تحریر : علامہ ابتسام الہٰی ظہیر تاریخ اشاعت     10-01-2018

انبیا ؑء کا اسلوبِ دعوت

انبیاء علیہم السلام کائنات کی سب سے برگزیدہ ہستیاں تھیں۔ جنہوں نے اللہ تبارک وتعالیٰ کے دین کی نشر واشاعت کے لیے خود کو وقف کیے رکھا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کو حکمت، بصیرت اور غیر معمولی دانائی سے نوازا تھا۔ استقامت اور اولوالعزمی کے عظیم ترین جوہر ان کی ذات میں موجود تھے۔ قرآن مجید نے سابقہ انبیاء علیہم السلام کے واقعات اور بالخصوص ان کے دعوتی اسلوب کو بڑی تفصیل کے ساتھ بیان کیا۔ قرآن مجید کا مطالعہ کرنے کے بعد دعوت کے اسلوب کے اعتبار سے انبیاء علیہم السلام کی سیرت کے جو اہم پہلو سامنے آتے ہیں‘ وہ درج ذیل ہیں:
1۔ استقامت: انبیاء علیہم السلام نے اللہ تبارک وتعالیٰ کے دین کی دعوت دیتے ہوئے اس راستے میں آنے والی تکالیف کو بڑی خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کیا۔ چنانچہ حضرت نوح علیہ السلام کو ساڑھے نو سو برس تک زبردست اذیتوں اور تکالیف کا نشانہ بنایا گیا۔ لیکن آپؑ نے ان تمام مشکلات کا مقابلہ بڑے صبر اور استقامت کے ساتھ کیا۔ صاحب بصیرت اور صاحب دانائی ہونے کے باوجود آپؑ کو دیوانہ اور مجنوں کہا گیا لیکن حضرت نوح علیہ السلام اس گستاخانہ طرز عمل اور بدسلوکی سے ذرا برابر بھی دل شکستہ نہ ہوئے بلکہ تواتر کے ساتھ اللہ تبارک وتعالیٰ کے دین کی دعوت دیتے رہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بھی مختلف طرح کی اذیتوں کا نشانہ بننا پڑا۔ حکمران ِوقت اور بستی والوں کی مخالفت کو برداشت کرنا پڑا۔ توحید سے تعلق کی پاداش میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جلتی ہوئی چتا کے اندر بھی گرایا گیا۔ لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام تواتر اور تسلسل کے ساتھ اللہ تبارک وتعالیٰ کے دین کی دعوت دیتے رہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اپنے وقت کے بااثر ترین ظالموں کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ فرعون کی حکمرانی، قارون کا سرمایہ، ہامان کا منصب اور شداد کی جاگیر لوگوں کے عقائد اور سوچ وفکر پر اثر انداز ہو رہی تھی لیکن حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان تمام با اثرلوگوں سے متاثر اور مرعوب ہوئے بغیر بڑے تواتر کے ساتھ اللہ تبارک وتعالیٰ کے دین کی دعوت دی۔ 
2۔دعوت کے اجر کا اللہ تعالیٰ سے طلب گار ہونا: انبیاء علیہم السلام اپنی دعوتی سرگرمیوں کے حوالے سے فقط اللہ تبارک وتعالیٰ سے اجر کے طلب گار رہے اور انہوں نے اس حوالے سے لوگوں سے کسی قسم کے اجر یا مال کی تمنا نہیں کی۔ چنانچہ سورہ شعراء کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ بات سامنے آتی ہے کہ حضرت نوح ، حضرت لوط حضرت شعیب اور حضرت صالح علیہم السلام نے دعوت دین کے ساتھ ساتھ یہ الفاظ بھی کہے کہ ''اور نہیں میں سوال کرتا اس پر کسی اجرت کامیری اجرت فقط رب العالمین کے ذمے ہے۔‘‘انبیاء علیہم السلام اپنی دعوت کے بدلے دنیا والوں سے کسی قسم کے مفادات یا مال کا مطالبہ نہیں کیا بلکہ ہمہ وقت اللہ تبارک وتعالیٰ سے اجر کے امید وار رہے۔
3۔ حکمت ودانائی: انبیاء علیہم السلام کی دعوت میں حکمت ودانائی کا پہلو بھی پورے عر وج پر نظر آتا ہے۔ چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب ستارہ پرستوں کا تجزیہ کیا تو آپؑ نے ستارے کو ڈوبتے ہوئے دیکھ کر یہ بات کہی کہ مجھے ڈوب جانے والوں سے ـمحبت نہیں، چاند کو ڈوبتے ہوئے دیکھ کر آپؑ نے اللہ تبارک وتعالیٰ سے ہدایت کو طلب کیا اور سورج کو ڈوبتے ہوئے دیکھ کر آپؑ نے ا س بات کا اعلان کر دیا کہ میں اپنے چہرے کا رخ کر لیا اس کے لیے ۔ جس نے آسمانوں وزمین کو پیدا کیا یکسو ہو کر اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام جب دربارِ نمرود میں گئے تو وہاں پر آپؑ کا نمرود کے ساتھ جو مکالمہ ہوا اس موقع پر آپؑ نے نمرود کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی پہچان کرواتے ہوئے فرمایا: میرا رب وہ ہے جو زندہ بھی کرتا ہے اور مارتا بھی ہے۔ ایسے عالم میں نمرود نے کہا میں بھی زندہ کرتا اور مارتا ہوں ۔ اس نے ایک بے گناہ کو موت کے گھاٹ اتار دیا اور ایک مجرم کو آزاد کر دیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام سمجھ گئے کہ نمرود لوگوں کو دھوکا دینا چاہتا ہے۔ چنانچہ آپؑ نے ایسے عالم میں ا س امر کا اعلان فرمایا :بے شک اللہ تعالیٰ وہ ہے جو سورج کو مشرق سے لے کر آتا ہے پس تُو سورج کو مغرب سے لے کر آ۔ اس موقع پر کافر کے لبوں پر چپ کی مہر لگ جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں حضرت سلیمان علیہ السلام کا واقعہ بھی بیان کیا کہ آپؑ نے بڑی حکمت اور دانائی سے اپنے عہد میں ایک علاقے کی حکمران ملکہ سباء کو عقلی دلائل کے ذریعے اس بات کو باور کر وادیا کہ وہ سورج کو رب سمجھنے کی جو غلطی کر رہی ہے اس کو اپنی اصلاح کی ضرورت ہے۔ جب ملکہ سباء حضرت سلیمان علیہ السلام کے سامنے حاضر ہوئی تو حضرت سلیمان علیہ السلام نے اس کے تخت کو بدل کر اس کے سامنے پیش کیا تو وہ اپنے تخت کو پہچان گئی۔ اس کے بعد حضرت سلیمان علیہ السلام نے اس کو اپنے محل کے ایک ایسے حصے کی طرف آنے کی دعوت دی جہاں چمکدار اور نفیس شیشے کا بنا ہوا فرش موجود تھا۔ ملکہ سباء اس شیشے کے بنے ہوئے فرش کو پانی کا بنا ہو ا فرش سمجھ کر اپنی پنڈلی سے اپنے کپڑے کو اُٹھاتی ہے تو حضرت سلیمان علیہ السلام اس کو یہ بات کہتے ہیں: بے شک یہ شیشوں کا جڑا ہو ا ایک فرش ہے اس پر ملکہ سباء اس حقیقت کو بھانپ گئی کہ وہ سورج کو رب مان کر بہت بڑی غلطی کر رہی ہے اور اس کو رب کی پہچان میں بہت بڑی ٹھوکر لگی ہے۔ اس نے اس موقع پر یہ الفاظ کہے بے شک میں نے اپنی جان پر ظلم کیا اور میں مطیع ہوئی سلیمان علیہ السلام کے ساتھ اللہ رب العالمین کے لیے۔
4۔ خیر خواہی: انبیاء علیہم السلام کے اسلوب دعوت میں خیر خواہی کا عنصر بھی پورے عروج پر نظر آتا ہے۔ چنانچہ حضرت شعیب علیہ السلام نے اپنی قوم کے لوگوں کو دعوت دی تو اس موقع پر آپؑ نے اپنی قوم کے لوگوں کو یہ الفاظ کہے کہ میں تمہیں جس چیز سے روکتا ہوں اس میں تمہاری مخالفت نہیں کرنا چاہتا بلکہ فقط تمہاری اصلاح چاہتا ہوں۔ حضرت لوط علیہ السلام نے اپنی قوم کے بھٹکے ہوئے لوگوں کو سیدھے راستے پر آنے کی صورت میں اپنی یا قوم کی پاکباز بیٹیوں کے ساتھ نکاح کی دعوت دی۔ انبیاء علیہم السلام ہمہ وقت اپنی قوم کی اصلاح کے لیے غوروفکر کرتے رہے اور اس حوالے سے ان میں زبردست دردمندی کی کیفیت پائی جاتی تھی۔ تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ نبی کریمﷺ بھی مختلف طرح کی اذیتوں کا سامنا کرنے کے باوجود ہمہ وقت بھٹکی ہوئی انسانیت کو سیدھے راستے کی طرف لانے کے لیے کوشاں رہے۔ طائف کی وادی میں جب آپﷺ کے ساتھ انتہائی ناروا سلوک کیا گیا تو ایسے عالم میں بھی آپﷺ نے اپنے لہو رنگ وجود کے ساتھ بھی طائف کے لوگوں کی تباہی کی دعا نہیں مانگی بلکہ ان کی ہدایت کی دعا مانگی اور یہ الفاظ کہے :''اے اللہ میری قوم کے لوگوں کو ہدایت دے کہ یہ جانتے نہیں ہیں۔ ‘‘
5۔نکتۂ مشترکہ کی طرف دعوت: انبیاء علیہم السلام نے اپنی قوموں کے لوگوں کو سیدھے راستے کی طرف لانے کے لیے توحید کے مشترکہ نکتے پر جمع ہونے کی دعوت دی۔ چنانچہ اہل کتاب کو جب بھی سیدھے راستے کی طرف آنے کی دعوت دی گئی تو ان کو یہ بات بھی کہی گئی کہ اس نکتے کی طرف آجاؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان مشترک ہے کہ ہم اللہ تبارک وتعالیٰ کے سوا کسی کی عبادت نہیں کریں گے اور نہ اس کی ذات کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرائیں گے۔ انبیاء علیہم السلام نے توحید کی آفاقی دعوت کو نکتہ مشترکہ کے طور پر اجاگر کرکے بنی نوع کواس پر مجتمع ہونے کی بھی دعوت دی۔
6۔ تدریج: انبیاء علیہم السلام کی دعوت میں تدریج کا پہلو بھی پایا جاتا تھا۔ چنانچہ وہ انسانوں کو رفتہ رفتہ دین کی طرف دعوت دیتے۔ اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے اور مسلمانوں کو اس کے تمام احکامات کو بغیر کسی کمی بیشی کے ماننا واجب ہے۔ لیکن نزول وحی کے دور میں بہت سے معاملات پر اہل دین کی بتدریج اصلاح کی گئی۔ شراب اور جوئے کی حرمت سے قبل ان کے نقصانات سے اہل ایمان کو آگاہ کیا گیا۔ جب ان کے نقصانات کے حوالے سے اہل ایمان کو شرح صدر حاصل ہو گیا تو نبی کریمﷺ نے اللہ کے حکم پر شراب اور جوئے کو حرام قرار دے دیا۔ 
7۔ علم اور دلائل: انبیاء علیہم السلام کے اسلوب دعوت میں علم اور دلائل کا پہلو بھی نمایاں طور پر نظر آتا ہے اور وہ ہمیشہ بات کو دلائل کی بنیاد پر لوگوں کے سامنے رکھتے اور وحی الٰہی کے ذریعے ملنے والے پیغامات کو بڑے مدلل انداز میں لوگوں کے سامنے رکھتے رہے۔ چنانچہ دین کی دعوت دینے والوں کو دلائل شریعہ کو مدلل انداز میں لوگوں کے سامنے رکھنا چاہیے تاکہ اعمال اور عقائد کی اصلاح ہو سکے۔ 
انبیاء علیہم السلام کے اسلوب دعوت پر عمل کرنے کے ساتھ یقینا مخلوق کی اصلاح کے امکانات بڑھ سکتے ہیں اور یہ یہی طریقہ اور اسلوب دعوت درحقیقت عوام کی اصلاح پر منتج ہو سکتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو انبیاء علیہم السلام کے اسلوبِ دعوت سے استفادہ کرتے ہوئے لوگوں کو سیدھے راستے کی طرف بلانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved