تحریر : ایاز امیر تاریخ اشاعت     10-01-2018

بھولی بسری یادیں

ایک زمانہ تھا پاکستان میں ہرچیز دستیاب تھی حتیٰ کہ پاکستان ٹائمز اور ڈان اخبارمیں بڑے ہوٹلوں میں شام کی تقریبات... جیسا کہ باہرسے آئی ہوئی ڈانسر کا فلور شو...کے اشتہارات چھپتے تھے۔ یہ اشتہارات عموماً ان اخبارات کے صفحہ تین پہ ہوتے تھے۔ کبھی فلپائن کی ڈانسر کی آمد‘ یا لبنان سے سحر پھیلانے والی کوئی آرٹسٹ۔ یہ کوئی عجوبہ نہیں سمجھا جاتا تھا بلکہ اخبارات کا ریگولر فیچر تھا۔ لیکن ہماراالمیہ یہ تھا کہ سب کچھ کے ہوتے ہوئے ہماری جیبیں نسبتاً خالی ہوا کرتی تھیں۔ لہٰذا ہم صرف ونڈو شاپنگ کے متحمل ہوتے تھے یعنی کھڑکی کے باہرسے اندر جھانک سکتے تھے۔ کپتانی کی ماہانہ تنخواہ 750 روپے تھی۔ اس سے کھانا پینا تو پورا ہو جاتا لیکن اس سے زیادہ پہ ہاتھ رُک جاتا۔ اکثر رجمنٹ کی کینٹین چلانے والے خان صاحب سے اُدھارلیتے۔ وہ ایک دو سو روپے تو دے دیتے لیکن اُس سے ز یادہ پر جاکے اُن کی کریڈٹ لائن ختم ہوجاتی ۔
اِس عمر میں آکے جیب کا سامان قدرے عزت کے تقاضوں کے قریب ہے لیکن حالت دیکھیے کہ وہ چیزیں جو تب باآسانی د ستیاب تھیں بغیر مذہب کو خطرے میں ڈالے ہوئے اب ہماری سرزمین سے غائب ہوچکی ہیں ۔ اور جیسا کہ حالات عندیہ دیتے ہیں لوٹ کے آنے والی نہیں۔ کم ازکم ہماری بچی کُھچی زندگی میں ایسا ممکن نہیں لگتا۔ کم عمر لوگوں کو اس المیے کا صحیح ادراک نہیں ہو سکتا کیونکہ اُن کے ذہنوں میں اُس پرانے پاکستان کا کوئی نقشہ محفوظ نہیں۔ وہ اُس سے ناآشناہیں۔ اُن کے تجربے اورمشاہدے میں آج کا ہی پاکستان ہے اوروہ سمجھتے ہیں کہ جو دقیانوسیت اور منافقت آج سکہ رائج الوقت ہے ہمیشہ سے پاکستان کی حقیقت تھی۔ یہ پرانے وقتوں کا نوسٹیلجا (Nostalgia) ہماری عمر کے لوگوں کو لاحق ہے کیونکہ وہ زیادہ بہترموازنہ کرسکتے ہیں کہ کیا تھا اور کیا ہو گیاہے۔ اسی لئے ہماری باتوں میں ماضی کی جھلک نمایاں ہوتی ہے ۔
دیگر ممالک میں ایسا نہیں۔ وہاں ماضی اور حال کا امتزاج نظر آتاہے۔ معاشرے اُن کے ماڈرن ہیں۔ لیکن وہاں ماضی کی یادیں محفوظ ہوتی ہیں۔ پولینڈ کے دارالحکومت وارسو (Warsaw) کے درمیان میں موجود قدیم شہر جنگ عظیم دوئم میں مکمل طورپہ تباہ ہو گیا تھا۔ جنگ کے بعد اُس قدیم شہرکو دوبارہ پرانے نقشوں کی بنیاد پہ اپنی قدیم شکل میں تعمیر کیا گیا۔ وہاں جائیں تو گمان ہوتاہے کہ صدیوں پرانا شہر ہے ۔ ہمارے ساتھ کچھ ایسا ہوا کہ وہ پاکستان جو ہمیں تاریخی ورثے میں ملا اُس کی نشانیاں ہم مٹاتے چلے گئے۔ نہ یہاں کے رہے نہ وہاں کے۔ ہمارا معاشرہ ماڈرن ہے نہیں۔ ہماری سوچ فرسُودہ ہے۔ اس کے ساتھ ماضی کی اصلی نشانیوں کو بہت حدتک مٹادیااورایک ایسے معاشرے کو تشکیل دینے میں کامیاب ہوئے جو دورِ حاضر کے تقاضوں سے نابلد ہے۔ فضول بحثوں میںپڑے رہتے ہیں۔ آگے سوچنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ ہونا تو پھر یہ چاہیے تھا کہ ماضی کے ہوکے رہ جاتے لیکن ہم نے ایسا بھی نہ کیا ، نہ ماضی کے رہے نہ حال کے ۔
بہرحال کتنا رونا رویا جائے۔ ایک ذاتی نوعیت کا مسئلہ میرے لاہور کے مسکن کا ہے۔ جس ہوٹل میں ٹھہرتاہوں اُس کی کھڑکی سے پُرانا لاہور یعنی انگریزوں کا لاہورنظرآتاہے اورصبح کھڑکی سے پردے ہٹاتے ہی ایک عجیب سی کیفیت جی پہ طاری ہو جاتی ہے ۔ شام کو بھی یونہی ہوتاہے‘ خاص کر سردیوں کے موسم میں جب آخری کوّے اپنے رات کے ٹھکانوں کی طرف رواں ہوتے ہیں۔ ایک بارپھر گزرے ہوئے زمانے کی یادیں آن گھیرتی ہیں۔ یہ شا م کا وہ خطرناک لمحہ ہوتاہے جب دل ارمانوں سے بھر جاتاہے اور پھر اُس کی اُداسی کو مٹانے کیلئے کچھ کرنے کو جی چاہتاہے ۔ 
جی کی بڑھتی ہوئی اُداسی نے
کیا اکیلا سمجھ کے گھیرا ہے 
آج کے پھیلے ہوئے لاہور سے مجھے کوئی سروکار نہیں۔ میرا لاہور اِس ہوٹل سے لے کر اُس مال پہ واقع کلب تک جاتاہے جس سے میرا تعلق ہے۔ کبھی گلبرک یاایم ایم عالم روڈ جاؤں تو محسوس ہوتاہے کسی اورشہرمیں آن پہنچا ہوں۔ ڈیفنس تو دُور کی بات ہے ، کبھی جانا ہی نہیں ہوتا۔ ہم میں ڈھنگ نام کی کوئی چیز ہوتی توانگریزوں کا لاہور شہرکا سب سے پرکشش حصہ ہوتا۔ شام کو بیٹھنے کی جگہیں ہوتیں جوایک زمانے میں ہوا کرتی تھیں جب ہم کھڑکیوں سے جھانک کر اندردیکھتے تھے۔ اب سب قصۂ ماضی ہو چکیں۔ مال کی کیا رُونق ہو ا کرتی تھی۔ ہم نے وہ رعنائیاں جوتوں اور کپڑوں کی دکانوں میںبدل دیں ۔ یہ اجتماعی شعور کا مسئلہ ہے ۔ اچھا ماحول اچھے ذوق سے پیدا ہوتاہے۔جب اجتماعی ذوق ہی نہ ہو تو کیا کارنامے سرانجام دئیے جا سکتے ہیں۔ بھلا ہو ان ڈرامہ آرٹسٹوںکا جنہوں نے تھیٹر کی دنیا آ باد کررکھی ہے۔ الزام اِن پہ ہوتاہے کہ بیہودہ اورذومعنی گفتگو کرتے ہیں۔ کچھ نہ کرنے سے تو یہی بہترہے ۔بیہودہ ہی سہی کسی قسم کا تھیٹر زندہ تو ہے ۔ ہماری اخلاقیات کے پہرے داروں کی مرضی چلے تو یہ بھی بند ہو جائے ۔ ہر طرف چُپ ہی چُپ ہو ۔
اب تو پہلی تمنا یہ رہتی ہے کہ شام اچھی گُزر جائے اور صبح طبیعت ہشاش رہے۔ سیاست سے دل بھرتا جا رہاہے اور انقلاب کا لفظ باقاعدہ مذاق بن گیا ہے۔ جب آرزوئیں جوان تھیں تو ایسی باتیں اچھی لگتی تھیں۔ اب اِن کی کشش ماضی کے سایوں میں گم ہو چکی۔جہاں تک سیاست دانوں کا تعلق ہے‘ اللہ اُن کا بھلا کرے۔ ہم بھی کوئی اتنے پڑھے لکھے نہیں لیکن سیاست کی اَن پڑھی کو دیکھتے اورسُنتے ہوئے قسمت پہ رونا آتاہے ۔ ایو ب خان کا جابرانہ دور تھا ۔معاشرے پہ بہت ساری پابندیاں تھیں لیکن فیض بھی تھے ، جالب بھی اور ٹیکسالی گیٹ کے پاس اُستاد دامن کا حجرہ بھی۔ اب وہ قدغنیں نہیں ہیں۔ آج کے میڈیا کی آزادی اُس دورمیں ناقابل تصور تھی‘لیکن نہ کوئی فیض نہ جالب نہ اُستاددامن۔ پھر بھی جو تھوڑی بہت غنیمتیں ہیں اُن کی قدر کرنی چاہیے۔ ہمارے جیسا میڈیا پوری اسلامی دنیا میں کہیں نہیں۔ اعلیٰ عدلیہ جو باتیں کرتی ہے اورجوفیصلے اُن کی طرف سے صادر ہو رہے ہیں وہ کہیں اور نہیں ملتے۔ اسی کو بہت سمجھنا چاہیے۔ باقی اسلامی دنیا کی حالت دیکھ لیں۔ تخلیقی اعتبار سے مصر، ایران اور ترکی ہم سے بہت آگے ہیں۔ وہاں جو کتابیں لکھی جاتی ہیں یا جو فلمیں بنتی ہیں ہمارے ہاں نظر نہیں آتیں ۔ لیکن پھر بھی میڈیا اور عدلیہ کے حوالے سے ہم بہتوں سے اچھے ہیں ۔ 
اجتماعی ذوق کی کمی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم خوبصورتی کے دشمن ہیں۔ صفائی رکھی نہیں جاتی۔بڑے شہروں کو صاف رکھنے کیلئے باہر کی کمپنیوں کی مدد درکارہوتی ہے۔ اورچیزیں تو چھوڑئیے ہماری سمجھ میں یہ بات ابھی تک نہیں آئی کہ اس دھرتی پہ کون سے درخت موزوںہیں۔ اس ضمن میں جو بے وقوف رائے دیتاہے وہی قومی عقل بن جاتی ہے۔ موٹروے لیجیے، کیا فضول درخت دونوں اطراف لگائے ہوئے ہیں۔ نئی سڑکیں بنتی ہیں تو پہلے پرانے درخت کاٹے جاتے ہیں اور اُن کی جگہ گھٹیا ترین درخت لگائے جاتے ہیں۔ پلاسٹک شاپروں نے ملک میں تباہی پھیلائی ہوئی ہے لیکن ان کے بارے میں کوئی فیصلہ کرنا ہماری صلاحیتوں سے باہر لگتاہے ۔ 
سیاست بھاڑ میںجائے ۔بس دو تین چیزیں ہو جائیں تو معاشرہ زیادہ صاف اور بہتر ہو سکتاہے ۔ایک تو ان شاپروں کو ختم کریں۔ مملکت ِ خداداد میں آدھا صفائی کا مسئلہ اس ایک اقدام سے حل ہو جائے گا۔ دوسرا کسی طریقے سے جنرل ضیاء الحق کا نافذ کردہ حدود آرڈیننس ختم ہوجائے۔ یہ گھاٹے کا سودا ہے ۔ بس علماء کو منا لیاجائے اوریہ قانون ختم ہو تو معاشرے میں بہت ساری آسانیاں پیدا ہوجائیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved