹھا دھوپ سینکتا رہتا ۔ کبھی کبھار وہ چہل قدمی کرنے چلا جاتا۔ کئی کئی گھنٹوں بعد واپس لوٹتا ۔ وہ سب ذمہ داریوں سے آزاد تھا ۔ 
یہاں تک پہنچ کر وہ گہری سوچ میں ڈوب گیا ۔ میں خاموشی سے اسے دیکھتا رہا ۔ کافی دیر سوچنے کے بعد اس نے سلسلہ ء کلام وہیں سے جوڑا ''اس روز ‘‘ اس نے کہا '' زندگی میں پہلی بار ماں نے ہم سے کوئی فرمائش کی۔ اس نے کہا کہ وہ یہ چاہتی ہے کہ اس کی سالگرہ پر ہم سب اسے کوئی تحفہ دیں ۔پہلی بار اس نے کسی خواہش کا اظہار کیا تھا ۔ ہم تینوں حیرا ن تھے ۔ ہماری خاطر اس نے اپنی زندگی تج دی تھی ۔ یہ صلہ دینے کا وقت تھا۔ ہم سب سالگرہ کی تیاریوں میں لگ گئے۔ آخر سالگرہ کا دن آیا ۔ میں نے 10ارب روپے کا ایک نہایت خوبصورت جہاز ماں کو پیش کیا ۔ اس میں وہ جب جہاں جس علاقے کی سیر کرنا چاہتی ، کر سکتی تھی ۔شاعر بھائی نے ایک طویل نظم ماں کے نام لکھی تھی اور کیا خوب۔ کبھی کسی نے اپنی ماں کی ایسی تعریف نہ لکھی ہوگی ۔ سائنسدان نے ایک ایسی چادر اسے پیش کی، جس کا رنگ پہننے والے کے جذبات کے اعتبار سے بدل جاتا تھا۔ سرخ، نیلے، سفید سمیت وہ کئی رنگ بدل سکتی تھی ۔ میں نے اپنی زندگی میں اس قدر خوبصورت لباس نہ دیکھا تھا ۔ ماں نے کہا کہ اب سب تفصیل بتائو کہ کس طرح تم نے یہ تحفہ میرے لیے حاصل کیا۔ میں نے بتایا کہ میں نے اپنے مینیجر کو فون کیا۔ اسے کہا کہ وہ اچھے جہازوں کی تفصیلات مجھے پیش کرے ۔ پھر دس بہترین جہازوں میں سے میں نے یہ منتخب کیا۔ مینیجر کو چیک پر دستخط کر کے دئیے۔ شاعر نے کہا کہ وہ ساری رات سوچتا رہا۔ ایک ایک مصرعہ لکھتا رہا ، مٹاتا رہا ۔ سائنسدان نے کہا کہ ایسی چادر پر وہ کئی سال سے کام کررہا تھا۔ جب ماں نے فرمائش کی تو اس نے وہ چادر سب سے پہلے ماں کو پیش کرنے کا ارادہ کرلیا۔ 
ماں مسکراتی رہی، اس نے ہمارا شکریہ ادا کیا ۔ جب یہ محفل تمام ہونے لگی تو دروازہ کھلا اور ذہنی معذور بھائی لنگڑاتا ہوا اندر آیا۔ اس کے کپڑے خاک آلود تھے ۔ اس کے رخسار پر ایک زخم تھا۔ اس سے خون رس رہا تھا۔ اس کے ہاتھ میں ایک گڑیا تھی ۔ا س گڑیا نے جو لباس پہن رکھا تھا، اس پر شیشے جڑے ہوئے تھے ۔ کئی شیشے ٹوٹے ہوئے تھے ۔ ایسا لگتا تھا کہ ہمارا چھوٹا بھائی کہیں گرا ہے یا اسے کوئی حادثہ پیش آیا ہے ۔ماں دیوانہ وار اس کی طرف لپکی۔ اسے پانی پلایا گیا ۔ اسے نہلایا گیا اور اس کے کپڑے تبدیل کرائے گئے ۔ زخم معمولی تھا، اسے پٹی کی ضرورت نہیں تھی ۔ پھر ذہنی معذور بھائی نے رک رک کر ماں کو اپنی کہانی سنائی : جب اس نے سنا کہ ماں تحفہ مانگ رہی ہے تو وہ گھر سے نکل پڑا۔ آخر اسے ایک زیرِ تعمیر عمارت نظر آئی ۔ اس نے ٹھیکیدار سے کہا کہ وہ مزدوری کرنا چاہتا ہے ۔ اتفاق کی بات یہ تھی کہ ٹھیکدار نے اسے پہچان لیا۔ اس نے کہا کہ تم تو مسز طارق کے بیٹے ہو ۔ لڑکے نے کہا کہ وہ اپنی ماں کو کوئی تحفہ دینا چاہتا ہے ۔ وہ مزدوری کرنا چاہتا ہے ۔ ٹھیکیدار نے اسے ویسے ہی کچھ رقم دینے کی پیشکش کی، جو اس نے مسترد کر دی ۔ آخر ٹھیکیدار نے اسے ایک برتن دیااور اسے مٹی کے ایک ڈھیر پر کھڑا کر دیا۔ اسے کہا کہ اس میں مٹی ڈالے اور کچھ دور خالی زمین پر پھینکتا رہے۔ 
سناٹے کے عالم میں ، ہم سب اس کی کہانی سنتے رہے ۔ ہمیں اندازہ تھا کہ کیسی مزدوری اس نے کی ہوگی۔ ساری مٹی وہ راستے میں ہی گرا دیتا ہوگا ۔ اس نے بتایا کہ ٹھیکیدار رورہا تھا۔ اس کی اپنی ماں چند روز قبل ہی فوت ہوئی تھی ۔ ٹھیکیدار نے اسے بہت سے پیسے دئیے۔ایک جگہ اسے چمکدار روشنیوں والے کھلونے نظر آئے۔ وہاں اس نے ساری رقم دکان والے کو دے دی اور فقط ایک گڑیا اٹھا کر چلا آیا۔ اس بیچارے کو پیسوں کا حساب کتاب کہاں آتا تھا۔جب وہ گھر پہنچا تو ماں کو تحفہ دینے کی خواہش میں تیزی سے سیڑھیاں چڑھنے لگا ۔ sensesسست ہونے کی وجہ سے وہ گر پڑا۔ اسے چوٹ لگ گئی۔ 
ماں گڑیا کو چومتی رہی اور ہمارے بھائی کو بھی ۔ وہ روتی رہی ۔ اتنا روئی کہ ہمارے باپ کے مرنے پر بھی کیا روئی ہوگی ۔ ہم تینوں بھائی سکتے کے عالم میں چھوٹے کو دیکھتے رہے ۔ یہ بات صاف ظاہر تھی کہ اس نے ہم تینوں کو شکستِ فاش سے دوچار کیا تھا ۔ ہمارے تحفوں پر ماں نہ تو روئی تھی اور نہ ہی جذبات سے بے قابو ہوئی تھی ۔ میں اس نتیجے پر پہنچا کہ میرے دس ارب روپے کے جہاز کی اس سو روپے کی گڑیا کے سامنے کوئی حیثیت نہ تھی ۔ میں نے صرف مینیجر کو فون کیا تھا۔ اس نے اپنا آپ دائو پر لگا دیا تھا ۔ ماں نے ہم تینوں کا بھی شکریہ ادا کیا تھا لیکن ہم ہار چکے تھے ۔
یہ وہ وقت تھا، جب میں سوچنے لگا کہ اگر ایک انسان دس ارب روپے کے جہاز پر سو روپے کی گڑیا کو ترجیح دے رہا تھا تو خدا کے ہاں حساب کتاب کے پیمانے کیا ہوں گے ۔ انسا ن تو بنیادی طور پر مادہ پرست ہے ۔ وہ تو سونے، لوہے ، کوئلے اورتیل کے ذخائر سے محبت کرتا ہے ۔ خدا نے تو یہ چیزیں خود بنائی ہیں ۔ وہ تو ان چیزوں سے محبت نہیں کرتا۔اگر ایک انسان یعنی میری ماں خلوص کو اس قدر اہمیت دے رہی تھی تو خدا کے ہاں اس خلوص کی قیمت کیا ہوگی؟ 
اس نے فیصلہ کیا کہ ایک سو روپے کی گڑیا لوں اور خدا کو پیش کروں ۔ ایسی گڑیا جو دس ارب روپے کے جہاز پہ بھاری ہو جائے ۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved