اُتر پردیش کی ایک مشہور کہاوت ہے ''جے کی عادت جائے نہ جی سے، نیم نہ میٹھا ہووے چاہے کھاؤ گُڑ گھی سے!‘‘ یعنی عادت آسانی سے نہیں جاتی۔ جسے جس چیز کی عادت پڑ گئی ہو وہ اُس عادت ہی کے سہارے زندگی بسر کرتا ہے۔ نیم کے مزاج میں تلخی ہے۔ اُسے اگر گُڑ ملاکر بھی کھائیے تو بھی کڑوا ہی رہے گا۔
کہنہ و پختہ عادتیں بھی پرانے دوستوں کی طرح ہوتی ہیں، مشکل سے جان چھوڑتی ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اِن عادتوں کی سفّاکی بڑھتی ہی جاتی ہے۔
عادت کا پختہ ہو جانا کیا ہوتا ہے، یہ جاننا ہے تو چین کے لی چینگ کے بارے میں پڑھیے۔ لی چینگ نے اپنی بیوی کو قتل کیا اور پھر فرار ہوکر ایک دور افتادہ صوبے میں روپوشی اختیار کی۔ اس نے نام بھی تبدیل کیا اور حلیہ بھی۔ ساتھ ہی ساتھ اس نے زبان بھی بند کر لی۔ بارہ سال تک وہ گونگا بنا رہا۔ اور جب پولیس نے گرفتار کیا تو وہ ایک لفظ بھی نہ کہہ سکا کیونکہ بولنا بھول چکا تھا!
جیسی عادت اپنائی جائے اور پختہ کی جائے‘ انسان ویسا ہی ہوتا جاتا ہے۔ اگر کسی کو جھوٹ بولنے کی عادت پڑ جائے تو جھوٹ ہی بولے گا، غیر محسوس طور پر بھی۔ اور اگر کوئی حق گوئی پر مائل ہو تو اللہ کی ذات اُسے دروغ گوئی کی طرف جانے ہی نہیں دے گی۔ قول و فعل کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ جنہیں صرف بولنے میں لطف محسوس ہوتا ہے وہ محض بولتے رہنے کو زندگی کا مقصد سمجھ کر خوش اور مطمئن ہو رہتے ہیں۔ اور جو عمل کی دنیا میں اپنے جوہر دکھانے کو بے تاب رہتے ہیں‘ اللہ تعالیٰ اُنہیں عمل کی توفیق عطا فرماتے رہتے ہیں۔
ایسا ہی ایک کیس بھارت کی ریاست جھاڑ کھنڈ میں بھی سامنے آیا ہے۔ جھاڑ کھنڈ میں ایک بھکاری ایسا بھی ہے جو کروڑ پتی ہے! جی ہاں، بھکاری اور وہ بھی کروڑ پتی۔ چھوٹو برائیک کی ماہانہ آمدن کم و بیش 6 لاکھ روپے ہے۔ اس میں سے 50 ہزار روپے بھیک کے ہوتے ہیں۔ چھوٹو ایک زمانے سے بھیک مانگ رہا ہے۔ مانگ مانگ کر جو رقم اس نے جمع کی اُس کی مدد سے ''چھوٹو امبانی‘‘ بننے کی کوشش کرتے ہوئے اب اچھی خاصی ''ایمپائر‘‘ کھڑی کر لی ہے۔ یہ ایمپائر کئی دکانوں پر مشتمل ہے جن میں ایک بڑی دکان برتنوں کی بھی ہے۔ یہ دکان چھوٹو کی تین میں سے ایک بیوی چلا رہی ہے۔ دوسری دو بیویاں بھی اُس کے دیگر ''بزنس ایڈونچرز‘‘ کی منتظم و نگران ہیں۔
یہ سب کچھ تو ٹھیک ہے مگر چھوٹو اب تک نہیں بدلا۔ بات پھر وہی آ گئی۔ نیم نہ میٹھا ہووے چاہے کھاؤ گُڑ گھی سے۔ چھوٹو کے شب و روز وہی ہیں۔ وہ آج بھی بھیک مانگ رہا ہے۔ اس سے پوچھیے کہ اتنا کچھ ہو جانے پر اب تک بھیک کیوں مانگ رہے ہو تو جواب ملتا ہے ''میری زندگی میں ساری تبدیلی بھیک کی بدولت آئی ہے۔ اس کام کو ترک نہیں کیا جا سکتا۔ بھیک سے ہی تو بنا ہوں، بھیک مانگنا میری زندگی ہے۔ دنیا چاہے کچھ بھی کہے، بھیک مانگنا ترک نہیں کروں گا‘‘۔ گویا
نام لے لے کے تِرا ہم تو جیے جائیں گے
لوگ یونہی ہمیں بدنام کیے جائیں گے
اِسے کہتے ہیں ''کمٹ منٹ‘‘! مالی حالات بدل گئے۔ مستقبل بظاہر محفوظ ہو گیا ہے مگر چھوٹو کے ''پائے استقامت‘‘ میں سرِ مُو لغزش نہیں آئی۔ وہ آج بھی گداگری کے محاذ پر ڈٹا ہوا ہے۔ چھوٹو نے ثابت کر دیا کہ عزت تو آنی جانی چیز ہے، بس بندے کو ڈھیٹ ہونا چاہیے! بہ قولِ اعجازؔ رحمانی ع
کسی کسی کو خدا یہ ''کمال‘‘ دیتا ہے!
چھوٹو اب تک اپنی اوقات نہیں بھولا۔ اُس کا استدلال ہے کہ جس ''فن‘‘ نے اُسے اہلِ ثروت کی برابری کے قابل بنایا ہے‘ اُسے کیسے ترک کر دیا جائے! اُس کے خیال میں ایسا عمل ناشکری اور احسان فراموشی کے ذیل میں آئے گا! چھوٹو اس بات پر قائم ہے کہ (روحِ غالبؔ سے معذرت کے ساتھ) ؎
مدت سے زندگی کا چلن ہے گداگری
بزنس ہی کچھ ذریعۂ عزت نہیں مجھے!
یہ بھی بڑی بات ہے۔ اپنی اوقات، خواہ کیسی ہی ہو، یاد رکھنا بہت بڑا وصف ہے۔ اب زمانے کا چلن محض تبدیل نہیں ہوا، نرالا ہو گیا ہے۔ کل تک لوگ محنت کے بل پر جیتے تھے اور اِس بات پر فخر بھی کرتے تھے۔ اب ہمیں اپنے ماحول میں قدم قدم پر ایسے لوگوں سے ملنا نصیب ہوتا ہے جو حالات کے بدل جانے پر اپنے بزرگوں کا پیشہ بتاتے ہوئے شرماتے ہیں! اور ایسا نہیں ہے کہ اُن کے بزرگ کوئی غلط کام کرتے تھے۔ اگر وہ لوہار، درزی، باورچی، بڑھئی، قلعی گر، راج مستری، دکان دار، پتھارے دار یا کسی اور طرح کے محنت کش تھے تو اِس میں چھپانے والی بات کون سی ہے مگر دیکھا گیا ہے کہ لوگ اپنے محنت پسند بزرگوں کا پیشہ بتاتے ہوئے ذاتی ہتک محسوس کرتے ہیں! آج اگر کوئی چھوٹی موٹی بزنس ایمپائر کا مالک ہے تو وہ اُس کے بزرگوں کی شبانہ روز محنت ہی کا پھل ہے، اور کچھ نہیں۔ جو self-made ہوتے ہیں وہ خود سَری کی راہ پر چلتے چلتے self-mad کی منزل تک جا پہنچتے ہیں مگر یہ نکتہ ذہن سے محو نہیں ہونا چاہیے کہ اگر کسی نے اپنے طور پر بھرپور کامیابی حاصل کی ہے تب بھی اُسے بنیاد تو والدین اور اُن کے والدین یعنی دادا پردادا ہی نے فراہم کی تھی۔ کسی کو اپنے بزرگوں کی طرف سے زیادہ مالیاتی وسائل نہ بھی ملے ہوں تو ہنر اور اعتماد بہرحال ضرور ملا ہوتا ہے۔ اور اعتماد ہی کسی بھی شعبے میں کامیابی کی مرکزی کلید ہے۔ اور پھر ذرا چھوٹو برائیک کے بارے میں سوچیے کہ وہ دنیا کی نظروں میں سراسر لائقِ نفرت سمجھے جانے والے اپنے بنیادی ذریعۂ آمدن کو ترک کرنے کے لیے نہ صرف یہ کہ تیار نہیں بلکہ اُس پر اُسے آج بھی فخر ہے! اِس مرحلے پر محترم ظفرؔ اقبال خوب یاد آئے ہیں ؎
جھوٹ بولا ہے تو قائم بھی رہو اس پر ظفرؔ
آدمی کو صاحبِ کردار ہونا چاہیے
چھوٹو کو گداگر ہونے پر فخر ہے یعنی نیم کو اپنے کڑوے، کسَیلے ذائقے پر ذرا بھی شرم محسوس نہیں ہوتی اور ہم اپنے شریفانہ سلسلۂ معاش پر بھی شرمسار سے رہتے ہیں یعنی شہد مٹھاس پر شرمندہ ہو کر گردن جھکائے ہوئے ہے! یہ ہے انتہائے حماقت۔ اللہ نے جس کمال سے بھی نوازا ہے اُس پر فخر ہونا چاہیے تاکہ آمدن میں برکت کا تناسب بڑھے۔ زمانے بھر کی نظر میں ذلیل سمجھے جانے پر بھی لوگ اپنے شب و روز تبدیل نہیں کرتے اور نام نہاد شرفاء ہیں کہ آمدن کے شریفانہ ذرائع پر بھی شرمسار رہتے ہیں۔ یہ روش بلا جواز ہے اور اپنی ہی نظر میں گِرتے چلے جانے کی راہ ہموار کیے بغیر نہیں رہتی۔