بلوچستان کا سیاسی استحکام ضرب المثل ہے۔ پاکستان میں بارہا قومی اسمبلیاں بنیں۔ ان کے اندر ہی حکومتی پارٹی بنی۔ اس کے اندر سے ہی حکومت بن گئی۔ اس کا شاندار نمونہ جنرل ضیاء الحق کے دور میں پیش کیا گیا۔ جو لوگ منتخب ہوئے‘ ان میں جس کا جو دل چاہا‘ اسی پارٹی کا ممبر بن کر الیکشن جیت گیا اور جسے کچھ نہ سوجھا‘ اس نے از خود اپنے آپ کو مسلم لیگی ڈیکلیئر کر دیا۔ مسلم لیگ کا امتیازی وصف یہ ہے کہ وہ کھڑے کھڑے‘ بیٹھے بیٹھے‘ لیٹے لیٹے‘ جس حالت میں ہو‘ مسلم لیگی بن جاتا ہے۔ ایک لطیفہ مشہور ہے کہ قومی اسمبلی کے ایک منتخب رکن‘ جنرل سٹور میں کھڑے پسند کی چیزوں کا انتخاب کر رہے تھے کہ انہیں سیل فون پر کال آ گئی۔ دوسری طرف سے اسے بتایا گیا کہ قومی اسمبلی میں مسلم لیگ بن رہی ہے۔ تمہارا کیا ارادہ ہے؟ اس نے وہیں کھڑے کھڑے جواب دیا ''اگر مسلم لیگ بن گئی ہے تو صدر کے منصب پر فائز‘ جنرل نے ملک کا نظم و نسق سنبھال لیا ہو گا‘‘۔ ''ایک سکینڈ ضائع نہ کرو۔ وہاں مسلم لیگ بن رہی ہے ۔ اور تم یہاں شاپنگ کر رہے ہو؟ فوراً ہی فہرست میں اپنا نام لکھوا دو‘‘۔ اسی طرح انتخابات میں کامیاب ہونے والے جس ممبر کو فون آتا‘ وہ سب سے پہلے یہی پوچھتا ''کیا مسلم لیگ بن رہی ہے؟‘‘ بہت سے ممبروں نے فون کا انتظار کرنے کے بجائے‘ ڈرائیور سے گاڑی منگوائی۔ بھاگم بھاگ قومی اسمبلی پہنچا۔ وہاں اقتدار سنبھالنے والے جنرل کے کمرے میں دفتر لگا ہوا تھا۔ نئے منتخب ممبر قطار میں کھڑے ‘ اپنا اپنا نام لکھوا رہے تھے۔
مسلم لیگ‘ پاکستان کی واحد جماعت ہے جو کبھی یہ سوال نہیں کرتی کہ پارٹی کس کی ہے؟ بن کیسے رہی ہے؟ اس کا سربراہ کون ہے؟ جیسے ہی جاننے والوں کو پتا چلا کہ بطور آزاد ممبر کامیاب ہونے والا کون ہے تو ہر انتخابی حلقے میں بھگدڑ مچ گئی۔ جس کا بس چلا وہ نام لکھوانے کے لئے بھاگ کھڑا ہوا۔ مسلم لیگ بن گئی۔ حکومت تشکیل پا گئی۔ وزارتیں لینے والے خوش نصیب‘ کابینہ میں شامل ہو گئے اور پھر اگلے ہی روز نئے نئے بنے ہوئے وزیر‘ اپنی اپنی وزارتوں کے دفتر ڈھونڈتے پھر رہے تھے۔ کسی کو سویپر نے اس کے دفتر کا دروازہ دکھایا۔ کسی کو اخبار کے ہاکر نے دفتر پہنچایا اور کوئی لفٹ کے سامنے کھڑا ہوا اوپر جانے والوں سے پوچھا رہا تھا کہ ''میں وزیر تو بن گیا ہوں۔ بلاک بھی پوچھ لیا ہے۔ مجھے صرف فلور کا نمبر بتا دو‘‘۔ دیکھتے ہی دیکھتے پارٹی تیار ہو گئی۔ جن کو غصہ آیا‘ انہوں نے دل میں توبہت سوچا کہ بھاگم بھاگ کوئی پارٹی پکڑ لینی چاہئے۔ غورکیا تو پتا چلا کہ اپوزیشن میں جا کر بھی‘ حکمران پارٹی میں شامل ہونا ہے تو کیوں نہ پہلے پہلے پہنچ کر‘ کوئی وزارت دبوچ لی جائے۔ زیادہ وقت ہو گیا تو کابینہ مکمل ہو جائے گی اور مجھے کچھ ملا بھی تو وزیر مملکت کا آفس ہوگا۔
گزشتہ روز بلوچستان میں ہاہاکار مچی۔ صوبے کی حکومت ٹھیک ٹھاک جا رہی تھی۔ ہر کوئی اپنی اپنی دہاڑی لگا رہا تھا۔ وزیراعلیٰ ہر ہفتے دو دنوں کے لئے کراچی میں اپنے عملے کے ایک مددگار کے گھر جایا کرتے۔ کوئٹہ سے اپنے ساتھ لائی ہوئی دو تین بھری بھرائی بوریاں‘ اس کے گھر چھوڑ کر حکم دیتے کہ ''میں دوست احباب سے ملنے جا رہا ہوں۔ تم یہ سب میرے بنک اکائونٹ میں جمع کرا دو‘‘۔ بہت دنوں تک کام چلتا رہا۔ وہ ہر ماہ اپنے ''مہربانوں‘‘ کو مقررہ رقم پہنچا دیا کرتے۔ حکومت آرام سے چل رہی تھی۔ خاندانوںکا خرچ پوسٹنگز اور ٹرانسفرز سے نکل رہا تھا۔ کابینہ کے اراکین بھی اسی کھاتے سے فیض یاب ہو رہے تھے۔ جیسے ہی وہ اسلام آباد جا کر‘ قطر فیم ایک صاحب اقتدار کے گھر پہنچا تو میزبان نے پوچھا کہ ''یہ تم نے کیا ہنگامہ مچا رکھا ہے؟‘‘
''سر! کیا ہو گیا؟‘‘
''آپ کو نہیں پتا؟‘‘
''نہیں سر!‘‘
''پھر تو یہی حال ہونا تھا۔ تمہاری کابینہ بکھر رہی ہے۔ حکومت لرز رہی ہے۔ وزیر بھاگے بھاگے پھر رہے ہیں اور جو وزیر نہیں ہیں‘ وہ ان سے بھی زیادہ بھاگ رہے ہیں۔ ایک تم ہو کہ اطمینان سے میرے سامنے بیٹھے پوچھ رہے ہو کہ کیا ہوا؟‘‘
''سر! میں تو اپنی حکومت کو خیر و عافیت سے چھوڑ کر آیا ہوں‘‘۔
''تمہارے صوبے میں کھلبلی مچی ہے۔ اسمبلی کے نصف سے زیادہ ممبروں نے مجھے ٹیلی فون کالز پر ٹانگ رکھا ہے‘‘۔
''سر! بلوچستان میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ یہ منچلے لوگ ہیں۔ کسی کے پابند نہیں ہوتے۔ جو مرضی ہو‘ وہی کرتے ہیں‘‘۔
'' ان دنوں ان کی مرضی ہو چکی اور وہ آپ کی حکومت کو الٹنے لگے ہیں‘‘۔
''سر! اس میں کیا مشکل ہے؟ ایک ٹیلی فون کر دیں۔ جو لوگ بھاگ دوڑ کرتے پھر رہے ہیں۔ وزیراعظم کو ان کے پاس بھیج دیں یا خود اس کے پاس چلے جائیں اور ہر ایک کے کان میں کہہ دیں کہ جب تحریک عدم اعتماد پیش ہو۔ آپ سب لوگ اسمبلی کے کانفرنس روم میں جمع ہو جائو۔ بلوچستان کا ہر سیاست دان کبھی نہ کبھی مسلم لیگی رہا ہے۔ جا کر انہیں گلے سے لگائیں اور میری طرف سے انہیں بتا دیں کہ حکومت‘ مسلم لیگ کی ہی رہے گی۔ آپ پھر سے مسلم لیگی ہو جائیں۔ میں کئی بار مسلم لیگی بنا ہوں۔ جو نیا وزیراعلیٰ بنے‘ اسے گلے لگا کر کہیں کہ حکومت‘ مسلم لیگ نے بنا لی ہے۔ ہماری فتح ہوئی۔ پاکستان زندہ باد۔ مسلم لیگ زندہ باد‘‘۔
نوٹ: چکوال میں صوبائی اسمبلی کے ضمنی الیکشن میں توقع کے عین مطابق‘ مسلم لیگ(ن) جیت رہی ہے اور باقی سب دھاندلی کا شکار ہو جائیں گے۔ فوجی آمروں نے جو راستہ نکالا ہے‘ ان کے شاگرد بھی اسی پر چل رہے ہیں۔ کسان اپنے گنے کی فصل جلا رہے ہیں اور انتخابات میں خالی رہ جانے والے ڈبے جلانا ہی مناسب رہے گا۔